Disable Screen Capture Jump to content
Novels Library Plus ×
URDU FUN CLUB

TEHREEM

Cloud Basic
  • Posts

    334
  • Joined

  • Last visited

  • Days Won

    31

Everything posted by TEHREEM

  1. محبت کیا ہے آجکل محبت صرف نفسانی تسکین کا نام ہے ہمارے معاشرے میں زیادہ تر محبت کی شادیاں نفرت کی طلاقوں میں تبدیل ہوجاتی ہیں لیکن پھر بھی دھڑا دھڑ محبتیں اور ٹھکا ٹھک طلاقیں جاری ہیں ایسا لگتا ہے کہ محبت سے نفرت کا سفر ایک شادی کی مار ہے کتنی عجیب بات ہے کہ لڑکا لڑکی اگر ایک دوسرے کی محبت میں گرفتار ہو جائیں تو ان کی محبت بڑھنے کی بجائے دن بدن کم ہوتی چلی جاتی ہے ایک دوسرے سے اکتاہٹ محسوس ہونے لگتی ہے کیا وجہ ہے کہ محبت کا آغاز خوبصورت اور انجام بھیانک نکلتا ہے آخرایک دوسرے کی خاطر مرنے کے دعوے کرنے والے ایک دوسرے کو مارنے پر کیوں تل جاتے ہیں؟؟؟ وجہ بہت آسان ہے بلبل کا بچہ کھچڑی بھی کھاتا تھا پانی بھی پیتا تھا گانے بھی گاتا تھا لیکن جب اسے اڑایا تو پھر واپس نہ آیا اس لیے کہ محبت آزادی سے ہوتی ہے قید سے نہیں ہمارے ہاں الٹ حساب ہے جونہی کسی لڑکے کو کسی لڑکی سے محبت ہوتی ہے ساتھ ہی ایک عجیب قسم کی قید شروع ہوجاتی ہے، لڑکیوں کی فرمائشیں کچھ یوں ہوتی ہیں شکیل اب تم نے روز مجھے رات آٹھ بجے چاند کی طرف دیکھ کر آئی لو یو کا میسج کرنا ہے اب ہم چونکہ ایک دوسرے سے محبت کرنے لگے ہیں لہذا ہر بات میں مجھ سے مشورہ کرنا روز انہ کم ازکم پانچ منٹ کے لیے فون ضرور کرنا میں مسڈ کال دوں تو فوراً مجھے کال بیک کرنا فیس بک پر روز مجھے کوئی رومانٹک سا میسج ضرور بھیجنا،۔ لڑکوں کی فرمائشیں کچھ یوں ہوتی ہیں جان اب تم نے اپنے کسی مرد کزن سے بات نہیں کرنی کپڑے خریدتے وقت صرف میری مرضی کا کلر خریدنا وعدہ کرو کہ بے شک تمہارے گھر میں آگ ہی کیوں نہ لگی ہو تم میرے میسج کا جواب ضرور دو گی جان شاپنگ کے لیے زیادہ باہر نہ نکلا کرو مجھے اچھا نہیں لگتا،۔ محبت کے ابتدائی دنوں میں یہ قید بھی بڑی خمار آلود لگتی ہے لیکن جوں جوں دن گذرتے جاتے ہیں دونوں طرف کی فرمائشیں بڑھتے بڑھتے پہلے ڈیوٹی بنتی ہیں پھر ضد اور پھر انا کا روپ دھار لیتی ہیں اور پھر نفرت میں ڈھلنے لگتی ہیں اسی دوران اگر لڑکے لڑکی کی شادی ہو جائے تو رہی سہی کسر بھی پوری ہو جاتی ہے میری ذاتی رائے میں محبت آسانیاں پیدا کرنے کا نام ہے لیکن ہم لوگ اسے مشکلات کا گڑھ بنا دیتے ہیں غور کیجئے ہمیں جن سے محبت ہوتی ہے ہم جگہ جگہ ان کے لیے آسانیاں پیدا کرتے ہیں ہم اپنے بچے کے بہتر مستقبل کے لیے اپنا پیٹ کاٹ کر اس کی فیس دیتے ہیں خود بھوکے بھی رہنا پڑے تو اولاد کے لیے کھانا ضرور لے آتے ہیں لائٹ چلی جائے تو آدھی رات کو اپنی نیند برباد کرکے ہاتھ والا پنکھا پکڑ کر بچوں کو ہوا دینے لگتے ہیں ہم بے شک جتنے مرضی ایماندار ہوں لیکن اپنے بچے کی سفارش کرنی پڑے تو سارے اصول بالائے طاق رکھ دیتے ہیں یہ ساری آسانیاں ہوتی ہیں جو ہم اپنی فیملی کو دے رہے ہوتے ہیں کیونکہ ہمیں اُن سے محبت ہوتی ہے،۔ اسی طر ح جب لڑکے لڑکی کی محبت شروع ہوتی ہے تو ابتداء آسانیوں سے ہی ہوتی ہے اور یہی آسانیاں محبت پیدا کرنے کا باعث بنتی ہیں لیکن آسانیاں جب مشکلات اور ڈیوٹی بننا شروع ہوتی ہیں تو محبت ایک جنگلے کی صورت اختیار کرنے لگتی ہے محبت میں ڈیوٹی نہیں دی جاسکتی لیکن ہمارے ہاں محبت ایک فل ٹائم ڈیوٹی بن جاتی ہے ٹائم پہ میسج کا جواب نہ آنا کسی کا فون اٹینڈ نہ کرنا زیادہ دنوں تک ملاقات نہ ہونا ان میں سے کوئی بھی ایک بات ہو جائے تو محبت کرنے والے شکایتی جملوں کا تبادلہ کرتے کرتے زہریلے جملوں پر اُتر آتے ہیں اور یہیں سے واپسی کا سفر شروع ہو جاتا ہے جب کوئی کسی کے لیے آسانی پیدا کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا تو محبت بھی اپنا دامن سکیڑنے لگتی ہے،۔ میں نے کہا ناں محبت نام ہی آسانیاں پیدا کرنے کا ہے ہم اپنے جن دوستوں سے محبت کرتے ہیں ان کے لیے بھی آسانیاں پیدا کرتے ہیں اللہ تعالیٰ بھی چونکہ اپنے بندوں سے محبت کرتا ہے اس لیے ان کے لیے جا بجا آسانیاں پیدا کرتا ہے مجھے محبت میں گرفتار ہونے والے بالکل بھی پسند نہیں محبت گرفتاری نہیں رہائی ہے ٹینشن سے رہائی تنہائی سے رہائی مایوسی سے رہائی لیکن ہمارے معاشرے میں محبت ہوتے ہی ٹینشن ڈبل ہو جاتی ہے اور دونوں پارٹیاں ذہنی مریض بن کر رہ جاتی ہیں یہی وجہ ہے کہ محبت شروع تو ہو جاتی ہے لیکن پوری طرح پروان نہیں چڑھ پاتی لیکن جہاں محبت اصلی محبت کی شکل میں ہوتی ہے وہاں نہ صرف پروان چڑھتی ہے بلکہ دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی بھی کرتی ہے،۔ ہمارا المیہ ہے کہ ہمارے ہاں محبت سے مراد صرف جنسی تعلق لیا جاتا ہے یہ محبت کا ایک جزو تو ہو سکتا ہے لیکن پوری محبت اس کے گرد نہیں گھومتی بالکل ایسے جیسے کسی اسلم کا ایک ہاتھ کاٹ کر الگ کر دیا جائے تو اُس کٹے ہوئے ہاتھ کو کوئی بھی اسلم نہیں کہے گا اسلم وہی کہلائے گا جو جڑے ہوئے اعضاء رکھتا ہوگا ویسے بھی یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ساری محبت کا انحصار چند لمحوں کی رفاقت کو قرار دے دیا جائے محبت زندان نہیں ہوتی حوالات نہیں ہوتی جیل نہیں ہوتی بند کمرہ نہیں ہوتی کال کوٹھڑی نہیں ہوتی محبت تو تاحد نظر ایک کھلا میدان ہوتی ہے جہاں کوئی جنگلے کوئی خاردار تاریں اور کوئی بلند دیواریں نہیں ہوتیں، آپ تحقیق کر کے دیکھ لیجئے جہاں محبت ناکام ہوئی ہوگی وہاں وجوہات یہی مسائل بنے ہوں گے ہر کوئی اپنی محبت جتلاتا ہے اور دوسرے کو بار بار یہ طعنے مارتا ہے کہ تمہیں مجھ سے محبت نہیں لوگ کہتے ہیں کہ محبت کی نہیں جاتی ہو جاتی ہے غلط ہے محبت کی ایک چھوٹی سی کونپل دل میں از خود ضرور پھوٹتی ہے لیکن اسے تناور درخت بنانے کے لیے بہت کچھ کرنا پڑتا ہے وہ محبت کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی جہاں شکوے شکایتیں اور طعنے شامل ہو جائیں ایسے لوگ بدقسمت ہیں جو محبت کرنا نہیں جانتے لیکن محبت کر بیٹھتے ہیں اور پھر دوسرے کو اتنا بددل کر دیتے ہیں کہ وہ محبت سے ہی انکاری ہو جاتا ہے، کیا وجہ ہے کہ محبت کی شادی کرنے والے اکثر جوڑوں کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ ان کی اولاد اس رستے پر نہ چلے ہمیں یہ ماننا ہوگا کہ ہم میں سے اکثر نے صرف محبت کا نام سنا ہے اس کے تقاضوں سے واقف نہیں ہمیں کوئی پسند آجائے تو ہم سمجھتے ہیں کہ ہمیں اس سے محبت ہو گئی ہے پسند آنے اور محبت ہونے میں بڑا فرق ہے کسی کو پسند کرنا محبت نہیں ہوتا لیکن محبت تک پہنچنے کے لیے پہلا زینہ ضرور ہوتا ہے میں نے بے شمار لوگوں کو انا کے خول میں لپٹے محبت کرتے دیکھا ہے یہ محبت میں بھی اپنی برتری چاہتے ہیں ان کے نزدیک محبت میں بھی سٹیٹس ہوتا ہے حالانکہ محبت میں تو محمود و ایاز کی طرح ایک ہونا پڑتا ہے رہ گئی بات انا کی تو یہ وقتی سکون تو دے دیتی ہے لیکن اِس کمبخت کے سائڈ ایفیکٹس بہت ہیں،۔ انا کی جنگ میں ہم جیت تو گئے لیکن پھر اُس کے بعد بہت دیر تک نڈھال رہے
  2. ابا میں کہہ رہی ہوں مجھے ادھر شادی نہیں کرنی۔ ماہین یہ بات اپنے ابا سے دسویں بار کہہ رہی تھی !!۔ "تو بیٹا میں کیا تمہیں ساری زندگی گھر ہی رکھوں"؟ احمد صاحب کا ضبط بھی جواب دے گیا، ۔ ماہین ایک دم سے ڈر کے پیچھے دیوار کے ساتھ جا لگی!! ۔ "لیکن ابا آپ ان کی جہیز کی اتنی لمبی لسٹ کیسے پوری کریں گے، ابا میں ابھی اتنی بے ضرف نہیں ہوں کہ آپ پر مزید قرض چڑھا دوں میری وجہ سے پہلے ہی آپ قرض لے چکے ہیں۔"۔ ماہی نے اپنے آنسو ایک طرف دھکیلے!! ۔ آحمد صاحب بھی اپنی شہزادی جیسی بیٹی کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر نرم پڑھ گئے، آخر وہی واحد اِن کی آنکھ کا تارا تھی،!! ۔ "دیکھو ماہی بیٹا میں زیادہ قرض نہیں لے رہا، تم یہ سمجھو سارا کچھ ہوچکا ہے، بس کھانے کا رہ گیا ہے اور دیکھو بیٹا کوئی رشتہ ایسا نہیں ملے گا جو سامان کے بغیر بیاہ لے جائے۔ مجھے پھر بھی کچھ نہ کچھ کرنا پڑے گا پھر کیا ہوا جو اُن لوگوں نے لسٹ دے دی ہے اور بیٹا تمہاری ماں زندہ ہوتی تو اُن کی بھی یہی خواہشِ ہوتی کہ میری رانی میری ماہی اچھے سے رخصیت ہو جائے"۔ احمد صاحب نے ماہی کے ماتھے پر بوسہ دیتے ہوئے اُس کے آنسو صاف کیے۔ "ابا دنیا سہی کہتی ہے بیٹیاں بوجھ ہوتیں ہیں اور ابا کیا پتہ میں بعد میں خوش رہ سکوں یا نہ"۔ احمد صاحب نے ایک دم سے اپنے دل پر ہاتھ رکھا "نہ میری ماہی ایسے مت کہو"میری چندا چلو شاباش جاؤ اور صبح شاپنگ کر آنا بیٹی اب تو تھوڑے دن پڑے ہیں "۔ احمد صاحب سوچتے رہے کیسے انہوں نے بیٹی کو شادی کے پندرہ سال بعد پایا اور اپنی جان سی پیاری بیوی کو کھو دیا تھا!!! ۔ ماہی کی رخصتی کا وقت ہوا تو وہ اپنے باپ کے گلے لگ کے بے حد روئی "کیونکہ وہ برات میں آنے والوں خواتین اور اپنی ساس کی باتیں سن چکی تھی کہ ایک بیٹی اور اس کو بھی اتنا سامان دیا بس نہ کھانا ڈھنگ کا تھا"میرے بیٹے کو کون سا کمی تھی میں تو بس اکلوتی کی وجہ سے رشتہ کیا تھا "۔ ماہی اپنی دہلیز سے دوسرے گھر میں داخل ہوئی تو سوچتی رہی میرا مقدر کیا ہوگا، ۔ "امی یہ لڑکی دیکھی تھی میرے لئے جو نہ کار لائی نہ اے سی آپ تو کہہ رہی تھی اکلوتی ہے سب لے کر آئے گی"۔ ماہی نے اپنے شوہر کو دیکھا جس کے لئے اُس نے سب چھوڑا تھا اور اس کے سامنے اپنے باپ کا چہرہ آگیا روتی انکھیں "ہاں بیٹا مجھے کیا پتہ تھا یہ کنگال ہے تم اسے طلاق دے دو میں تمارے لئے اب امیر گھر سے بہو لاؤں گی، ہم تو اسے بیاہ لائے تھے سامان لائے گی لیکن یہ تو نہ ہونے کے برابر سامان ہے، گاڑی مانگی تھی اور موٹر سائیکل لے آئی ہے"۔ ماہی تقدیر کا کھیل سمجھنے سے قاصر اپنے باپ کہ دہلیز پر قدم رکھتے ہوئے احمد صاحب کا سوچ رہی تھی کہ احمد صاحب سامنے دروازے پر گرے سوچ رہے تھے انہوں نے تو ماہی کے لئے چھت بھی نہ چھوڑی۔ اور ماہی دلہن کے لباس میں اپنے باپ کی لاش پر رو رہی تھی۔
  3. میرا قتل ہوا تھا۔۔۔ یہی کوئی تین سال پہلے گھر سے نکلا تو دو موٹر سائیکل سواروں نے گولی مار دی جب تک جسم سے نکل کر انکا چہرہ دیکھتا وہ جا چکے تھے ۔ ویسے چہرہ دیکھ بھی لیتا تو کیا کرتا، ایک مرا ہوا شخص کر ہی کیا سکتا ہے؟ ایک بیٹا تھا ۔ایک بیوی، ماں باپ کو بڑھاپے میں جو درد دیا تھا انکا سامنا کرنے کی ہمت نہی ہوئی۔ سو وہیں سے قبرستان چلا آیا ۔۔۔اپنی بے وقت موت کا دکھ تو تھا۔ مگر شکر ہے قبرستان میں اچھے ساتھی ملے ۔جنہوں نے کافی حوصلہ دیا ۔ آج تین سال ہونے کو ہیں جب بھی گھر سے کوئی آتا ہے تو قبر سے نکل کر دور چلا جاتا ہوں۔ اماں کے تو خیر گھٹنوں میں درد رہتا ہے شروع شروع میں آتی رہیں بعد میں آنا چھوڑ دیا ۔ کچھ ماہ پہلے آنے والے ماسٹر جی بتاتے ہیں اب اماں کیلیے چلنا ممکن نہی رہا ہر وقت بیمار رہتی ہیں گلی محلہ بھی اچھا ہے زیادہ بیمار ہوں تو ہسپتال بھی لے جاتے ہیں ۔ یہی سوچ کر دل کو تسلی دیتا ہوں کہ میرا بیٹا جوان ہوجائے گا تو دادی کو سنبھال لے گا ۔ اور ابا شاید ناراض ہیں۔ کبھی عید شب برات بھی ملنے نہی آتے ۔ جنازے کے ساتھ بھی آئے تو جنازہ پڑھ کے چل دیے۔ میری خواہش ہی رہی کہ جب قبر میں اتاریں گے تو ایک بار گلے لگا لونگا مگر خیر غلطی تو میری ہی تھی اگر اس دن انکا کہا مان کر گھر میں رک جاتا تو آج شاید یہاں نا ہوتا ۔ میری بیوی اکثر بیٹے کے ساتھ آتی ہے ساتھ کی قبر والے شیخ صاحب بتا رہے تھے۔ میرے بیٹے کو قبر کی تختیاں پڑھنا آگئی ہیں اور سارا وقت اپنی ماں کو قبروں کے کتبے سناتا رہتا ہے۔ میری بیوی خاموشی سے قبر دیکھتی رہتی اور پھول چڑھا کر چلی جاتی ہے ۔پورے قبرستان میں صرف میری قبر ہے جس پر چنبیلی کے پھول ہوتے ہیں۔ حالانکہ میری بیوی کو پھولوں سے الرجی تھی۔ چنبیلی کا پھول تو دور سے دیکھ کر ہی اسے چھینکیں آنے لگتیں۔ میں اکثر اسے کہتا کہ مجھے چنبیلی کے پھول پسند ہیں اور شرارتا چنبیلی کا پھول اسے تنگ کرنے کیلیے خرید لاتا وہ خوف سے آنکھیں بند لیتی اور میں وہ پھول اسکے ناک کے قریب کرتا کبھی اس پر پھینک کر تنگ کرتا ۔ ناجانے اب کیسے وہ چنبیلی کے پھول خریدتی ہوگی ؟۔۔۔ اسکو تو ان سے الرجی تھی اور خوف کھاتی تھی۔ وہ پھول جب تک قبر پر پڑے رہیں میری ہمت نہی ہوتی کہ انکے قریب بھی جا سکوں۔ آج بھی وہ آئی تھی۔۔۔۔۔۔ میں رات کے اس پہر قبر سے باہر ان پھولوں کے سوکھ کے اڑ جانے کا انتظار کر رہا ہوں اب مجھے بھی چنبیلی کے پھولوں سے الرجی ہے۔
  4. ملکیت شادی کی پہلی رات ہم ایک دوسرے کو دیکھ کے بڑی دیر ہنستے رہے کہ یہ ہم نے کیا کر دیا ہے لیکن ان قہقہوں کے پیچھے کی فکریں ہم دونوں کے چہروں سے عیاں تھیں۔ شادی چونکہ جلد بازی اور خاندان والوں کی ناراضگی میں ہوئی تھی سو مونہہ دکھائی کے پیسے میرے پاس نہیں تھے..۔ ایک دوست سے ادھار پکڑ کے سونے کی ایک ہلکی سی انگوٹھی اسے دی جسے اس نے یہ کہہ کے واپس کر دیا کہ میں تمہارے حالات سے واقف ہوں، جن حالات میں شادی ہوئی ہے اس سے بھی واقف ہوں، سو جب خود دلا سکو گے تب لوں گی۔!!۔ میں نے تھوڑا شرمندہ ہوتے ہوئے پوچھا کہ "اچھا بتاؤ۔!۔ تمہاری سب سے بڑی خواہش کیا ہے۔۔؟؟؟ میں کسی دن وہ ضرور پوری کروں گا"۔ اس نے کچھ تامل کے بعد کہا کہ " زندگی میں دو ہی خواہشات کے لئے خدا کے سامنے گڑگڑائی ہوں۔۔۔۔ ایک اپنا گھر ہو، چاہے بہت چھوٹا سا ہو لیکن اپنا ہو اور دوسرا ۔۔۔۔۔ "دوسرا۔۔؟" "دوسرا، میرے سامنے ہے ۔۔" ہم دونوں نے ایک دوسرے کا مونہہ دیکھا اور مسکرانے لگے۔!!۔ پسند کی شادی پہ عورت پہلے اپنے گھر والوں سے سنتی ہے بعد میں سسرال سے۔ وہ ساری کشتیاں جلا کے آئی تھی سو اس نے زبان سی لی۔ اب اگلی ذمہ داری میری تھی۔ ایک دوست کے توسط سے لاہور ایک کال سنٹر میں جاب مل گئی لیکن میں کبھی اپنے شہر سے نکلا نہیں تھا سو ایک انجان شہر میں جانے کے لئے مجھے تھوڑا سرمایہ درکار تھا۔ ابو سے مجھے دس ہزار ملے، اگلے ہفتے کی ٹکٹ تھی۔ رات کو میں حسابوں میں مصروف تھا تو وہ میرے پاس آئی، اس نے اپنے زور سے بند مٹھی کھولی اور میرے سامنے کر دی۔۔۔ میں نے کہا "تم فکر نہ کرو میرے پاس پیسے ہیں، یہ تم اپنے پاس ۔۔۔" "یار مجھ سے جھوٹ نہ بولا کرو، مجھے پتہ ہے نہیں ہیں" میں خاموش ہو گیا کیونکہ پیسوں کی ضرورت مجھے تھی۔ وہ میرے پاس بیٹھ گئی اور کسی ماسٹر پلانر کی طرح مجھے سمجھانے لگی۔!!۔ "میں نے ایک پلان سوچا ہے" "کیا۔۔؟" "تمہاری گندم گاؤں سے آتی ہے نا۔۔؟" "ہاں" "تم ایسا کرو ان پیسوں کی گندم لے لو، گھر کے لئے بھی لینی ہے، گاؤں سے تمہیں سستی مل جائے گی۔ میری ایک دوست ہے، اس سے بات کی ہے میں نے اس کو ضرورت ہے، تم یہاں سے اٹھا کے وہاں دے دینا کچھ پیسے بچ جائیں گے" وہ بڑی اکسائٹمنٹ سے مجھے ایک بزنس پلان سمجھا رہی تھی۔ میں اس کی معصومیت پہ مسکرایا لیکن پلان برا نہیں تھا۔ پلان کامیاب رہا، یہ پلان ہم نے گھروالوں سے مخفی رہا۔ پیسے لے کے جب میں گھر آیا تو رات کو ہم چھوٹے بچوں کی طرح پیسے گن رہے تھے جیسے بچے غلہ توڑنے کے بعد گنتے ہیں حتی کہ ان کو پورا حساب ہوتا ہے۔ ہمیں فی من ساڑھے تین سو کے حساب سے چھے ہزار تین سو (6,300) منافع ہوا۔!!۔ یہ ہمارا پہلا کامیاب بزنس تھا۔ دو ہزار میں نے اس کے منع کرنے کے باوجود اس کے ہاتھ پہ رکھا کیونکہ اصولی طور پہ یہ اسی کی کمائی تھی۔!!۔ اگلے ہفتے میں اسے چھوڑ کے لاہور نکل گیا۔ لاہور میرے لئے انجان تھا۔ کچھ دن دوست کے گھر رہا، بعد میں جب اپنی رہائش ڈھونڈنی پڑی تو دال روٹی کا بھاؤ پتا چلنے لگا۔ رہائش اور ماہانہ خرچوں کا حساب لگایا تو یہ میری سوچ سے تھوڑا زیادہ تھا ۔ پیچھے میری ایک منتظر بیوی بھی تھی اور ایک تنخواہ میں مجھے میرا گزارہ ہوتا مشکل نظر آ رہا تھا۔ پتہ نہیں یہ اس کی محبت تھی یا احساس ذمیداری میں نے بھی تہیہ کیا کہ کچھ نہ کچھ تو کروں گا ہی۔ اس نے اگر میرے بھروسے سب چھوڑا ہے تو اس کا بھروسہ نہیں ٹوٹنے دے سکتا۔ !!۔ میں نے اپنے کال سنٹر کے قریب کام ڈھونڈنا شروع کیا۔ اتفاق سے وہاں ایک ریستوران میں مجھے نوکری مل گئی۔!!۔ ہوتا اب یہ تھا کہ صبح 7 سے شام 5 میں کال سنٹر میں تھا، وہاں سے آ کے سو جاتا تھا اور رات 12 سے صبح چھ نائٹ شفٹ پہ ریستوران۔!!۔ وہاں سے مجھے دو وقت کا کھانا مل جاتا تھا جس سے میرا کافی خرچہ بچ جاتا تھا۔ کال سنٹر کی تنخواہ 15 ہزار تھی جو کمیشن ملا کے 25,26 بن جاتا تھا اور ریستوراں والے مجھے آٹھ ہزار دیتے تھے۔ اس اضافی کام کا میں نے گھر نہیں بتایا تھا ورنہ ___ (میری بیوی) مجھے کبھی یہ نہ کرنے دیتی۔!!۔ مہینے بعد گھر گیا تو بارہ ہزار اس کے ہاتھ میں رکھ دئے۔ اس نے چمکتی آنکھوں کے ساتھ تیں دفعہ گنتی کی، پھر انہیں دو دفعہ چوما اور نمناک آنکھوں کے ساتھ اپنے اٹیچی کیس میں اپنا حق سمجھ کے رکھ لئے.!!۔ اس کی وہ خوشی میرے لیے کائنات کی سب سے محبوب شے تھی۔۔۔ میں اسے اپنے ساتھ لے جانا چاہتا تھا لیکن میرے وہاں کے حالات اس چیز کی اجازت نہیں دیتے تھے، اس نے بھی بردباری کی انتہا کرتے ہوئے خود ہی منع کر دیا۔!!۔ اس کی دعائیں تھیں یا اس کا رزق، دو ماہ میں مجھے ایک فرم میں نوکری مل گئی۔ یہاں میری تنخواہ چالیس ہزار تھی جو میری سوچ اور ضروریات کے حساب سے کافی زیادہ تھا۔!! محنت کی عادت تو مجھے پہلے ہی تھی سو فارغ وقت میں، میں نے ایک پیکنگ کمپنی میں نائٹ شفٹ پہ نوکری کر لی۔ یہ کام ریستوران سے کافی بہتر اور صاف ستھرا تھا اور تنخواہ بھی مناسب تھی۔ اس نوکری کا میں نے اسے نہیں بتایا کہ اس کو سرپرائز دوں گا۔ اس دفعہ میں دو ماہ بعد گھر گیا اس کی سالگرہ تھی۔!!۔ اور گھر والوں کے سامنے ہم انتہا کے میسنے تھے، ان کو کچھ نہیں بتاتے تھے۔۔۔ سالگرہ پہ ایک چھوٹا سا کیک ہم 7 لوگوں میں تقسیم ہوا۔ رات کو ہم جب کمرے میں اکیلے ہوئے تو اسے ایک ڈبہ پکڑا دیا۔ اس نے خوشی اور حیرت سے اسے الٹ پلٹ کر دیکھا اور پوچھا "کیا ہے اس میں...؟ " "خود ہی دیکھ لو" "اوہ! اچھا میرے پاس بھی کچھ ہے" میں نے حیرت سے پوچھا "واقعی۔۔؟ کیا۔۔؟" اس نے اپنے اٹیچی کیس سے ایک چھوٹا سا ڈبہ نکال کے مجھے دے دیا۔!! پہلے اس نے اپنا ڈبہ کھولا تو خوشی کے مارے اس کی ہلکی سی چیخ نکل گئی۔ یہ ایک اینڈرائیڈ سمارٹ فون تھا۔ اس کو فوٹو گرافی اور برانڈز سرچ کرنے کا خبط تھا جس کو وہ دوستوں کے موبائل سے کبھی کبھار پورا کر لیتی تھی۔ اس نے جلدی جلدی اسے نکالا، آن کیا اور کہا۔۔۔ "lets_take_a_selfie" اور یہ ہماری اک ساتھ پہلی باقاعدہ فوٹو تھی۔!! اب میری باری تھی، میں نے گفٹ کھولنا شروع کیا۔ یہ جی شاک کی ایک سپورٹس واچ تھی۔ اسے میری خواہشات کا بخوبی علم تھا۔ یہ کافی مہنگی تھی جس کی میں نے زندگی میں ہمیشہ بس خواہش کی تھی۔ اس کے پیسے اس نے اپنے خرچے میں سے کیسے بچائے تھے وہ میری سمجھ سے باہر تھا، اس کے تحفے کے آگے میرا تحفہ شرمندہ ہو رہا تھا۔!!۔ اس رات ہم نے اپنے "تحائف" کو خوب انجوائے کیا۔!!۔ عورتیں گھر داری کے معاملے میں بہت دور اندیش ہوتی ہیں، وہ اپنے ہمسفر کے ساتھ بچوں کے نام حتی کہ ہونے والے گھر کے پردوں اور چادروں کے ڈیزائن تک شادی سے پہلے سوچ لیتی ہیں۔ ہم نے شادی کی پہلی رات یہ وعدہ کیا تھا کہ اولاد کی طرف تب جائیں گے جب ان کو خود سے بہتر زندگی دے سکیں۔!!۔ ہماری اگلی کوشش اپنے گھر کے لئے تھی، جس کے لیے ہم دونوں ایک دوسرے سے چھپ کے کوشش کر رہے تھے۔ اس نے بھی ایک پرائیویٹ سکول آکسفورڈ میں ٹیچنگ شروع کر دی تھی اور گھر میں بھی کچھ بچے پڑھنے آ جاتے تھے۔ گھر میں اس معاملے کو لے کے کبھی کبھی گرما گرمی بھی ہو جاتی کہ بہنیں جوان ہو رہی ہیں، ان کا تمہیں خیال نہیں۔۔۔ گو کہ میں گھر میں تھوڑا خرچہ دے دیتا تھا لیکن ساس بہو کی وہی ازلی لڑائی کہ سارا خرچہ ہمارے ہاتھ میں ہو۔ ___ نے اس حوالے سے کبھی گھر بحث نہیں کی وہ اپنی تنخواہ کا زیادہ حصہ خود ہی امی کو دے دیتی تھی اس کا بھی حل ہم نے ایسے نکالا تھا کہ ایک دن میں گھر آیا ہوا تھا، میں نے پلان کے مطابق جان بوجھ کے اس بات پہ خوب لڑائی کی کہ ___ خرچہ گھر نہیں دے گی۔!! وہ جوان ہے، نئی بیاہی ہے سو اس کی اپنی بھی ضروریات ہیں۔ والدہ گرج برس کے چپ ہو گئیں، جب ___ کی تنخواہ آئی تو اس نے خود ہی والدہ کو تھوڑے پیسے دے دیئے کہ وہ تو کہتے رہتے ہیں۔۔ ماں زیر ہو گئیں کہ کیسی "فرمان بردار بہو" ہے جب کہ یہ پلان بھی بہو کا تھا۔!!۔ دو سال بعد آخر وہ دن آ گیا جس کے لیے اس نے ساری زندگی خواہش اور میں نے محنت کی تھی۔ یہ بھی اس کا "برتھ ڈے سرپرائز" تھا۔ شہر کے ایک پوش علاقے میں ساڑھے چار مرلے کا ایک پلاٹ۔!!۔ اس کو جب میں نے بتایا کہ یہ تمہارا ہے تو زندگی میں پہلی دفعہ میرے سامنے وہ "دھاڑیں" مار مار کے روئی، جیسے یہ سب آنسو اس نے اسی دن کے لئے بچا رکھے تھے۔ ہم کافی دیر خالی پلاٹ میں مٹی پہ ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑے بیٹھے رہے... وہ تھوڑی تھوڑی دیر بعد اپنی ایک انگلی زمین پہ گھسیٹی اور کسی بچے کی طرح لکھ کے دہراتی۔ "میری ملکیت" زندگی اب ٹریک پہ آ چکی تھی۔ جس دن مجھے اس کی پریگننسی کا پتہ چلا اس دن میں پاگلوں کی طرح خوش تھا۔ ہم نے گھر کا کام، بچوں کے کپڑے اور پتہ نہیں کیا کیا پلان کرنا شروع کر دیا۔ ایک رات اس کی طبیعت معمول سے زیادہ خراب ہوئی۔ میں اپنی زندگی میں سارہ کو لے کے کبھی نہیں ڈرا، اس وقت بھی نہیں جب پورے خاندان کے سامنے اکیلا کھڑا تھا۔ لیکن زندگی میں پہلی دفعہ اس کی اس حالت نے میری روح نچوڑ کے رکھ دی۔!!۔ میں اسے لے کے ہسپتال بھاگا۔ میری حالت یہ تھی کہ شرٹ پہنی تھی جس کے بٹن بند نہیں تھے اور میں ننگے پیر ہسپتال میں اس کو اٹھا کے بھاگ رہا تھا۔۔ اس کی حالت خراب تھی، ڈاکٹروں نے ایک زندگی بچانے کا آپشن دیا تھا جس کا جواب واضع تھا۔ میں وارڈ کے باہر فرش پہ گھٹنوں کے بل بیٹھا اللہ تعالیٰ سے اس کی زندگی کی بھیک مانگ رہا تھا۔!!۔ لیکن خدا کو کچھ اور منظور تھا، اس نے ___ کے لیے بہتر گھر چن رکھا تھا۔ وہ ایک بیٹی کا تحفہ دے کے مجھے دغا دے گئی، اس کا تحفہ ہمیشہ کی طرح میرے سارے تحائف پہ بھاری تھا۔ میں نے اسی کے نام پر ہماری بیٹی کا نام ___ رکھا۔!!۔ آج بھی میں اپنی بیٹی کو جب اس پوش علاقے میں ایک خوبصورت پلاٹ کے پاس اس کی ماں سے ملوانے اس کی قبر پرلے جاتا ہوں تو وہ مجھ سے اکثر پوچھتی ہے کہ۔۔۔ بابا.!۔ ماما یہاں سب سے الگ کیوں رہتی ہیں___؟ میں اسے ہمیشہ ٹال دیتا ہوں ۔۔۔ میں اسے کس طرح بتاؤں کہ یہ اسی کا گھر ہے، یہ اسی کی "ملکیت" ہے جس پہ اس کے علاوہ کسی کا حق نہیں۔!۔
