Disable Screen Capture Jump to content
Novels Library Plus ×
URDU FUN CLUB

Leaderboard

Popular Content

Showing most liked content on 04/11/2023 in all areas

  1. محبت کیا ہے آجکل محبت صرف نفسانی تسکین کا نام ہے ہمارے معاشرے میں زیادہ تر محبت کی شادیاں نفرت کی طلاقوں میں تبدیل ہوجاتی ہیں لیکن پھر بھی دھڑا دھڑ محبتیں اور ٹھکا ٹھک طلاقیں جاری ہیں ایسا لگتا ہے کہ محبت سے نفرت کا سفر ایک شادی کی مار ہے کتنی عجیب بات ہے کہ لڑکا لڑکی اگر ایک دوسرے کی محبت میں گرفتار ہو جائیں تو ان کی محبت بڑھنے کی بجائے دن بدن کم ہوتی چلی جاتی ہے ایک دوسرے سے اکتاہٹ محسوس ہونے لگتی ہے کیا وجہ ہے کہ محبت کا آغاز خوبصورت اور انجام بھیانک نکلتا ہے آخرایک دوسرے کی خاطر مرنے کے دعوے کرنے والے ایک دوسرے کو مارنے پر کیوں تل جاتے ہیں؟؟؟ وجہ بہت آسان ہے بلبل کا بچہ کھچڑی بھی کھاتا تھا پانی بھی پیتا تھا گانے بھی گاتا تھا لیکن جب اسے اڑایا تو پھر واپس نہ آیا اس لیے کہ محبت آزادی سے ہوتی ہے قید سے نہیں ہمارے ہاں الٹ حساب ہے جونہی کسی لڑکے کو کسی لڑکی سے محبت ہوتی ہے ساتھ ہی ایک عجیب قسم کی قید شروع ہوجاتی ہے، لڑکیوں کی فرمائشیں کچھ یوں ہوتی ہیں شکیل اب تم نے روز مجھے رات آٹھ بجے چاند کی طرف دیکھ کر آئی لو یو کا میسج کرنا ہے اب ہم چونکہ ایک دوسرے سے محبت کرنے لگے ہیں لہذا ہر بات میں مجھ سے مشورہ کرنا روز انہ کم ازکم پانچ منٹ کے لیے فون ضرور کرنا میں مسڈ کال دوں تو فوراً مجھے کال بیک کرنا فیس بک پر روز مجھے کوئی رومانٹک سا میسج ضرور بھیجنا،۔ لڑکوں کی فرمائشیں کچھ یوں ہوتی ہیں جان اب تم نے اپنے کسی مرد کزن سے بات نہیں کرنی کپڑے خریدتے وقت صرف میری مرضی کا کلر خریدنا وعدہ کرو کہ بے شک تمہارے گھر میں آگ ہی کیوں نہ لگی ہو تم میرے میسج کا جواب ضرور دو گی جان شاپنگ کے لیے زیادہ باہر نہ نکلا کرو مجھے اچھا نہیں لگتا،۔ محبت کے ابتدائی دنوں میں یہ قید بھی بڑی خمار آلود لگتی ہے لیکن جوں جوں دن گذرتے جاتے ہیں دونوں طرف کی فرمائشیں بڑھتے بڑھتے پہلے ڈیوٹی بنتی ہیں پھر ضد اور پھر انا کا روپ دھار لیتی ہیں اور پھر نفرت میں ڈھلنے لگتی ہیں اسی دوران اگر لڑکے لڑکی کی شادی ہو جائے تو رہی سہی کسر بھی پوری ہو جاتی ہے میری ذاتی رائے میں محبت آسانیاں پیدا کرنے کا نام ہے لیکن ہم لوگ اسے مشکلات کا گڑھ بنا دیتے ہیں غور کیجئے ہمیں جن سے محبت ہوتی ہے ہم جگہ جگہ ان کے لیے آسانیاں پیدا کرتے ہیں ہم اپنے بچے کے بہتر مستقبل کے لیے اپنا پیٹ کاٹ کر اس کی فیس دیتے ہیں خود بھوکے بھی رہنا پڑے تو اولاد کے لیے کھانا ضرور لے آتے ہیں لائٹ چلی جائے تو آدھی رات کو اپنی نیند برباد کرکے ہاتھ والا پنکھا پکڑ کر بچوں کو ہوا دینے لگتے ہیں ہم بے شک جتنے مرضی ایماندار ہوں لیکن اپنے بچے کی سفارش کرنی پڑے تو سارے اصول بالائے طاق رکھ دیتے ہیں یہ ساری آسانیاں ہوتی ہیں جو ہم اپنی فیملی کو دے رہے ہوتے ہیں کیونکہ ہمیں اُن سے محبت ہوتی ہے،۔ اسی طر ح جب لڑکے لڑکی کی محبت شروع ہوتی ہے تو ابتداء آسانیوں سے ہی ہوتی ہے اور یہی آسانیاں محبت پیدا کرنے کا باعث بنتی ہیں لیکن آسانیاں جب مشکلات اور ڈیوٹی بننا شروع ہوتی ہیں تو محبت ایک جنگلے کی صورت اختیار کرنے لگتی ہے محبت میں ڈیوٹی نہیں دی جاسکتی لیکن ہمارے ہاں محبت ایک فل ٹائم ڈیوٹی بن جاتی ہے ٹائم پہ میسج کا جواب نہ آنا کسی کا فون اٹینڈ نہ کرنا زیادہ دنوں تک ملاقات نہ ہونا ان میں سے کوئی بھی ایک بات ہو جائے تو محبت کرنے والے شکایتی جملوں کا تبادلہ کرتے کرتے زہریلے جملوں پر اُتر آتے ہیں اور یہیں سے واپسی کا سفر شروع ہو جاتا ہے جب کوئی کسی کے لیے آسانی پیدا کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا تو محبت بھی اپنا دامن سکیڑنے لگتی ہے،۔ میں نے کہا ناں محبت نام ہی آسانیاں پیدا کرنے کا ہے ہم اپنے جن دوستوں سے محبت کرتے ہیں ان کے لیے بھی آسانیاں پیدا کرتے ہیں اللہ تعالیٰ بھی چونکہ اپنے بندوں سے محبت کرتا ہے اس لیے ان کے لیے جا بجا آسانیاں پیدا کرتا ہے مجھے محبت میں گرفتار ہونے والے بالکل بھی پسند نہیں محبت گرفتاری نہیں رہائی ہے ٹینشن سے رہائی تنہائی سے رہائی مایوسی سے رہائی لیکن ہمارے معاشرے میں محبت ہوتے ہی ٹینشن ڈبل ہو جاتی ہے اور دونوں پارٹیاں ذہنی مریض بن کر رہ جاتی ہیں یہی وجہ ہے کہ محبت شروع تو ہو جاتی ہے لیکن پوری طرح پروان نہیں چڑھ پاتی لیکن جہاں محبت اصلی محبت کی شکل میں ہوتی ہے وہاں نہ صرف پروان چڑھتی ہے بلکہ دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی بھی کرتی ہے،۔ ہمارا المیہ ہے کہ ہمارے ہاں محبت سے مراد صرف جنسی تعلق لیا جاتا ہے یہ محبت کا ایک جزو تو ہو سکتا ہے لیکن پوری محبت اس کے گرد نہیں گھومتی بالکل ایسے جیسے کسی اسلم کا ایک ہاتھ کاٹ کر الگ کر دیا جائے تو اُس کٹے ہوئے ہاتھ کو کوئی بھی اسلم نہیں کہے گا اسلم وہی کہلائے گا جو جڑے ہوئے اعضاء رکھتا ہوگا ویسے بھی یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ساری محبت کا انحصار چند لمحوں کی رفاقت کو قرار دے دیا جائے محبت زندان نہیں ہوتی حوالات نہیں ہوتی جیل نہیں ہوتی بند کمرہ نہیں ہوتی کال کوٹھڑی نہیں ہوتی محبت تو تاحد نظر ایک کھلا میدان