khoobsooratdil Posted May 4, 2015 Share #1 Posted May 4, 2015 آخری خواہش imgur (افسانہ نگار کا نام نا معلوم ) پھانسی سے قبل اُس سے اُس کی آخری خواہش پوچھی گئی تو اُس نے ایک عجیب و غریب خواہش کا اظہار کر کے سب کو چونکا دیا۔،،میں گاؤں کی بڑ والی مسجد کے احاطے میں اُسی منبر پہ کھڑا ہو کے تقریر کرنا چاہتا ہوں۔جس منبر پر کھڑے ہو کر مولوی عبد الکریمنے خطبہ دیا تھا،آخری خطبہ۔۔۔سو پھانسی لگنے والے کی آخری خواہش کا احترام کیا گیا۔بات مارچ ،اپریل کے طوفان کی طرح ہر طرف پھیل گئی۔اُس دن سارےکا سارا گاؤں اُس کی تقریر کے لیے اُمڈپڑاتھا۔گاؤں کی بڑ والی مسجد جس کے احاطے میں معمول کے طور پر جمعہ کے روز بھی چند نمازیہوا کرتے تھے اُس روز بھری ہوئی تھی۔لوگ مسجد کے احاطے سے باہر بھی اُمڈ آئے تھے وہ یہ جاننے کے سخت مشتاق تھے کہ وہ اپنی تقریرمیں کیا کہنے والا ہے۔اُس کو پولیس کی نِگرانی میں لایا گیا۔بڑے خصوع و خشوع کے ساتھ اُس نے وُضو کیااور اُس منبر کے سامنے کھڑاہو گیاجس پر کھڑے ہو کر مولوی عبدالکریم گاؤں کے نمازیوں کو خطبہ دیا کرتا تھا۔مولوی عبدالکریم اُس کا مقتول۔۔۔۔۔اُس دن سے عین ایک سال قبل اپریل کے مہینے میں گندم کی کٹائی کے بعد وہ گاؤں کی طرف لوٹ رہا تھا۔جمعہ کا دن تھا غضب کی گرمیپڑ رہی تھی مگر بدن سہتا تھا۔وہ گاؤں کی مسجد والی گلی میں داخل ہوا تو مولوی عبدالکریم منبر پر کھڑا خطبہ دے رہا تھا۔مسجد کے احاطے کی کوتاہچار دیواری اندر باہر کے بھیدوں کو محفوظ رکھنے میں ناکام تھی کہ مولوی کی آواز اُس کے کانوں میں پڑی،،عورت فتنہ ہے۔یہ آدم کو جنت سے نکلوانے والی ہے۔خدا کا وعدہ ہے کہ روزِ قیامت جہنم کے اندر سب سے ذیادہ عورتیں جائیں گیکیونکہ عورت ناقص العقل اور نا قص الدین ہے۔ایمان والے مردو!جس قدر ہو سکے عورت سے بچو۔اِس سے گُریز کرو۔یہ اپنی طرفمائل کرتی ہے اور مائل ہونے والوں کو گھائل کرتی ہے۔اِس پہ نظر پڑ جائے تو فوراً استغفر اللہ کا وِرد کرو تا کہ تمہاری نِگاہ پاک رہے۔یہ پاکبازمردوں کی شان ہے۔۔۔۔۔اُس سے آگے معلوم نہیں مولوی عبدالکریم کیا کیا کہتا رہا۔اُس نے نہیں سُنا ۔اُس کی آنکھیں دھندلا گئی تھیںاور کانوں کے اندر طوفانوں کا شور سما گیا تھا۔نہ جانے کیسے اُس کا دایاں ہاتھ نیچے کی طرف جھکا۔کچی پکی اینٹوں کی دیوار کے ساتھ نالی کےپاس اینٹ روڑوں کا ڈھیر لگا تھا۔اُس نے ایک اینٹ روڑہ اُٹھایا اور گھما کر پورے زور کے ساتھ مولوی عبدالکریم کے منہ پر دے مارا۔اینٹ روڑہ شاید مولوی عبدالکریم کی کنپٹی پر لگا تھا کہ پہلے تو مولوی سمجھ ہی نہ سکا کہ ہوا کیا ہے۔اُس کے بعد وہ سر پکڑ کر وہیں دوہرا ہو گیانمازیوں نے فوراً مڑ کر دیوار کی اُس طرف دیکھا جِدھر سے وہ روڑہ آیا تھا۔وہاں وہ کھڑا تھا۔بے حِس و حرکت۔مولوی عبدالکریم کی ہلاکت ہو گئی تھی۔وہ چپ چاپ جا کر تھانے میں پیش ہو گیاتفتیش سے لے کر جیل اور پھانسی کی سزا کے فیصلے تک اُسنے زبان نہیں کھولی۔زبان کھولی تو اُس دن جس دن اُس سے اُس کی آخری خواہش پوچھی گئی۔