Disable Screen Capture Jump to content
ALL ADULT SECTION CLOSED IN MONTH OF RAMZAN ×
URDU FUN CLUB

Young Heart

Silent Members
  • Posts

    1,815
  • Joined

  • Last visited

  • Days Won

    184

Young Heart last won the day on May 24 2023

Young Heart had the most liked content!

1 Follower

About Young Heart

Recent Profile Visitors

8,732 profile views

Young Heart's Achievements

Collaborator

Collaborator (7/16)

  • First Post
  • Collaborator Rare
  • Posting Machine Rare
  • Reacting Well
  • Very Popular Rare

Recent Badges

2.8k

Reputation

  1. دال مونگی دی پھدی گونگی دی چوت نرس دی دنیا ترس دی لوڑا سردار دا بڑکاں مار دا ممہ جٹی دا پیار نال پٹی دا گل پیار دی بنڈ دیدار دی سُوٹا چرس دا کُوسا نرس دا کلفی کھویے دی بنڈ لوئے دی لن قصائی دا تے نو وی چائی دا
  2. شاید یہ محبت ہے مجھے اس شخص سے کل تک محبت تھی، حماقت آج لگتی ہے مجھے اچھا لگا شاید اور اس سے بڑھ کے کب کچھ تھا؟ مگر میں یہ سمجھ بیٹھی کہ شاید یہ محبت ہے اور اب جب مجھ کو سچ مُچ دل کی گہرائی سے کوئی بھا گیا جاناں تو میں اس سوچ میں خاموش بیٹھی ہوں کہ کچھ کہنا نہیں مجھ کو میں کیوں دل میں چھپے جذبے عیاں کر دوں قوی امکان ہے کل یہ بھی پچھتاوا نہ بن جائے میں اس لمحے سے ڈرتی ہوں
  3. جنسی جرائم کے ذمہ دار صرف مرد ہیں رائٹر: سلیم ملک آپ سارے بڑے قابل لوگ ہیں اور اعلی عہدوں پر فائز ہیں۔ آپ کی زندگی میں یہ کتنی دفعہ ہوا کہ کوئی عورت آپ کے پاس آئی ہو اور اس نے آپ کو دعوت “گناہ” دی ہو۔ سب لوگ اپنے اندر سوچنے لگ گئے لیکن کسی نے کوئی جواب نہ دیا۔ اس خاموشی کا مطلب واضح تھا۔ اور بول کر بھی اس بات سے کے ساتھ تقریبا سبھی نے اتفاق کیا کہ ایسے واقعات کم ہی ہوتے ہیں کہ عورت کسی مرد پاس ائے اور جنسی عمل کی دعوت دے۔ پھر پوچھا گیا کہ آپ نے کتنی مرتبہ زندگی میں کسی عورت کے بارے میں ایسا سوچا اور کتنی دفعہ ایسا کر ہی ڈالا۔ یعنی ہمت کر کے “اظہار محبت” کر دیا۔ اس بات پر بھرے ہال میں ایک مسکراہٹ دوڑ گئی اور آہستہ آہستہ ہنسی میں بدل گئی۔ اس بات سے اتفاق کیا گیا کہ اس طرح کے واقعات تو بہت ہوتے ہیں کہ جب مرد نے عورت کو جنسی عمل یا جنسی تعلق قائم کرنے کی دعوت دی ہو۔ اور اس بات پر بھی کافی اتفاق تھا کہ ایسا سوچا تو اکثر ہی جاتا ہے کہ کاش میں اس خاتون سے یہ بات کہہ سکوں۔ لیکن بے عزتی کے ڈر سے بہت دفعہ مرد ایسا کر نہیں پاتے یعنی اپنے ارادوں یا خواہشوں کو عملی رنگ نہیں دے پاتے۔ انسانی تاریخ گواہ ہے کہ مرد ہی سیکس ورکرز (عورت، مرد یا خواجہ سرا) کو جنسی “فیور” کے بدلے باقاعدہ رقم کی ادائیگی کرتے ہیں۔ جب کہ دنیا کے تقریبا ہر ملک اور تہذیب میں اس کی سزا ہمیشہ سیکس ورکر عورت کو ہی ملتی رہی۔ اب بھی دنیا کے زیادہ تر ممالک میں یہی ہو رہا ہے۔ ہاں البتہ یورپ کے چند ممالک میں یہ قانون بن گیا ہے کہ مجرم جنسی عمل کے لیے ادائیگی کرنے والے کو قرار دیا گیا ہے نہ کہ رقم وصول کرنے والے کو۔ اس بات سے بھی اتفاق کیا گیا کہ جنسی عمل کے لیے ادائیگی بہرحال مرد ہی کرتے ہیں۔ بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی جیسا گھناؤنا جرم بھی مردوں ہی کے ہاتھوں ہوتا ہے۔ پاکستان میں “روزن” نام سے کام کرنے والی ایک این جی او ایسے بچوں اور بچیوں کی کونسلنگ کرتی ہے جن کے ساتھ جنسی زیادتی ہوئی ہو یا ہو رہی ہو۔ ایسے مسائل کا شکار بچے اور بچیاں انہیں خط بھی لکھتے ہیں اور رہنمائی مانگتے ہیں۔ بچوں اور بچیوں کی جانب سے موصول ہونے والے ایسے ایک سو خطوط کا جائزہ لیا گیا تو معلوم ہوا کہ بچوں اور بچیوں کے ساتھ زیادتی کرنے والے 96 فی صد مرد تھے اور چار فیصد عورتیں تھیں۔ صرف اور صرف مرد ہی عورتوں، بچوں اور بچیوں اور خواجہ سراؤں کو جنسی طور پر ہراساں کرتے ہیں۔ یہ جرم اتنا عام ہے کہ شاید ہی کوئی عورت یا خواجہ سرا ایسی ہو جس نے اپنی زندگی میں کئی کئی بار اسے برداشت نہ کیا ہو۔ اور جہاں تک جنسی ہراسانی کے خوف کا تعلق ہے تو اس جرم کے عام ہونے کی وجہ سے ہر عورت اور خواجہ سرا کو اس کا خوف تو رہتا ہی ہے۔ ایک اور مکروہ حقیقت یہ بھی ہے کہ صرف مرد اپنی جنسی بھوک مٹانے کے لیے انسانوں کے علاوہ جانوروں کو بھی استعمال کرتے ہیں۔ اس طرح کے واقعات آئے دن پیش آتے ہیں اور ایسے واقعات میں کبھی بھی عورت ملوث نہیں پائی گئی۔ یہ گفتگو عدلیہ کے شعبے سے تعلق رکھنے والے ساٹھ کے لگ بھگ افسران کے ساتھ کی جا رہی تھی۔ ان کے سامنے یہ سلائیڈ چلائی گئی کہ “جنسی جرائم کا ذمہ دار مرد ہوتا ہے” تو انہوں نے یک زبان ہو کر پورے زور سے یہ کہا کہ وہ اس بات سے اتفاق نہیں کرتے۔ لیکن اوپر دی گئی بحث کے بعد اس مزاکرے میں موجود افسران کی ایک بھاری اکثریت نے اس بات سے اتفاق کیا کہ جنسی جرائم کے ذمہ دار مرد ہی ہوتے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ گفتگو ان کے لیے ایک سرپرائز سے کم نہ تھی۔ ہماری پولیس اور عدلیہ کے لیے یہ بات سمجھنا بہت اہم ہے کہ جنسی جرائم کا ارتکاب مرد ہی کرتے ہیں۔ بیچاری عورتیں، بچیاں، بچے اور خواجہ سرا تو اس ظلم کا شکار ہوتے ہیں۔
  4. میرے ہمسفر، تجھے کیا خبر یہ جو وقت ہے کسی دھوپ چھاؤں کےکھیل سا اسے دیکھتے، اسے جھیلتے میری آنکھ گرد سے اٹ گئی میرے خواب ریت میں کھو گئے میرے ہاتھ برف سے ہو گئے میرے بے خبر، تیرے نام پر وہ جو پھول کھلتے تھے ہونٹوں پر وہ جو دیپ جلتے تھے بام پر وہ نہیں رہے وہ نہیں‌رہے کہ جو ایک ربط تھا درمیاں وہ بکھر گیا وہ ہوا چلی کہ جو برگ تھے سرِ شاخِ جاں، وہ گرا دیئے وہ جو حرف درج تھے ریت پر، وہ اڑا دیئے وہ جو راستوں کا یقین تھے وہ جو منزلوں کے امین تھے وہ نشانِ پا بھی مٹا دیئے میرے ہمسفر، ہے وہی سفر مگر ایک موڑ کے فرق سے تیرے ہاتھ سے میرے ہاتھ تک وہ جو ہاتھ بھر کا تھا فاصلہ کئی موسموں میں بدل گیا اسے ناپتے، اسے کاٹتے میرا سارا وقت نکل گیا تو میرے سفر کا شریک ہے میں تیرے سفر کا شریک ہوں پر جو درمیاں سے نکل گیا اسی فاصلے کے شمار میں اسی بے یقیں سے غبار میں اسی راہ گزر کے حصار میں تیرا راستہ کوئی اور ہے میرا راستہ کوئی اور ہے
  5. کوئی شک نہیں ایک نہایت ہی افسوس ناک واقعہ ہے - لیکن حیرت نہیں ہوئی ۔ کیونکہ یہ باتیں پھیل رہی ہیں کہ پیار محبت کے چکروں میں لڑکیوں کی ویڈیوز بنا کر بلیک میل کرنے کے واقعات بڑھتے جارہے ہیں چونکہ انجام قتل کی صورت میں ہوا ۔ اسلیے یہ مشہور ہوگیا اور میڈیا کی زینت بن گیا یہ ایک آئینہ بھی ہے ۔ ہمارے معاشرے کی بگڑتی ہو صورت کا لمحہ فکریہ ہے والدین کے لیے - خصوصا ماوں کے لیے ۔۔ جن کے لیے اولین ترجیح اولاد کو ٹائم دینے سے زیادہ کیریئر اور جاب ہے دونوں والدین فیکٹری میں جاب کرتے ہیں ۔ تو ظاہر کا شام کو ہی لوٹتے ہونگے بچوں کو زندگی کی باقی سہولیات تو میسر ہیں، تعلیم، سہولتیں، موبائیل وغیرہ ۔ لیکن شاید والدین کا وقت نہیں ۔ خصوصا ماں کا وقت تو یہ والدین کما کن کے لیے رہے ہیں ۔ یہی کہ بچوں کا مستقبل بنائیں وہ بھی انہیں وقت دیے بغیر اور نتیجہ کیا ہوا ۔ ایک بیٹی قتل اور دوسری کی زندگی برباد دوسری اہم بات یہ کہ ہم نے اس موضوع پر بھی خاصی گفتگو کی کہ پیار محبت کے چکروں میں آج کل کے دور میں سیکس تک پہنچنے کا امکان کہیں زیادہ ہوگیا ہے وجہ انٹرنیٹ اور میڈیا پر جنسی مواد کی فراوانی ایک بڑی تحریک ہے - لیکن اسے بدترین شکل دے دی ہے موبائیل کیمروں یا خفیہ کیمروں کی ٹیکنالوجی نے ۔ اب صرف سیکس نہیں ہوتا بلکہ ویڈیوز بنتی ہیں اور بلیک میلنگ ہوتی ہے سوچنے کی بات یہ ہے کہ ابھی لڑکیوں کی عمر ہی کیا تھی ۔۔۔ سولہ اور اٹھارہ سال ۔۔۔ اور یہ سب سلسلہ نہ جانے کب سے جاری تھا ۔۔۔ جب شروعات ہوئی ہونگی تو عمر مزید کم ہوگی یہ واقعہ تو مشہور ہوگیا اب یہ نہیں معلوم کہ معاشرے میں کتنے فیصد لڑکیاں اس دلدل میں پھنس چکی ہیں
  6. کراچی : ملیرکے علاقے سعود آباد میں لڑکی کے قتل کا ڈراپ سین ہوگیا جہاں اس کی قاتل کوئی اور نہیں بلکہ سگی بہن ہی نکلی۔ ایکسپریس نیوز کے مطابق کراچی کے علاقے سعود آباد میں چھریوں کے وارسے لڑکی کے قتل کی تحقیقات میں پیش رفت ہوئی اور ملزمان نے پولیس کو ساری حقیقت خود ہی بتادی۔ پولیس کے مطابق معاملہ ڈکیتی کا نہیں بلکہ بہن علوینہ نے ہی منگیتر مظہر کے ساتھ ملکر بہن علینہ کو چھری سے قتل کیا۔ پولیس نے ملزمان کے قبضے سے 80 ہزار روپے اور6 موبائل فون بھی برآمد کرلئے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ قتل ہونے والی علینہ اپنی بڑی بہن کی دوستی عباس نامی شخص سے کرانا چاہتی تھی۔ سگی بہن کے قتل میں ملوث علوینہ نے میڈیا کے سامنے اقبال جرم کرتے ہوئے بتایا کہ بہن علینہ کے دوست احسن نے میری نازیبا وڈیو بنائی تھی، بہن کے پاس ثبوت تھے، میں نے اسے ویڈیو ڈیلیٹ کرنے کے لیے کہا اور اس کے پاؤں بھی پکڑے، لیکن وہ نہیں مانی بلکہ اپنے دوستوں احسن اور عباس کے ساتھ مل کر مجھے ایک سال تک بلیک میل کرتی رہی۔ ملزمہ علوینہ نے بتایا کہ میں نے اپنے منگیتر مظہر کو اعتماد میں لے کر سب کچھ بتادیا، منگیتر کے سمجھانے پر بھی علینہ اپنی حرکتوں سے باز نہ آئی، علینہ احسن اورعباس کے ساتھ مل کر بلیک میل کرتی تھی، جس پر میں نے مظہر اور اس کے ایک دوست سے مل کر بہن کو قتل کردیا۔ قتل کے بعد شک نہ ہو اس لیے فون اور نقدی لے جانے کا فیصلہ کیا تاکہ ڈکیتی کا رنگ دیا جاسکے۔ مظہرنے اپنے بیان میں کہا کہ احسن اورعلینہ دونوں مل کرمنگیترعلوینہ کوبلیک میل کررہے تھے، وہ دونوں باربارکہتے تھے کہ گھرمیں نا زیبا وڈیوزدکھادیں گے جس کے بعد رشتہ ختم ہوجائے گا، منگیتربہت پریشان رہتی تھی اس نے کہا کہ یا تو میں خود مر جاؤں گی یا ماردوں گی، جس کے بعد ہم نے قتل کا فیصلہ کیا۔ میڈیا بریفنگ میں ایس ایس پی کورنگی نعمان صدیقی نے والدین پر زور دیا کہ اپنے بچوں کو موبائل فون دینے سے گریز کریں اور ان پر کڑی نظر رکھیں۔ واضح رہے کہ 5 روز قبل کراچی کے علاقے سعود آباد ملیر میں ملزمان نے گھر میں گھس کر ایک لڑکی کو قتل اور دوسری کو زخمی کردیا تھا۔ زخمی بہن کی جانب سے یہ تاثر دیا گیا تھا کہ ڈاکوؤں نے مزاحمت پرعلینہ کو چھری کے وارکرکے ماردیا اور قتل کے وقت گھر میں دونوں بہنوں کے علاوہ کوئی اور نہ تھا۔