  5. اک پیغام محبت از مرحا خان آئیے آئیے جی جی "آپ".. ہم آپ ہی سے مخاطب ہیں۔ ارے ادھر کدھر دیکھ رہے ہیں۔ حیران مت ہوں،،، سیدھے چلیے۔ آئیے ملواتے ہیں آپکو "شاہ ہاؤس" کے مكینوں سے۔ اس خوبصورت سے گھر کے دالان میں کرسی پر اخبار کا مطالعہ کرتے جو صاحب براجمان ہیں وہ اس گھر کے سربراه "عدیل شاہ" ہیں۔ ان کے عقب میں جھانکئے تو گھاس پر لیٹا آنکھوں کو چھوٹا کیے آسمان کو تکتا انکا چھوٹا لاڈلا سپوت ہے جو عمر میں پندرہ سال کا ہونے کے باوجود اپنے بابا کا چھوٹو شا بےبی ہے۔ اب تھوڑا دائیں طرف جانے والے راستے پر مُڑیں۔ جی "آپ" ہی سے مخاطب ہیں ہم۔۔۔ اجی آگے بڑھ کر سامنے والے کمروں میں جھانکئے لیکن یہ کیا کمرے تو خالی ہیں تو باقی مكین کہاں گئے؟ ٹھہریے،،، زیادہ سوچئے مت۔۔ اپنے بائیں طرف باورچی خانے میں جھانکئے۔۔ یہ پانی کی بوتل پٹخ کر منہ میں کچھ بڑبڑانے والے صاحب، عدیل شاہ کے بڑے سپوت "شاہ ویر" صاحب ہیں جنکا غصہ اکثر انکی ناک پر سوار رہ کر بیچاری ناک کو هلكان کرتا ہے۔ بدمزاج بھی انتہا کے ہیں۔ انکے ایسا ہونے کی بھی کچھ وجوہات ہیں۔ صبر رکھیے،، بتائیں گے،، سب بتائیں گے۔ یہ دو بیٹے ہی "عدیل شاہ" کی کل کائنات ہیں۔ زوجہ محترمہ اس "دیارِ فانی" سے کوچ کر چکی ہیں۔ اب اسی خاموشی سے باہر چلیے کیوں کہ یہاں اب جنگِ عظیم کا آغاز ہوا چاہتا ہے۔ اب ہم چلتے ہیں۔ ہمیں گیا وقت سمجھ کر بھولیے گا مت۔ پھر ملیں گے۔۔ بابااااااااااا !! شاہ میر کے چیخنے پر عدیل شاہ نے رخ موڑ کر گھاس پر لیٹے اپنے لاڈلے سپوت کو دیکھ کر مسکراہٹ دبائی۔ جسکے چہرے پر گندی شرٹ اڑتی ہوئی آ کر گری اسکے معصوم چہرے کو بوسہ دے رہی تھی۔ اخبار میز پر رکھتے انہوں نے تنبیہی نظروں سے لان کے دہانے کھڑے شاہ ویر کو دیکھا۔ جو چہرے پر بیزاری کے تاثرات سجاۓ کھڑا تھا۔ ویر ۔۔۔؟ انہوں نے مزید گھوری سے نوازا تو ویر نے غصے سے شاہ میر کو دیکھا جو گھاس پر منہ پھلاۓ بیٹھا تھا۔۔ بابا۔۔۔؟ میر نے ناراض نظروں سے اپنے وجیهہ بھائی کو دیکھا جو بیزار نظروں سے اسے ہی دیکھ رہا تھا۔ میرو ،، کب سے تمہیں بلا رہا ہوں۔ کان بند ہیں کیا تمھارے؟؟ کیا بھائی ،، اتوار کے دن بھی سکون سے نہیں بیٹھ سکتا اب انسان،،، عجیب مصیبت ہے۔۔ زیادہ بک بک کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ جب پتہ ہے سب کام خود ہی کرنے ہیں تو زیادہ منہ بنانے کی ضرورت کیا ہے۔۔ عدیل شاہ نے گہری سانس لے کر اپنے خوبرو بیٹے کو دیکھا۔ جو بنیان ٹراؤزر میں ملبوس ہاتھ میں گیلے کپڑے اٹھاۓ ہوئے تھا جو غالبًا ابھی دھو کے آیا تھا۔ اسکا كسرتی جسم اسکے دراز قد پر بہت بھلا لگتا تھا۔ ویر نے بےدیهانی میں صابن لگے ہاتھ سے ماتھے پر بکھرے بال سمیٹے۔۔۔ صابن کی جھاگ نے اسکے بالوں کو عجیب مضحکہ خیز بنا دیا۔ احساس ہونے پر اسنے جهنجهلا کر اپنے ہاتھ کو دیکھا۔۔ عدیل شاہ نے مسکراہٹ دبائی۔۔ میرو کو منہ چڑاتا دیکھ کر وہ پاؤں پٹختا ہوا گھر کے پچھلے حصے کی طرف چلا گیا۔ چلو میرو بیٹے ہم بھی کچھ خدمات انجام دیں۔ عدیل شاہ نے پینٹ کو ٹخنوں سے اوپر موڑتے ہوئے کہا۔ میرو بھی منہ بناتا انکے پیچھے چل دیا۔ میر تم دُھلے کپڑوں کو ڈرائیر میں ڈال کر سکھاتے جاؤ۔۔ ویر نے مڑ کر عدیل شاہ کو دیکھا جو میر کو ہدایت دیتے دُھلے کپڑے تار پر ڈالنے لگے تھے۔ ہلکی مسکراہٹ چہرے پر سجاتے وہ دوبارہ مشین سے کپڑے نکال کر دھونے لگا۔ ویر کی مسکراہٹ دیکھ کر میر کو شرارت سوجھی۔ بابا۔۔۔ ویسے ۔۔۔ ویر نے آنکھیں سكیڑ کر اسے دیکھا جو پٹاخے پھوڑنے سے باز نہ آتا تھا۔ بابا سنیں تو،،، ہاں بولو۔۔ انہوں نے مصروف سے انداز میں کہا۔ بابا، ویر بھائی شادی کے بعد بھی ایسے ہی کپڑے دھویا کریں گے ؟ بھابھی کہیں گی سنیے جی ذرا یہ بچوں کے "کچھے" تو دھو دیں۔ ہاہاہاہاہاہاہاہا ،،،، وہ دوہرا ہو کر ہنسنے لگا۔ اسے جیسے یہ سوچ کر ہی مزہ آیا تھا۔ عدیل شاہ نے ہاتھ میں پکڑا تولیہ اس کے منہ پر دے مارا۔ تهپ کی آواز کے ساتھ تولیہ اسکے منہ پر لگا۔ وہ جو دوہرا ہو کر ہنس رہا تھا توازن بگڑنے پر دھڑام سے نیچے گرا۔ اب کہ ویر کا قہقہہ گونجا تھا۔ عدیل شاہ نے شرارت سے ویر کو دیکھا جسکا چہرہ ہںسنے سے سرخ پر چکا تھا۔ سیاہ داڑھی سے ظاہر ہوتا ننھا سا ڈمپل اپنی ذرا سی جهلک دکھا کر شرماتے ہوۓ چھپ گیا۔ میر سے اپنی بے عزتی برداشت نہ ہوئی۔ اسنے ڈرائیر سے پینٹ کھینچ کر نکالی اور ویر کی طرف پھینکی جو اسکے منہ پر جا کر لگی۔ اب کہ عدیل شاہ کے منہ سے ہنسی کا فوارا ابلا۔ ویر نے کھڑے ہوتے صابن سے لتھڑے کپڑے میر کو کھینچ مارے۔ غلطی سے عدیل صاحب بیچ میں آ گئے اور یہ گئے سارے کپڑے انکے منہ پر۔۔۔۔ میر کا چھت پھاڑ قہقہہ گونجا۔ اب کہ عدیل شاہ بھی میدان میں اتر آئے۔ ویر نے اپنا بچاؤ کرتے بھاگنا چاہا لیکن میر نے اسے پاؤں سے پکڑ لیا جس سے ویر اسکے اوپر دھڑام سے گرا۔ میر اسے پیچھے ہٹاتا کھسکنے لگا لیکن عدیل صاحب نے صابن کی جھاگ دنوں کے منہ پر مل دی۔ اب ہوا "باقاعدہ جنگ" کا آغاز۔۔ یہ تو ہر "اتوار کی صبح" کا منظر تھا۔۔ بات بات پر نوک جھونک کرتے زندگی کو اپنے انداز سے جیتے اس گھر کے مكین ایک دوسرے کو کافی تھے۔ نانوووو۔۔۔ خوشی سے چہکتا وہ گھر کا بیرونی دروازہ کھولے آندھی طوفان کی طرح اندر داخل ہوا۔۔ آئمہ بیگم نے دہل کر جہان کو دیکھا جسکا چہرہ خوشی سے جگمگا رہا تھا۔ تمیز نام کی کوئی چیز ہے تم میں ہان ۔ ایسے گھر میں داخل ہ۔۔۔۔۔۔ انکا جملہ منہ میں ہی رہ گیا۔ جہان نے آگے بڑھ کر انہیں گلے سے لگا لیا۔ نانو مجھے جاب مل گئی۔۔ یہ سن کر آئمہ بیگم بہت خوش ہوئیں۔ اللّه کا شکر ہے۔ انہوں نے اسکا ماتھا چوما۔ اللّه پاک تمھیں کامیاب کریں۔ جہان کی مسکراہٹ گہری ہوئی۔۔( کیا تم نے بہار میں کھلتے پھولوں کو دیکھا ہے ) نظر لگ جانے کے خوف سے آئمہ نے اسکے چہرے سے فوراً نظریں ہٹائیں۔ ایسی دلکش مسکراہٹ بھی کسی کی ہو سکتی ہے۔۔؟ ان کے دل نے بےاختیار نفی کی۔ میرا پیارا بیٹا،،، چلو شاباش نہا لو ،،، میں اپنے بیٹے کے لئے تب تک کھانا لگاتی ہوں۔ جہان فرمانبرداری سے سر ہلاتا اپنے کمرے کی طرف چل دیا۔۔ شاور لینے کے بعد وہ بغیر شرٹ کے باتھ روم سے باہر نکلا۔۔ آئینے کے سامنے آتے وہ نرمی سے اپنے سیاہ گھنے بالوں کو تولیے سے سکھانے لگا۔۔ اسکی سوچوں کا محور وہی تھی جو بہت چپکے سے اسکے دل میں آ سمائی تھی۔ میرے بارے میں جان کر اسکا ردعمل کیا ہوگا۔۔؟؟ یہ سوچ آتے ہی مسکراہٹ اسکے عنابی لبوں پر آنے کے لئے بیتاب ہوئی جسے اسنے ہونٹوں کے کنارے دبا لیا۔ وہ جب مسکراتا تھا تو اسکی آنکھیں بھی مسکراتی تھیں جو اسکے چہرے پر ایسی چمک پیدا کرتی تھیں کہ دیکھنے والا مسحور ہوجاتا تھا ۔۔ شرٹ پہن کر بکھرے بال سنوارتے اسنے باورچی خانے کا رخ کیا جہاں رکھی چھوٹی میز پر آئمہ گرم کھانا رکھ رہی تھیں۔۔ مسکراتے ہوئے وہ کرسی پر بیٹھا اور چھوٹے چھوٹے نوالے لیتا کھانا کھانے لگا۔ آئمہ اسکے سامنے بیٹھیں اسکے چہرے کو دیکھنے لگیں۔ کتنی معصومیت تھی اسکے چہرے پر۔۔ نظروں میں بےاختیار اس کی نظر اتاری۔ کیا ہوا نانو؟؟ آج آپکو زیادہ پیار نہیں آرہا مجھ پر ؟ شریر مسکان کے ساتھ اسنے پوچھا تو آئمہ نے مسکراہٹ دبائی۔۔ وہ اپنی عمر سے بہت کم دکھائی دیتی تھیں اور عمر کے اس حصّے میں بھی خوبصورت تھیں۔ ہاں تو تمھیں مسئلہ کوئی ؟؟ جہان نے نفی میں سر ہلایا۔۔ انا کو بتایا تم نے جاب کا ؟؟ انا کے نام پر اسکی آنکھوں کی چمک بڑھی جسے آئمہ خوب سمجھتی تھیں۔۔ تھوڑی دیر تک وہیں جاؤں گا۔۔ تایا سے بھی مل لینا،، گلہ کر رہے تھے کہ پچھلی دفعہ بغیر ملے ہی چلے گئے تھے۔۔ جی مل لوں گا۔۔۔ اک خواب نے آنکھیں کھولی ہیں^°• •°کیا موڑ آیا ہے کہانی میں°• وہ بھیگ رہی تھی بارش میں°• \~اور آگ لگی ہے پانی میں\~ ہم پھر سے حاضر ہیں۔۔ کہیں آپ ہمیں بھول تو نہیں گئے؟؟ چلیں آپکو لے کر چلتے ہیں ایک نئے کردار کی طرف۔۔ گھر کے دروازے کو کیا ہونقوں کی طرح تک رہے ہیں،، اجی اندر چلئے،، بارش میں ساکت بیٹھی یہ دوشیزہ کون ہیں؟؟ انکا جائزہ لیجیئے،، ہم ابھی آتے ہیں۔ ایسی طوفانی بارش میں ایسی گہری خاموشی کے ساتھ وہ برآمدے کی سیڑھیوں پر بیٹھی تھی۔ گہرے بھورے کمر تک آتے سلكی بال بارش کے پانی سے گیلے ہونے کی وجہ سے لٹوں کی صورت چہرے کے اطراف میں چپکے تھے۔ پانی کی ایک بوند اسکے ماتھے سے ہوتے اسکی تیکھی ناک میں پہنی نوز پن پر ٹھہری اور نیچے گر گئی۔ اسکے بھورے گلابی ہونٹ معصوم سی مسکراہٹ میں ڈھلے ہوئے تھے۔ اسکی بھوری آنکھوں میں ایک خاص تاثر تھا جو کبھی سرد ہوجاتا اور کبھی آنکھوں کو خوبصورتی بخشتا۔ اکثر ان آنکھوں میں کوئی تاثر ہی نہ ہوتا۔ وہ بہت خوبصورت نہیں تھی لیکن اسکی شخصیت میں عجیب جازبيت تھی جو مخالف صنف کو اپنی اوڑھ کھینچتی تھی۔ اہم اہمم ،، ہم پھر سے حاضر ھیں۔۔ انکو جانئے،، یہ "اَنا وقار" ہیں۔ جنکو اپنی 'انا' اور 'وقار' بہت ہی عزیز ہے۔ لیکن اس وقت یہ اتنی گم صم کیوں ہیں ؟؟ دور خلاؤں میں گھورتی انکی آنکھوں میں تو جهانكیے۔ یہ ایک "نویں جماعت" کے کمرے کا منظر تھا۔ اپنی جماعت کی دو قابل ترین لڑکیاں کرسی پر براجمان اپنی استانی کے سامنے روزمره کا سبق سنانے کی غرض سے کھڑی تھیں کہ يكلخت ان میں سے ایک کی ہنسی چھوٹی۔۔ میڈم کو دیکھ کر اس نے ہنسی ضبط کرنے کی کوشش کی لیکن ہنسی رکنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ اسکے ساتھ کھڑی عائزہ بھی اب کی بار ہنسنے لگی۔ اب صورتحال کچھ یوں تھی کہ وہ دونوں پیٹ پکڑے ہنستی جارہی تھیں۔ میڈم نے پہلے کڑی نظروں سے انہیں دیکھا اور پھر وہ خود بھی مسکرانے لگیں۔ چلو دفع ہوجاؤ اپنی جگہ پر بدتمیزو۔۔ اگر انکی جگہ کوئی اور ہوتا تو يقینًا ڈانٹ کا شکار ہوتا لیکن وہ تو اپنی میڈم کی لاڈلی تھیں۔ اپنے ڈیسک تک واپس آنے تک وہ ہنستی رہی تھیں۔ اور باقی طالبعلم انہیں دیکھ کر مسکرا رہے تھے۔ منظر ہوا میں تحلیل ہوا۔ انا نے آہستگی سے آنکھیں جهپكی۔۔ وہ دن زندگی کے بہترین دن تھے۔ عائزہ اور ابیحہ کی سنگت میں گزرے سکول کے دن اسے بہت یاد آتے تھے۔۔ عائزہ نے یونیورسٹی میں داخلہ لیا تھا جب کہ وہ ابیحہ کے ساتھ کالج سے بی اے کررہی تھی۔ ابیحہ اسکے ساتھ ہی ہوتی تھی لیکن عائزہ کو وہ اکثر بہت یاد کرتی تھی۔۔ ان تینوں کی دوستی بہت پرانی تھی۔ ایسے پیارے دوست بھی کسی کے ہوا کرتے ہیں؟؟ اس معاملے میں بلاشبہ وہ بہت خوش قسمت تھی۔۔ بارش اب رک چکی تھی۔۔ وہ اندر جانے کی نیت سے کھڑی ہوئی،، اسکے کپڑے اسکے وجود سے چپکے ہوئے تھے،، اسنے ہاتھ کی مدد سے قمیض کو کمر سے الگ کیا جو اسکی کمر سے چپکی اسکی نہایت پتلی کمر کو اور بھی واضح کررہی تھی۔۔ اپنی قمیض سیدھی کرتی وہ جیسے ہی پلٹی تو اسکی نگاہ جہان پر پڑی جو سینے پر ہاتھ باندھے اسے گہری نظروں سے دیکھ رہا تھا۔۔ انا نے فورًا دوپٹہ پھیلا کر اپنے آپکو ڈھانپا۔ ہان بھائی آپ۔۔؟ وعلیکم السلام۔۔ جہان نے سنجیدگی سے کہا تو انا کے چہرے پر شرمندہ سی مسکراہٹ ابھری۔ میں تمھیں کچھ بتانے آیا تھا۔ انا جو اسکی نظروں سے پزل ہورہی تھی سواليہ نظروں سے اسکی جانب دیکھنے لگی۔۔ مجھے جاب مل گئی ہے۔۔ سچ ہان بھائی،،، انا نے چہک کر کہا۔۔ ہمم بالکل سچ ۔۔ ہان بھائی میں بہت خوش ہوں۔ اللّه تعالٰی کا بہت بہت شکر ہے۔ اسکے "بھائی بھائی" کی تكرار پر اسکا حلق تک کڑوا ہوگیا۔۔ انا تم مجھے بھائی نہ کہا کرو ۔۔ اسنے سنجیدگی سے کہا تو انا نے حیران نظروں سے اسے دیکھا۔۔ ہان بھائی آپ میرے بھائی ہیں تو بھائی ہی کہوں گی نہ،،، عجیب باتیں کرتے ہیں آپ بھی۔ اسکا موڈ سخت آف ہو چکا تھا۔ وہ اسکی طرف دیکھے بغیر اندر کی جانب بڑھ گئی۔ جہان گہری سانس لیتے تیز قدموں سے بیرونی دروازہ عبور کر گیا۔
  6. واہ کہانی تو اچھی ہے اور اس میں ایکشن بھی آتا دکھ رہا ہے۔ہر کردار کی اپنی ایک ماضی کی بھی کہانی ہے۔
  7. یہ کہانی بھی بالکل پچھلی جیسی ہے کہ مسرت ہی نے نئی لڑکی تلاش کر کے دی اب بس سیکس باقی ہے۔
  8. مجھے بھی پردیس ہوس اور آہنی گرفت تک رسائی چاہیے۔پلیز ہیلپ ایڈمن صاحب
  9. کہانی اچھی ہے اور سادہ بھی مگر اس میں کوئی سنسنی نہیں ہے۔ ایک لڑکا ہے اور اس کو ایک عورت مل گئی جس نے اسے اپنی بھانجی کے ساتھ سیٹ کیا ہے۔ اگر اس می ں کوئی سسپنس ہوتا کوئی مشکلات ہوتی تو کہانی ایک دم زبردست ہو جاتی۔ پلیز اس اینگل سئ بھی سوچے اپنی اگلی کہانی میں دیکھے
  10. بہت افسوس ناک واقعہ ہے یہ۔ مجھے تو اتنا افسوس ہوا کہ ذہن سے ہٹتا ہی نہیں تھا۔ اسے طرح ایک ڈرامے ایسی ہے تنہائی میں کوما میں لڑکی کے ساتھ سوئیپر ریپ کر دیتا ہے اس سے تو انتہا کا خوف آیا۔ ڈاکٹر صاحب آپ کچھ شئیر کیجیے اس قسم کے واقعے پہ کسی سٹوری کی صورت میں
  11. You are a great fool , therefore you have been banned. Good decision.
×
×
  • Create New...