Disable Screen Capture Jump to content
Novels Library Plus ×
URDU FUN CLUB

WO KEHTI HAI SUNO !


Recommended Posts

اردو فن کلب کے پریمیم سیریز اور پریمیم ناولز اردو فن کلب فورم کا قیمتی اثاثہ ہیں ۔ جو فورم کے پریمیم رائیٹرز کی محنت ہے اور صرف وقتی تفریح کے لیئے فورم پر آن لائن پڑھنے کے لیئے دستیاب ہیں ۔ ہمارا مقصد اسے صرف اسی ویب سائیٹ تک محدود رکھنا ہے۔ اسے کسی بھی طرح سے کاپی یا ڈاؤن لوڈ کرنے یا کسی دوسرے دوست یا ممبر سے شیئر کرنے کی بالکل بھی اجازت نہیں ہے ۔ جو ممبران اسے کسی بھی گروپ یا اپنے دوستوں سے شئیر کر رہے ہیں ۔ ان کو مطلع کیا جاتا ہے کہ وہ اسے کسی دوسرے ممبر ثانی سے شئیر نہیں کر سکتے ۔ ورنہ ان کا مکمل اکاؤنٹ بین کر دیا جائے گا ۔ اور دوبارہ ایکٹو بھی نہیں کیا جائے گا ۔ موجودہ اکاؤنٹ کینسل ہونے پر آپ کو نئے اکاؤنٹ سے کسی بھی سیئریل کی نئی اپڈیٹس کے لیئے دوبارہ قسط 01 سے ادائیگی کرنا ہو گی ۔ سابقہ تمام اقساط دوبارہ خریدنے کے بعد ہی نئی اپڈیٹ آپ حاصل کر سکیں گے ۔ اکاؤنٹ بین ہونے سے بچنے کے لیئے فورم رولز کو فالو کریں۔ اور اپنے اکاؤنٹ کو محفوظ بنائیں ۔ ۔ ایڈمن اردو فن کلب