  7. خبر: ۱۰ دسمبر ۲۰۱۷ چھوٹی بہن بلیک میل کرتی تھی، قاتل علوینہ کا بیان ملیر سعود آباد میں لڑکی کے قتل کا معمہ حل ہوگیا، سگی بہن علوینہ نے چھوٹی بہن علینہ کو قتل کرایا۔ ایس ایس پی کورنگی نعمان صدیقی نے نیوز کانفرنس میں لرزہ خیز قتل کی تفصیلات سے آگاہ کیا۔ اس موقع پر ملزمہ علوینہ اور اس کا منگیتر مظہر بھی موجود تھا۔ نعمان صدیقی نے بتایا کہ علینہ کو قتل کرنے کی واردات بہیمانہ ہے،سعودآباد پولیس کو پہلے ہی علوینہ پر بہن کو قتل کرنے کا شک ہوگیا تھا۔ ایس ایس پی کورنگی نے کہا کہ والدین بچوں کو اسمارٹ فون دیتے ہیں لیکن خطرات نہیں بتاتے،ہمیں سوچنا چاہیے کہ معاشرہ کہاں جا رہا ہے۔احسن اور عباس لڑکیوں کو بلیک میل کرتے تھے،احسن اور عباس جیولری کی دکان پر کام کرتے تھے۔ ملزمہ علوینہ نے اعتراف کیا کہ احسن کی وجہ سے اس کے بہن کے ساتھ اختلافات تھے، احسن کے پاس اس کی کچھ نازیبا تصاویر اور ویڈیوز تھیں اور اسی وجہ سےعلینہ اور احسن اسے بلیک میل کیا کرتے تھے۔ ملزمہ نے بتایا کہ میرے منگیتر نےعلینہ کو سمجھایا،لیکن وہ نہ سمجھی،علینہ اورمجھ میں اختلافات بھی احسن کی وجہ سے ہوئے۔بہن کو ویڈیو ثبوت مٹانے کا کہا تھا،میں نے علینہ کے پاؤں پکڑے،لیکن پھر بھی بلیک میل کرتی تھی،امی کو بتاتی تھی تو وہ مجھے مارتی تھیں۔ علوینہ نے بتایا کہ میں اپنی بہن کو سمجھانے کی بہت کوشش کی مگر وہ نہ مانی تو میں نے اپنے منگیتر کی مدد سے اس کو قتل کردیا۔شک نہ جانےکی خاطرمیں نےنقدی ساتھ لے جانے کا کہا۔ملزمہ نے اعتراف کیا کہ میں نےفون اور رقم لے جانے کو کہا تھا۔ اس موقع پر ملزمہ علوینہ کے منگیتر مظہر نے میڈیا کے سامنے بیان دیا کہ علینہ کے پاس قابل اعتراض تصاویرتھیں۔ واضح رہے کہ 5دسمبر کوعلینہ کو گلا کاٹ کر قتل کیا گیا تھا، دو ملزمان گھر سے نقدی اور سونا بھی لوٹ کر فرار ہوگئے تھے۔ پولیس کے مطابق زخمی لڑکی نےپولیس کو بیان دیا کہ منگل کی صبح 2نقاب پوش مسلح ملزمان عقبی دیوار سے کود کر گھر میں داخل ہو ئے لوٹ مار کی کوشش کی جس پر چھوٹی بہن نے ایک ملزم پر چھری سے حملہ کردیا جس پر ملزمان نے اس سے چھری چھین کر مقتولہ کے گلے پھیر کرذبح کردیا اور اسکو بھی چھری مار کر زخمی کردیا۔
  8. محبت ذات ہوتی ہے۔۔۔۔۔ کوئی جنگل میں جا ٹہرے کسی بستی میں بس جائے محبت ساتھ ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ محبت خوشبوؤں کی لے محبت موسموں کی دھن محبت آبشاروں کے بہتے پانیوں کا من محبت جنگلوں میں رقص کرتی مورنی کا تن محبت برف پڑتی سردیوں میں دھوپ بنتی ہے محبت چلچلاتے گرم صحراؤں میں ٹھنڈی چھاؤں کی مانند محبت اجنبی دنیا میں اپنےگاؤں کی مانند محبت دل۔۔۔۔۔۔۔۔۔ محبت جاں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ محبت روح کا درماں۔۔۔ محبت مورتی ہے۔ اور کبھی جو دل کے مندر میں کہیں پر ٹوٹ جائے تو؟؟؟؟؟؟ محبت کانچ کے گڑیا فٍضاؤں میں کسی کے ہاتھ سے گر چھوٹ جائے تو؟؟؟؟؟ محبت آبلہ ہے کرب کا اور پھوٹ جائے تو؟؟؟؟؟ محبت روگ ہوتی ہے ۔۔۔۔۔ محبت سوگ ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ محبت شام ہوتی ہے ۔۔۔ محبت رات ہوتی ہے۔۔۔۔۔ محبت جھلملاتی رات میں برسات ہوتی ہے محبت نیند کی رت میں حسیں خوابوں کے رستوں پر سلگتے، جاں کو آتے ،رتجگوں کی گھات ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔۔ محبت جیت ہوتی ہے؟؟؟ محبت مات ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔ محبت ذات ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