آخری خواہش وہ بھی کیسی عجیب و غریب۔۔۔وہ منبر پہ کھڑا تھا۔لوگ بے تابی سے چُپ سادھے ہوئے تھے اور وہ اِضطراب سے چُپ تھا۔لوگ جاننا چاہتے تھے کہ اُس نے اتنے شریفالنفس مولوی کو کیوں مارا۔ہر طرف سنّاٹا تھا۔آج بھی اُس دن کی طرح گرمی تھی لوگ اپنے اپنے پسینے کے اندر تر بتر دم سادھے بیٹھےتھے کہ اچانک اُس کی آواز اُبھری۔۔،،حاصل پور کی گندم پکی کھڑی ہے اور تم سارے اس کو چھوڑ کے یہاں بیٹھے ہو۔اِن دور دور تک پھیلے کھیتوں کے درمیان کہیں میرابھی کھیت ہے اور اِن کھیتوں کے پار ایک قبرستان ہے جس میں میرا فضل حسین دفن ہے۔اُس کی دادی اور چاچے دفن ہیں اور اب باپ بھی دفن ہو جائے گا۔اِن کھیتوں کے اندر ہمارے پسینے دفن ہیں۔ہمارے خون ہماری ہڈیاں دفن ہیں۔ہماری محبتیں،ہماری محبتوں کے سجیلےموسم بھی اِن کھیتوں کے اندر دفن ہو گئے ۔اِس سنہری جھپک کی خاطرہم نے وہ موسم بھی گنوا دیے جو اپنی کوکھ میں ملن اور ملاپ کی سوغاتیںاور پیغام لے کر آتے تھے۔اُس پر بھی خدا نظریں گاڑے بیٹھا رہتا۔خدا جو مسجد میں رہتا ہے۔مسجد خدا کا گھر جو ہے۔خدا اپنے نمائندوںکی زبان سے باتیں کرتاعورت اور محبوبہ سے نفرت کرنا سکھاتا۔خدا محبت کے خلاف کیوں ہوتا ہے؟ وہ چیخ پڑا اُس کی آواز پھٹ رہی تھیایک نوجوان دوڑ کے اس کے لیے پانی لے آیا۔پانی کو اس نے غٹا غٹ پی لیا۔کچھ دیر تک ہانپنے ک انداز میں لمبے لمبے سانس لیتا رہاپھر بول پڑا،،اس نے ہمارے سارے حسین موسم غارت کر دیے۔سردیوں کی طویل راتیں،گیدڑوں کی ہونکار،گنے کا رس اور گرم بستر کیحرارت ہمیں دعوتیں دیتی۔مگر ہم نے یہ ساری دعوتیں ٹھکرا دیں ہم کھیتوں کی مینڈھیں ٹھیک کرتے رہے۔ہم نّکے سے لے کر کھیت تکنہری پانی کی کھالیوں اور کاریزوں کے پھیرے لگاتے رہے۔تا کہ وہ سارا پانی سیدھا اُن کھیتوں تک جائے جنہوں نے ہمیں زندگیدینی تھی اور جو ہماری جنّت کی ضمانت تھے۔اور جن کے غلّے کا ایک حصّہ ہم نے مسجد کو دان کر کے خدا کو راضی کرنا تھا۔خدا مگر اِس پر بھیخوش نہ تھاخدا کس بات پر خوش تھا ہم کبھی نہ جان سکے۔ہم درانتیاں پکڑے کھیت کاٹ رہے ہوتے تو وہ ہمیں دنیا داری کی غلاظت میں جکڑےہوئے لوگ کہا کرتا۔اور پکارتا۔نماز کی طرف آؤ!فلاح کی طرف آؤ!ہم درانتیاں رکھتے اور چل پڑتے۔ہم خدا ک لیے جی رہے تھےاور اُسی کے لیے مر رہے تھے کہ لوگو میرا،،فضل حسین ،،مر گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اُس نے دھاڑیں مار مار کر رونا شروع کر دیا۔مسجد کیکوتاہ دیوار کے پار عورتوں کے درمیان سہارا لے کر کھڑی اُس کی بیوی نے بھی چیخیں مارنی شروع کر دیں۔لوگوں میں چہ میگویاں شروع ہو گئیں۔ایک نوجوان اٹھا اور بھاگ کر پانی کا کٹورہ لے آیا مگر اس نے اب کی بار پانی قبول نہیں کیاوہ اپنے ہی آنسوؤں کے ہڑ میں ڈوبا ہوا تھا۔اب اس کی آواز سرگوشیوں میں بدل گئی تھی۔وہ بھی گرمیوں کی کھٹی میٹھی دوپہر تھی جب میرا فضل حسین مسجد سِپارہ پڑھنے گیا تھا۔اور جبدیر تک نہیں لوٹا تو میں خود لینے گیا۔