lilPAGHLAlil Posted June 10, 2012 Share #81 Posted June 10, 2012 Samait kar le jaao apne jhoote waadon ke adhure qisse…. Agli Mohabbat me tumhe phir inki zarurat pare gi..!!! Link to comment
Sarfarosh Posted June 13, 2012 Share #82 Posted June 13, 2012 اب کے رت بدلی تو خوشبو کا سفر دیکھے گا کون زخم پھولوں کی طرح مہکیں گے پر دیکھے گا کون دیکھنا سب رقص بسمل میں مگن ہو جائیں گے جس طرف سے تیر آئے گا ادھر دیکھے گا کون زخم جتنے بھی تھے سب منسوب قاتل سے ہوئے تیرے ہاتھوں کے نشاں اے چارہ گر دیکھے گا کون وہ ہوس ہو یا وفا ہو بات محرومی کی ہے لوگ تو پھل پھول دیکھیں گے شجر دیکھے گا کون ہم چراغ شب ہی جب ٹھہرے تو پھر کیا سوچنا رات تھی کس کا مقدر اور سحر دیکھے گا کون ہر کوئی اپنی ہوا میں مست پھرتا ہے فراز شہر نا پرساں میں تیری چشم تر دیکھے گا کون Link to comment
Sarfarosh Posted June 13, 2012 Share #83 Posted June 13, 2012 ایسے چپ ہیں کہ یہ منزل بھی کڑی ہو جیسے تیرا ملنا بھی جدائی کی گھڑی ہو جیسے اپنے ہی سائے سے ہر گام لرز جاتا ہوں راستے میں کوئی دیوار کھڑی ہو جیسے کتنے ناداں ہیں ترے بھولنے والے کہ تجھے یاد کرنے کے لیئے عمر پڑی ہو جیسے تیرے ماتھے کی شکن پہلے بھی دیکھی تھی مگر یہ گرہ اب کے مرے دل میں پڑی ہو جیسے منزلیں دور بھی ہیں منزلیں نزدیک بھی ہیں اپنے ہی پاؤں میں زنجیر پڑی ہو جیسے آج دل کھول کے روئے ہیں تو یوں خوش ہیں فراز چند لمحوں کی یہ راحت بھی بڑی ہو جیسے Link to comment
Sarfarosh Posted June 13, 2012 Share #84 Posted June 13, 2012 ابھی کچھ اور کرشمے غزل کے دیکھتے ہیں فراز اب ذرا لہجہ بدل کے دیکھتے ہیں جدائیاں تو مقدر ہیں پھر بھی جان سفر کچھ اور دور ذرا ساتھ چل کے دیکھتے ہیں رہ وفا میں حریف خرام کوئی تو ہو سو اپنے آپ سے آگے نکل کے دیکھتے ہیں تو سامنے ہے تو پھر کیوں یقیں نہیں آتا یہ بار بار جو آنکھوں کو مل کے دیکھتے ہیں یہ کون لوگ ہیں موجود تیری محفل میں جو لالچوں سے تجھے ، مجھ کو جل کے دیکھتے ہیں یہ قرب کیا ہے کہ یک جاں ہوئے نہ دور رہے ہزار ایک ہی قالب میں ڈھل کے دیکھتے ہیں نہ تجھ کو مات ہوئی ہے نہ مجھ کو مات ہوئی سو اب کے دونوں ہی چالیں بدل کے دیکھتے ہیں یہ کون ہے سر ساحل کے ڈوبنے والے سمندروں کی تہوں سے اچھل کے دیکھتے ہیں ابھی تلک تو نہ کندن ہوئے نہ راکھ ہوئے ہم اپنی آگ میں ہر روز جل کے دیکھتے ہیں بہت دنوں سے نہیں ہے کچھ اسکی خیر خبر چلو فراز کوئے یار چل کے دیکھتے ہیں Link to comment
Sarfarosh Posted June 13, 2012 Share #85 Posted June 13, 2012 سامنے اس کے کبھی اس کی ستائش نہیں کی دل نے چاہا بھی اگر ہونٹوں نے جنبش نہیں کی اہلِ محفل پہ کب احوال کھلا ہے اپنا ہم بھی خاموش رہے اس نے بھی پُرشش نہیں کی جس قدر اس سے تعلق تھا چلے جاتا ہے اس کا کیا رنج کہ جس کی کبھی خِواہش نہیں کی یہ بھی کیا کم ہے کہ دونوں کا بھرم قائم ہے اس نے بخشش نہیں کی ہم نے گزارش نہیں کی اک تو ہم کو ادب آداب نے پیاسا رکھا اس پہ محفل میں صراحی نے بھی گردش نہیں کی ہم کہ دکھ اوڑھ کے خلوت میں پڑے رہتے ہیں ہم نے بازار میں زخموں کی نمائش نہیں کی اے مرے ابرِ کرم دیکھ یہ ویرانۂ جاں کیا کسی دشت پہ تو نے کبھی بارش نہیں کی کٹ مرے اپنے قبیلے کی حفاظت کے لیے مقتلِ شہر میں ٹھہرے رہے جنبش نہیں کی وہ ہمیں بھول گیا ہو تو عجب کیا ہے فراز ہم نے بھی میل ملاقات کی کوشش نہیں کی Link to comment