  9. لوڑا میرا بہت توانا ہے چوت میں تیری نرم دانہ ہے تیرا چا چا بھی ماں کا لوڑا تھا تیرا ما ما بھی ماں چدا تا ہے جو لگاتا ہے میرے سامنے مٹھ۔۔ نہیں کوئی غیر تیرا نانا ہے آپ چدو ہیں یا آپ کی دوست کیا مجھے چود کر بتانا ہے کیوں میں ڈالوں آپ کی چوت میں کیا مجھے اپنا لنڈ جلانا ہے ٹٹے ایسے بٹن ہیں لوڑے کے جن میں مستی کا سب خزانہ ہے اب تو ہر لڑکا لڑکی چودے گا آخر اس نے بھی لطف اٹھانا ھے
  10. گجرات ویڈیو سکینڈل، ملزم نے دکان میں خفیہ کیمرہ لگا رکھا تھا، خودکشی کرنیوالی طالبہ کی ویڈیو برآمد گجرات(ویب ڈیسک) گجرات ویڈیو سکینڈل میں اب تک تین بچیوں کے کیس سامنے آچکے ہیں،گرفتار ملزم سہیل نے اپنی دکان کے اندر خفیہ کیمر لگارکھا تھا اور تصویروں کو فوٹوشاپ کے ذریعے ا یڈٹ کرکے لڑکیوں کو بلیک میل کرتا تھا جبکہ بلیک میلنگ پر نویں جماعت کی طالبہ رمشا نے خود کشی کی کوشش کی تھی۔ ایک طالبہ کے گھر والے بدنامی کے خوف سے اپنا گاؤں ہی چھوڑ کر چلے گئے۔ انکوائری افسر اعجاز احمد کے مطابق یہ وقوعہ تین ماہ پہلے کا ہے۔ پولیس ملزم کے قبضے سے ا ب تک صرف رمشا کی ویڈیو ہی برآمد کرسکی جبکہ دیگر ملزمان کی گرفتاری کیلئے چھاپے مارے جارہے ہیں۔ تفصیلات کے مطابق ضلع گجرات کے علاقے کنجاہ میں منظر عام پر آنے والے ایک ویڈیو سکینڈل کی وجہ سے خصوصاً طالبات کے والدین میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔ دوسری طرف تھانہ کنجاہ میں اس کیس کی ایف آئی آر 17/120 زیر دفعہ 293,386,376 ت پ درج کرکے مرکزی ملزم سہیل طارق کو گرفتار کرلیاگ یا، جبکہ اس کا والد عبدالحق اور دوبھائی نعمان طارق اور سمیع طارق کی گرفتاری کیلئے پولیس چھاپے ماررہی ہے۔ نازیبا ویڈیو اور تصاویر بنا کر طالبات کو بلیک میل کرنے کا یہ افسوسناک واقعہ کنجاہ کی جنوب مغربی جانب قریباً12 کلومیٹرکی مسافت پر واقع موضع ’’لنگے‘‘ میں پیش آیا۔ مقامی ذرائع نے امت کو بتایا کہ ملزم سہیل نے اپنے گاؤں میں ہی جنرل سٹور کھول رکھا تھا اور اس کے ساتھ ہی وہ موبائل فون میں ایزی لوڈ کا کام بھی کرتا تھا۔ علاوہ ازیں اپنے موبائل فون میں اس سے گانے وغیرہ بھی اپ لوڈ کراتے تھے۔ ذرائع کے مطابق ملزم نے دکان کے اندر ایک خفیہ کیمرہ بھی لگا رکھا تھا، جس میں وہ خاص طور پر دکان پر آنے والی طالبات اور خواتین کی تصویریں بناتا تھا۔ بعدازاں وہ فوٹوشاپ کے ذریعے ان تصاویر کو ایڈٹ کرکے انہیں نازیبا تصویر میں بدل دیتا اور پھر اسی کی بنیاد پر طالبات کو بلیک میل کرتا۔ اسی طرح اگر کوئی اس کے پاس گانا وغیرہ اپ لوڈ کرانے کیلئے موبائل فون لاتا تو وہ اس میں سے ڈیٹا چوری کرکے وہاں موجود تصاویر کی بھی اپنی مرضی سے ایڈیٹنگ کردیتا۔ قریباً تین ماہ قبل اسی گاؤں کے ایک غریب کسان مظہر اقبال کی بیٹی رمشا طاہرہ ایزی لوڈ کرانے کیلئے سہیل کی دکان پر آئی۔ روزنامہ نوائے وقت کے مطابق نویں جماعت کی طالبہ رمشا کو ملزم بہلا پھسلا کر دکان کے اوپر بنے کمرے میں لے گیا اور وہاں اس کے ساتھ صرف زیادتی کا ارتکاب کیا بلکہ اس کی اپنے موبائل پر ویڈیو بھی بنائی، جسے بعدازاں ایک یو ایس بی میں محفوظ کرلیا۔ سہیل کی دکان پر اسی گاؤں کا ایک لڑکا کاشف عرف کاشی بطور ملازم کام کرتا تھا۔ چند روز قبل مذکورہ یو ایس بی اس لڑکے کے ہتھے چڑھ گئی۔ اس نے جب یو ایس بی کو کھنگالا تو اس میں سے رمشا کی ویڈیو بھی برآمد ہوئی۔ کاشف نے اس نازیبا ویڈیو کو اپنے تک رکھنے یا ضائع کرنے کے بجائے اپنے دوستوں کے سامنے پیش کردیا۔ اس طرح ویڈیو اور اس کے ساتھ جڑی کہانی پورے گاؤں کے لڑکوں میں پھیل گئی۔ جب اپنی ویڈیو عام ہونے کی خبر رمشا تک پہنچی تو اس نے زہریلی دوائی پی کر خود کشی کرنے کی کوشش کی۔ رمشا کو تو بروقت طبی امداد دے کر بچالیا، لیکن اس طرح یہ سکینڈل منظر پر آگیا۔ اس سلسلے میں رمشا کے چچا اور اس مقدمہ کے مدعی افضال احمد نے امت کو بتایا کہ ہماری بچی کے ساتھ بلیک میلنگ کا یہ سلسلہ گزشتہ سات آٹھ ماہ سے چل رہا تھا۔ ملزم، رمشا کو ویڈیو دکھا کربلیک میل کرتا اور اس سے مختلف ’’فرمائشیں‘‘ کرتا رہتا۔ یہ صرف ایک شخص کاکام نہیں، بلکہ یہ پورا گروہ ہے، جو اثر و رسوخ والا بھی ہے اور مالی طور پر مضبوط بھی۔ ان میں اصل قصور وار مرکزی ملزم سہیل کا والد عبدالحق ہے، جسے اپنے لڑکے کے کرتوتوں کا علم تھا، لیکن اس نے کوئی نوٹس نہیں لیا اور لڑکے کو چھوڑ دئیے رکھی۔ انہوں نے بھی اس بات کی تصدیق کی کہ ملزم نے دکان میں خفیہ کیمرہ لگارکھا تھا، جس میں دکان پر آنے والوں کی تصویر بنا کر اسے اپنی مرضی سے ایڈ کرلیتا۔ خاص طور پر سکول کی طالبات اس کا نشانہ ہوتی تھیں۔ ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ میری اطلاع کے مطابق ملزم سہیل کے پاس کم از کم 15 سے 20 ویڈیوز اور 900 تصویریں ہیں۔ یہ اب پولیس کا کام ہے کہ وہ برآمدگی کرے۔ ملزم سہیل نے صرف ہماری بچی کو ہی بلیک میل نہیں کیا بلکہ اور بھی ایسے ہی کئی کیس موجود ہیں لیکن لوگ محض اپنی عزت چھپانے کی خاطر خاموش ہیں۔ اس لئے کوئی سامنے نہیں آرہا۔ ہماری بچی سمیت اب تک بلیک میلنگ کے تین کیس سامنے آچکے ہیں۔ ان میں ہمارے قریبی گاؤں اسد اللہ پور کی ایک دسویں جماعت کی طالبہ بھی ہے۔ اس بچی کے گھر والے بدنامی کے خوف سے اپنا گاؤں ہی چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔ ملزم کی اس حرکت کی وجہ سے سارے علاقے میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے اور پورے گاؤں نے ہمیں اپنی حمایت کا یقین دلایا ہے۔ علاوہ ازیں ہفتہ کے روز ڈسٹرکٹ پولیس افسر گجرات سے بھی ہماری ملاقات ہوئی۔ انہوں نے بھی ہمیں یقین دلایا کہ ہمین انصاف ضرور ملے گا۔ ہماری تو جو بدنامی ہونی تھی، وہ ہوچکی لیکن ہم صرف یہ چاہتے ہیں کہ اس سارے گروہ کو قانون کے مطابق کڑی سزا ملے، تاکہ یہ آئندہ کسی غریب کی بیٹی کے ساتھ ایسا ظلم کرنے کی جرأت نہ کرسکیں۔ اس کیس کے انکوائری افسر سب انسپکٹر اعجاز احمدن ے اس سلسلے میں امت کو بتایا کہ پولیس نے اب تک صرف ایک ہی ویڈیو برآمد کی ہے اور وہ ویڈیو ملزم سہیل نے خود اپنے موبائل کے ذریعے بنائی تھی۔ اس کے علاوہ اس نے دکان میں سی سی ٹی وی کیمرہ بھی لگارکھا تھا ہم یہ سب چیزیں اٹھا کر لے آئے ہیں۔ انہیں چیک کرنے کے بعد ہی معلوم ہوگا کہ اس طرح کا مزید قابل گرفت مواد کتنا برآمد ہوتا ہے لیکن اب تک کی تفتیش سے یہی معلوم ہوا ہے کہ ملزم نے یہ ویڈیو انٹرنیٹ پر اپ لوڈ نہیں کی تھی۔ ملزم کی عمر 24 سال اور متاثرہ لڑکی کی عمر 18 سال ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انکوائری افسر کا کہنا تھا کہ مرکزی ملزم سہیل کو گرفتار کیا جاچکا ہے، جبکہ دیگر تینوں ملزمان کی گرفتاری کے لئے چھاپے مارے جارہے ہیں۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر عافیہ موومنٹ کے کوآرڈینیٹر عزیز الرحمان مجاہد کا کہنا تھا کہ اس طرح کے عناصر کسی بھی رعایت اور نرمی کے مستحق نہیں۔ اس سے پہلے کھاریاں اور لالہ موسیٰ میں بھی کچھ عرصہ قبل ایسے کیسز سامنے آچکے ہیں ہم سمجھتے ہیں اس طرح کے سماجی ناسوروں کو کڑی سزا ملنی چاہیے۔