لوگو جانتے ہو جب میں اپنے آٹھ سال کے فضل حسین کو لے کر مسجد سے نکلا تو وہ میری انگلی پکڑے چلنہیں رہا تھا۔اس کی لاش میرے بازوؤں میں تھی۔وہ مولوی عبدالکریم کے پاس صبح کا سِپارہ پڑھنے گیا تھا۔لوگو!جانتے ہو ناں جس دن مولوی عبدالکریم کا جنازہ اٹھا اُس دن میرے فضل حسین کو مرے ہوئے بیالیسواں دن تھا۔وہ میرے،،فضل حسین ،، کے مرنے کے صرف بیالیس دن بعد جمعہ کے خطبے میں تم سارے گاؤں والوں کو عورتوں کے خلاف بھڑکا رہا تھاصرف بیالیس دن بعدصرف بیالیس دن بعدسر گوشیوں کا بھی دم ٹوٹ گیا تھا۔لوگوں کی آنکھوں کے آگے سے سارے پردے اٹھ گئے تھے۔سب دم بخود تھے کہ اچانک جنوب سےسرخ طوفان اٹھا اور آناًفاناًہر طرف پھیلتا چلا گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 5 Link to comment
Administrators Administrator Posted May 5, 2015 Administrators Share #2 Posted May 5, 2015 Sir kahani achi hai magar kuch adhori si lag rahi hai ? 1 Link to comment
katita Posted May 5, 2015 Share #3 Posted May 5, 2015 KUCH PALAY NAI PARA........................ YA TO MUJHAY SAMJH NAI AYI YA KAHANI HALF HA ABI 1 Link to comment
irfan1397 Posted May 5, 2015 Share #4 Posted May 5, 2015 molvi ne os k bety k sath quom e loot wala kam kia tha jis se wo mar gia . abi os k bety ko mary huye 42 din he huye thy k molvi aurton se nafrat ka daras de raha tha . matlb k osy quom e loot wala kam pasand tha jisy wo berdashat na ker saka aur molvi ko qatal ker dia . complete afsana hai ye . 3 Link to comment
khoobsooratdil Posted May 5, 2015 Author Share #5 Posted May 5, 2015 Jahan tak meri maloomat han Afsaana aisa hi hota ha k lagta ha k baat adhoori reh gaee mager us k ander mukamal baat chupi hoi hoti ha jis ko samajhna perta ha jesa k Irfan bhai ne tashreeh ker di ha umeed ha ab aap samajh gay hon gy? 1 Link to comment
Administrators Administrator Posted May 6, 2015 Administrators Share #6 Posted May 6, 2015 Thora sa gumaa is baat ka mujhy bhi hoa tha mgr main bhi baat ko theek se samajh nhn saka tha...irfan...Wazahat ka shukriya is se sab members ko easy pta chal jaye ga k kahani main kia point hai 1 Link to comment
Young Heart Posted June 30, 2015 Share #7 Posted June 30, 2015 بہت عمدہ افسانہ تھا- مختصر اور مکمل - جس میں غیر ضروری واقعات کی تفصیل میں جانے کی بجائے احساسات اور جذبات پر فوکس کیا گیا 1 Link to comment
Recommended Posts
Create an account or sign in to comment
You need to be a member in order to leave a comment
Create an account
Sign up for a new account in our community. It's easy!
Register a new accountSign in
Already have an account? Sign in here.
Sign In Now