Sarfarosh Posted June 13, 2012 Share #86 Posted June 13, 2012 ہاتھ اٹھائے ہیں مگر لب پہ دعا کوئی نہیں کی عبادت بھی تو وہ ، جسکی جزا کوئی نہیں آ کہ اب تسلیم کر لیں تو نہیں تو میں سہی کون مانے گا کہ ہم میں بے وفا کوئی نہیں وقت نے وہ خاک اڑائی ہے کہ دل کے دشت سے قافلے گزرے ہیں پھر بھی نقشِ پا کوئی نہیں خود کو یوں محصور کر بیٹھا ہوں اپنی ذات میں منزلیں چاروں طرف ہیں راستہ کوئی نہیں کیسے رستوں سے چلے اور یہ کہاں پہنچے فراز یا ہجومِ دوستاں تھا ساتھ ۔ یا کوئی نہیں Link to comment
Sarfarosh Posted June 13, 2012 Share #87 Posted June 13, 2012 جو غیر تھے وہ اسی بات پہ ہمارے ہوئے کہ ہم سے دوست بہت بے خبر ہمارے ہوئے کسے خبر وہ محبت تھی یا رقابت تھی بہت سے لوگ تجھے دیکھ کر ہمارے ہوئے اب اک ہجوم ِشکستہ دلاں ہے ساتھ اپنے جنہیں کوئی نہ ملا، ہمسفر ہمارے ہوئے کسی نے غم تو کسی نے مزاج ِغم بخشا سب اپنی اپنی جگہ چارہ گر ہمارے ہوئے بجھا کے طاق کی شمعیں نہ دیکھ تاروں کو اسی جنوں میں تو برباد گھر ہمارے ہوئے وہ اعتماد کہاں سے فراز لائیں گے کسی کو چھوڑ کے وہ اب اگر ہمارے ہوئے Link to comment
Sarfarosh Posted June 13, 2012 Share #88 Posted June 13, 2012 چلو وہ عشق نہیں چاہنے کی عادت ہے پہ کیا کریں ہمیں اک دوسرے کی عادت ہے تو اپنی شیشہ گری کا ہنر نہ کر ضائع میں آئینہ ہوں مجھے ٹوٹنے کی عادت ہے میں کیا کہوں کہ مجھے صبر کیوں نہیں آتا میں کیا کروں کہ تجھے دیکھنے کی عادت ہے ترے نصیب میں اے دل ! سدا کی محرومی نہ وہ سخی، نہ تجھے مانگنے کی عادت ہے وصال میں بھی وہی ہے فراق کا عالم کہ اسکو نیند مجھے رت جگے کی عادت ہے یہ مشکلیں ہیں تو پھر کیسے راستے طے ہوں میں ناصبور اسے سوچنے کی عادت ہے یہ خود اذیتی کب تک فراز تو بھی اسے نہ یاد کر کہ جسے بھولنے کی عادت ہے Link to comment
Sarfarosh Posted June 13, 2012 Share #89 Posted June 13, 2012 عشق ایک کرشمہ ہے ، فسوں ہے، یوں ہے یوں تو کہنے کو سبھی کہتے ہیں، یوں ہے، یوں ہے جیسے کوئی درِدل پر ہو ستادہ کب سے ایک سایہ نہ دروں ہے، نہ بروں ہے، یوں ہے تم محبت میں کہاں سود و زیاں لے آئے عشق کا نام خِرد ہے نہ جَنوں ہے، یوں ہے اب تم آئے ہو میری جان تماشا کرنے اب تو دریا میں تلاطم نہ سکوں ہے، یوں ہے تو نے دیکھی ہی نہیں دشتَ وفا کی تصویر نوکِ ہر خار پے اک قطرئہ خوں ہے، یوں ہے ناصحا تجھ کو خبر کیا کہ محبت کیا ہے روز آ جاتا ہے سمجھاتا ہے کہ یوں ہے، یوں ہے شاعری تازہ زمانوں کی ہے معمار فراز یہ بھی اک سلسلہءِ کن فیکوں ہے، یوں ہے Link to comment
Sarfarosh Posted June 13, 2012 Share #90 Posted June 13, 2012 کبھی تڑپ اٹھا میری آہ سے کبھی اشک سے نہ پگھل سکا سرِ راہ ملا وہ اگر کبھی تو نظر چُرا کے گزر گیا وہ اتر گیا میری آنکھ سے میرے دل سے کیوں نہ اتر سکا وہ چلا گیا جہاں چھوڑ کے میں وہاں سے پھر نہ پلٹ سکا وہ سنبھل گیا تھا فراز مگر میں بکھر کے پھر نہ سمٹ سکا Link to comment
Recommended Posts
Create an account or sign in to comment
You need to be a member in order to leave a comment
Create an account
Sign up for a new account in our community. It's easy!
Register a new accountSign in
Already have an account? Sign in here.
Sign In Now