  11. اسلام آباد - مانیٹرنگ ڈیسک - سوشل میڈیا کے ذریعے فراڈ اور بلیک میلنگ کوئی نئی بات نہیں ہے لیکن حال ہی میں پاکستانی انٹرنیٹ صارفین کو لوٹنے کے لیے ایک نیا اور انتہائی شرمناک طریقہ واردات سامنے آیا ہے، جس نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بھی تشویش میں مبتلا کردیا ہے ۔ کیونکہ سوشل میڈیا صارفین بڑی تعداد میں اس کی لپیٹ میں آرہے ہیں ریڈایڈٹ ویب سائٹ پر اس خطرے کی بارے میں آگاہ کرتے ہوئے ایک صارف نے بتایا کہ انٹرنیٹ صارفین سے سکائیپ کے ذریعے رابطہ کیا جاتا ہے اور عموماََ ایک دلکش آواز والی لڑکی انہیں کال کرتی ہے ۔ کال کرنے والی لڑکی ابتدائی راہ و رسم بڑھاتی ہے اور گفتگو کا سلسلہ آگے بڑھنے پر وہ صارف کا فیس بک آئی ڈی بھی لے لیتی ہے، یہ کہہ کر کہ وہ اسے اپنے فیس بک فرینڈز میں شامل کرنا چاہتی ہے۔ صارف کو ہیجان انگیز باتوں میں لگا کر یہ لڑکی ویب کیم کے ذریعے اسے شرٹ کے بغیردیکھنے پر اصرار کرتی ہے ۔ جب صارف شرٹ اتارنے پر تیار ہوجاتا ہے تو یہ پتلون اتارنے پر بھی اصرار کرنے لگتی ہے اور فرمائش پوری نہ ہونے پر ناراض ہونے اور دوبارہ کبھی بات نہ کرنے کی دھمکی دیتی ہے ۔ اس کی مکاری کے جال میں پھنس کر جونہی کوئی صارف برہنہ ہونے کی غلطی کرتا ہے تو شاطر لڑکی اسے بتاتی ہے کہ اس کی ویڈیو ریکارڈ ہوچکی ہے جو اس کے تمام فیس بک فرینڈز کو بھیجی جائے گی اور اس خوفناک خطرے سے بچنے کے لیے صرف ایک ہی راستہ رہ بتایا جاتا ہے کہ کچھ ہزار روپے بطور بھتہ دیئے جائیں ۔ اس شیطانی چنگل میں پھنسنے والوں کے لیے بلیک میل ہونے اور لٹنے کے سوا کوئی چارہ باقی نہیں رہتا اور اب تک بے شمار ایسے افراد اس بلیک میلنگ کا شکار ہوچکے ہیں ٹیکنالوجی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اس بلیک میلنگ سے بچنے کا سادہ سا طریقہ یہ ہے کہ کبھی بھی اپنا ویب کیم کسی اجنبی کے لیے مت آن کریں اور اگر بدقسمتی سے آپ اس چکر میں پھنس جائیں تو قانون نافذ کرنے والے اداروں سے ضرور رابطہ کریں
  12. محبت زندگی ہے اور جب یہ زندگی دِن رات کی تفریق سے آزاد ہو جائے تو ماہ و سال کی گِنتی کے وہ معنی نہیں رہتے جو اَب تک تھے سِمٹ جاتے ہیں سب رشتے اک ایسے سلسلے کی خوش نگاہی میں کہ اک دوجے کی آنکھوں میں ہُمکتے خواب بھی ہم دیکھ سکتے ہیں جہاں ہم سانس لیتے ہیں اور جن کی نیلگوں چادر کے دامن میں ہمارے "ہست" کا پیکر سنورتا ہے وہ صدیوں کے پُرانے، آشنا اور اَن بنے منظر کئی رنگوں میں ڈھلتے خوشبوؤں کی لہر میں تحلیل ہوتے ہیں زمیں چہرہ بدلتی ہے، آسماں تبدیل ہوتے ہیں محبت بھی وفا صورت کسی قانون اور کُلیئے کے سانچے میں نہیں ڈھلتی کہ یہ بھی انگلیوں کے ان نشانوں کی طرح سے ہے کہ جو ہر ہاتھ میں ہو کر بھی آپس میں نہیں ملتے یہ ایسی روشنی ہے جس کے اربوں رُوپ ہیں لیکن جسے دیکھو وہ یکتا ہے نہ کوئی مختلف اِن میں نہ کوئی ایک جیسا ہے محبت استعارا بھی، محبت زندگی بھی ہے ازل کا نور ہے اس میں، اَبد کی تیرگی بھی ہے اِسی میں بھید ہیں سارے، اِسی میں آگہی بھی ہے (امجد اسلام امجد)