  • Replies 110
  • Created
  • Last Reply

Top Posters In This Topic

Top Posters In This Topic

اب کے رت بدلی تو خوشبو کا سفر دیکھے گا کون

زخم پھولوں کی طرح مہکیں گے پر دیکھے گا کون

دیکھنا سب رقص بسمل میں مگن ہو جائیں گے

جس طرف سے تیر آئے گا ادھر دیکھے گا کون

زخم جتنے بھی تھے سب منسوب قاتل سے ہوئے

تیرے ہاتھوں کے نشاں اے چارہ گر دیکھے گا کون

وہ ہوس ہو یا وفا ہو بات محرومی کی ہے

لوگ تو پھل پھول دیکھیں گے شجر دیکھے گا کون

ہم چراغ شب ہی جب ٹھہرے تو پھر کیا سوچنا

رات تھی کس کا مقدر اور سحر دیکھے گا کون

ہر کوئی اپنی ہوا میں مست پھرتا ہے فراز

شہر نا پرساں میں تیری چشم تر دیکھے گا کون

Link to comment

ایسے چپ ہیں کہ یہ منزل بھی کڑی ہو جیسے

تیرا ملنا بھی جدائی کی گھڑی ہو جیسے

اپنے ہی سائے سے ہر گام لرز جاتا ہوں

راستے میں کوئی دیوار کھڑی ہو جیسے

کتنے ناداں ہیں ترے بھولنے والے کہ تجھے

یاد کرنے کے لیئے عمر پڑی ہو جیسے

تیرے ماتھے کی شکن پہلے بھی دیکھی تھی مگر

یہ گرہ اب کے مرے دل میں پڑی ہو جیسے

منزلیں دور بھی ہیں منزلیں نزدیک بھی ہیں

اپنے ہی پاؤں میں زنجیر پڑی ہو جیسے

آج دل کھول کے روئے ہیں تو یوں خوش ہیں فراز

چند لمحوں کی یہ راحت بھی بڑی ہو جیسے

Link to comment

ابھی کچھ اور کرشمے غزل کے دیکھتے ہیں

فراز اب ذرا لہجہ بدل کے دیکھتے ہیں

جدائیاں تو مقدر ہیں پھر بھی جان سفر

کچھ اور دور ذرا ساتھ چل کے دیکھتے ہیں

رہ وفا میں حریف خرام کوئی تو ہو

سو اپنے آپ سے آگے نکل کے دیکھتے ہیں

تو سامنے ہے تو پھر کیوں یقیں نہیں آتا

یہ بار بار جو آنکھوں کو مل کے دیکھتے ہیں

یہ کون لوگ ہیں موجود تیری محفل میں

جو لالچوں سے تجھے ، مجھ کو جل کے دیکھتے ہیں

یہ قرب کیا ہے کہ یک جاں ہوئے نہ دور رہے

ہزار ایک ہی قالب میں ڈھل کے دیکھتے ہیں

نہ تجھ کو مات ہوئی ہے نہ مجھ کو مات ہوئی

سو اب کے دونوں ہی چالیں بدل کے دیکھتے ہیں

یہ کون ہے سر ساحل کے ڈوبنے والے

سمندروں کی تہوں سے اچھل کے دیکھتے ہیں

ابھی تلک تو نہ کندن ہوئے نہ راکھ ہوئے

ہم اپنی آگ میں ہر روز جل کے دیکھتے ہیں

بہت دنوں سے نہیں ہے کچھ اسکی خیر خبر

چلو فراز کوئے یار چل کے دیکھتے ہیں

Link to comment

سامنے اس کے کبھی اس کی ستائش نہیں کی

دل نے چاہا بھی اگر ہونٹوں نے جنبش نہیں کی

اہلِ محفل پہ کب احوال کھلا ہے اپنا

ہم بھی خاموش رہے اس نے بھی پُرشش نہیں کی

جس قدر اس سے تعلق تھا چلے جاتا ہے

اس کا کیا رنج کہ جس کی کبھی خِواہش نہیں کی

یہ بھی کیا کم ہے کہ دونوں کا بھرم قائم ہے

اس نے بخشش نہیں کی ہم نے گزارش نہیں کی

اک تو ہم کو ادب آداب نے پیاسا رکھا

اس پہ محفل میں صراحی نے بھی گردش نہیں کی

ہم کہ دکھ اوڑھ کے خلوت میں پڑے رہتے ہیں

ہم نے بازار میں زخموں کی نمائش نہیں کی

اے مرے ابرِ کرم دیکھ یہ ویرانۂ جاں

کیا کسی دشت پہ تو نے کبھی بارش نہیں کی

کٹ مرے اپنے قبیلے کی حفاظت کے لیے

مقتلِ شہر میں ٹھہرے رہے جنبش نہیں کی

وہ ہمیں بھول گیا ہو تو عجب کیا ہے فراز

ہم نے بھی میل ملاقات کی کوشش نہیں کی

Link to comment

ہاتھ اٹھائے ہیں مگر لب پہ دعا کوئی نہیں

کی عبادت بھی تو وہ ، جسکی جزا کوئی نہیں

آ کہ اب تسلیم کر لیں تو نہیں تو میں سہی

کون مانے گا کہ ہم میں بے وفا کوئی نہیں

وقت نے وہ خاک اڑائی ہے کہ دل کے دشت سے

قافلے گزرے ہیں پھر بھی نقشِ پا کوئی نہیں

خود کو یوں محصور کر بیٹھا ہوں اپنی ذات میں

منزلیں چاروں طرف ہیں راستہ کوئی نہیں

کیسے رستوں سے چلے اور یہ کہاں پہنچے فراز

یا ہجومِ دوستاں تھا ساتھ ۔ یا کوئی نہیں

Link to comment

جو غیر تھے وہ اسی بات پہ ہمارے ہوئے

کہ ہم سے دوست بہت بے خبر ہمارے ہوئے

کسے خبر وہ محبت تھی یا رقابت تھی

بہت سے لوگ تجھے دیکھ کر ہمارے ہوئے

اب اک ہجوم ِشکستہ دلاں ہے ساتھ اپنے

جنہیں کوئی نہ ملا، ہمسفر ہمارے ہوئے

کسی نے غم تو کسی نے مزاج ِغم بخشا

سب اپنی اپنی جگہ چارہ گر ہمارے ہوئے

بجھا کے طاق کی شمعیں نہ دیکھ تاروں کو

اسی جنوں میں تو برباد گھر ہمارے ہوئے

وہ اعتماد کہاں سے فراز لائیں گے

کسی کو چھوڑ کے وہ اب اگر ہمارے ہوئے

Link to comment

چلو وہ عشق نہیں چاہنے کی عادت ہے

پہ کیا کریں ہمیں اک دوسرے کی عادت ہے

تو اپنی شیشہ گری کا ہنر نہ کر ضائع

میں آئینہ ہوں مجھے ٹوٹنے کی عادت ہے

میں کیا کہوں کہ مجھے صبر کیوں نہیں آتا

میں کیا کروں کہ تجھے دیکھنے کی عادت ہے

ترے نصیب میں اے دل ! سدا کی محرومی

نہ وہ سخی، نہ تجھے مانگنے کی عادت ہے

وصال میں بھی وہی ہے فراق کا عالم

کہ اسکو نیند مجھے رت جگے کی عادت ہے

یہ مشکلیں ہیں تو پھر کیسے راستے طے ہوں

میں ناصبور اسے سوچنے کی عادت ہے

یہ خود اذیتی کب تک فراز تو بھی اسے

نہ یاد کر کہ جسے بھولنے کی عادت ہے

Link to comment

عشق ایک کرشمہ ہے ، فسوں ہے، یوں ہے

یوں تو کہنے کو سبھی کہتے ہیں، یوں ہے، یوں ہے

جیسے کوئی درِدل پر ہو ستادہ کب سے

ایک سایہ نہ دروں ہے، نہ بروں ہے، یوں ہے

تم محبت میں کہاں سود و زیاں لے آئے

عشق کا نام خِرد ہے نہ جَنوں ہے، یوں ہے

اب تم آئے ہو میری جان تماشا کرنے

اب تو دریا میں تلاطم نہ سکوں ہے، یوں ہے

تو نے دیکھی ہی نہیں دشتَ وفا کی تصویر

نوکِ ہر خار پے اک قطرئہ خوں ہے، یوں ہے

ناصحا تجھ کو خبر کیا کہ محبت کیا ہے

روز آ جاتا ہے سمجھاتا ہے کہ یوں ہے، یوں ہے

شاعری تازہ زمانوں کی ہے معمار فراز

یہ بھی اک سلسلہءِ کن فیکوں ہے، یوں ہے

Link to comment

کبھی تڑپ اٹھا میری آہ سے

کبھی اشک سے نہ پگھل سکا

سرِ راہ ملا وہ اگر کبھی

تو نظر چُرا کے گزر گیا

وہ اتر گیا میری آنکھ سے

میرے دل سے کیوں نہ اتر سکا

وہ چلا گیا جہاں چھوڑ کے

میں وہاں سے پھر نہ پلٹ سکا

وہ سنبھل گیا تھا فراز مگر

میں بکھر کے پھر نہ سمٹ سکا

Link to comment

Create an account or sign in to comment

You need to be a member in order to leave a comment

Create an account

Sign up for a new account in our community. It's easy!

Register a new account

Sign in

Already have an account? Sign in here.

Sign In Now
×
×
  • Create New...