  13. بدین میں لیڈی ہیلتھ ورکر نے اپنے 2 ساتھیوں کے خلاف اغواء ، ریپ اور بلیک میلنگ کا مقدمہ درج کروادیا بدین(اردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔11جون۔2016ء) صوبہ سندھ کے ضلع بدین میں ایک لیڈی ہیلتھ ورکر نے اپنے 2 ساتھیوں کے خلاف اغواء ، ریپ اور بلیک میلنگ کا مقدمہ درج کروادیا ہے۔بدین ماڈل پولیس اسٹیشن میں درج کرائی گئی ایف آئی آر میں غلام حسین پڑھیار گاو¿ں کی رہائشی لیڈی ہیلتھ ورکر نے دعویٰ کیا کہ ان کے 2 ساتھیوں نے انھیں 10 ماہ قبل اغواءکیا اور ریپ کا نشانہ بنایا۔ خاتون کے مطابق اغواءکاروں نے ریپ کے دوران ان کی ویڈیو بھی بنائی اور اسے انٹرنیٹ پر اس بات کا انتقام لینے کے لیے اَپ لوڈ کردیا، کیونکہ خاتون نے اپنے ا±س ساتھی پولیو رضاکار سے ملنے سے انکار کردیا تھا، جس نے 2 سال قبل ایک پولیو مہم کے دوران انھیں ریپ کا نشانہ بنایا تھا۔مذکورہ خاتون نے دعویٰ کیا کہ 2 سال قبل جس شخص نے انھیں نشہ آور اودیات پلا کر ریپ کا نشانہ بنایا تھا، اس نے بھی ان کی ویڈیو ریکارڈ کی تھی۔ان کا مزید کہنا تھا کہ ملزم نے انھیں دھمکی دی تھی کہ اگر اس کے مطالبات پورے نہ کیے گئے تو وہ ویڈیو انٹرنیٹ پر اَپ لوڈ کردے گا اور جب خاتون نے انکار کیا تو ملزم نے اپنے ایک دوست کے ساتھ انھیں اغواءکرکے ریپ کا نشانہ بنایا اور اس موقع پر بنائی گئی ویڈیو انٹرنیٹ پر اَپ لوڈ کردی۔مذکورہ ہیلتھ ورکر نے دعویٰ کیا کہ ان واقعات کے بعد انھیں ان کے شوہر اور سسرال والوں نے گھر سے باہر نکال دیا تھا۔بدین کے ماڈل پولیس اسٹیشن کے ایس ایچ او محمد ابراہیم جتوئی کے مطابق پولیس نے واقعے کی ایف آئی آر درج کرلی ہے اور تحقیقات جاری ہیں۔جتوئی نے مزید بتایا کہ ملزمان کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جارہے ہیں جو ایف آئی آر کے اندراج کے بعد اپنے رشتے داروں کے ہمراہ مفرور ہیں۔دونوں ملزمان کے خلاف واقعے کا مقدمہ پاکستان پینل کوڈ (پی پی سی) کی دفعات 376، 337 (جے) اور 354 کے تحت درج کیا گیا۔
  14. سوشل میڈیا پر غیر اخلاقی ویڈیوز، تصاویر سے بلیک میلنگ فروری 28, 2017 لاہور(ویب ڈیسک) فیس بک پر خواتین اور بچوں کی غیر اخلاقی ویڈیوز ،تصاویر اپ لوڈ کر کے انہیں بلیک میل کرنے کے واقعات میں اضافہ ہونے لگا، ایف آئی اے سائبر کرائم سرکل کو 2 ماہ میں 500 سے زائد درخواستیں موصول ہوئی ہیں ،حکام چکراکر رہ گئے۔ روزنامہ دنیا کے مطابق موبائل فون ،لیپ ٹاپ اور خفیہ کیمروں کے ذریعے خواتین کو بہلا پھسلا کر ہوٹلز یا مخصوص جگہوں پر بلا کر ان کی غیر اخلاقی ویڈیوز ،تصاویر بنا کر انہیں بلیک میل کرنے کے واقعات میں خوفناک حد تک اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ذہنی طور پر بیمار یہ ملزم خواتین اوربچوں کواپناشکار بنارہے ہیں ،ایف آئی اے ذرائع کا کہناہے کہ نو عمر لڑکیوں کی بڑی تعداد عشق اور محبت کے نام پر اپنی عزتوں سے کھیل رہی ہیں،2ماہ کے دوران بلیک میلنگ کے حوالے سے 500سے زائد درخواستیں موصول ہوئی ہیں جبکہ انکوائریاں مکمل کرکے 17مقدمات درج کئے اور 15ملزموں کو گرفتار کرلیاگیا۔ حکام کا کہناہے کہ عملہ کم ہونے کی وجہ سے بھی ایف آئی اے کو موصو ل ہونے والی درخواستوں پر کارروائی کرنے میں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔گزشتہ روز ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ نے خاتون کی غیر اخلاقی ویڈیو بناکر اسے بلیک میل کرنے کی دھمکیاں دینے والے ملزم محمد وسیم کو گرفتار کر لیا۔
×
×
  • Create New...