ہوتی ہے جہاں کوئی جنگلے کوئی خاردار تاریں اور کوئی بلند دیواریں نہیں ہوتیں، آپ تحقیق کر کے دیکھ لیجئے جہاں محبت ناکام ہوئی ہوگی وہاں وجوہات یہی مسائل بنے ہوں گے ہر کوئی اپنی محبت جتلاتا ہے اور دوسرے کو بار بار یہ طعنے مارتا ہے کہ تمہیں مجھ سے محبت نہیں لوگ کہتے ہیں کہ محبت کی نہیں جاتی ہو جاتی ہے غلط ہے محبت کی ایک چھوٹی سی کونپل دل میں از خود ضرور پھوٹتی ہے لیکن اسے تناور درخت بنانے کے لیے بہت کچھ کرنا پڑتا ہے وہ محبت کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی جہاں شکوے شکایتیں اور طعنے شامل ہو جائیں ایسے لوگ بدقسمت ہیں جو محبت کرنا نہیں جانتے لیکن محبت کر بیٹھتے ہیں اور پھر دوسرے کو اتنا بددل کر دیتے ہیں کہ وہ محبت سے ہی انکاری ہو جاتا ہے، کیا وجہ ہے کہ محبت کی شادی کرنے والے اکثر جوڑوں کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ ان کی اولاد اس رستے پر نہ چلے ہمیں یہ ماننا ہوگا کہ ہم میں سے اکثر نے صرف محبت کا نام سنا ہے اس کے تقاضوں سے واقف نہیں ہمیں کوئی پسند آجائے تو ہم سمجھتے ہیں کہ ہمیں اس سے محبت ہو گئی ہے پسند آنے اور محبت ہونے میں بڑا فرق ہے کسی کو پسند کرنا محبت نہیں ہوتا لیکن محبت تک پہنچنے کے لیے پہلا زینہ ضرور ہوتا ہے میں نے بے شمار لوگوں کو انا کے خول میں لپٹے محبت کرتے دیکھا ہے یہ محبت میں بھی اپنی برتری چاہتے ہیں ان کے نزدیک محبت میں بھی سٹیٹس ہوتا ہے حالانکہ محبت میں تو محمود و ایاز کی طرح ایک ہونا پڑتا ہے رہ گئی بات انا کی تو یہ وقتی سکون تو دے دیتی ہے لیکن اِس کمبخت کے سائڈ ایفیکٹس بہت ہیں،۔ انا کی جنگ میں ہم جیت تو گئے لیکن پھر اُس کے بعد بہت دیر تک نڈھال رہے
    2 likes
  2. ابا میں کہہ رہی ہوں مجھے ادھر شادی نہیں کرنی۔ ماہین یہ بات اپنے ابا سے دسویں بار کہہ رہی تھی !!۔ "تو بیٹا میں کیا تمہیں ساری زندگی گھر ہی رکھوں"؟ احمد صاحب کا ضبط بھی جواب دے گیا، ۔ ماہین ایک دم سے ڈر کے پیچھے دیوار کے ساتھ جا لگی!! ۔ "لیکن ابا آپ ان کی جہیز کی اتنی لمبی لسٹ کیسے پوری کریں گے، ابا میں ابھی اتنی بے ضرف نہیں ہوں کہ آپ پر مزید قرض چڑھا دوں میری وجہ سے پہلے ہی آپ قرض لے چکے ہیں۔"۔ ماہی نے اپنے آنسو ایک طرف دھکیلے!! ۔ آحمد صاحب بھی اپنی شہزادی جیسی بیٹی کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر نرم پڑھ گئے، آخر وہی واحد اِن کی آنکھ کا تارا تھی،!! ۔ "دیکھو ماہی بیٹا میں زیادہ قرض نہیں لے رہا، تم یہ سمجھو سارا کچھ ہوچکا ہے، بس کھانے کا رہ گیا ہے اور دیکھو بیٹا کوئی رشتہ ایسا نہیں ملے گا جو سامان کے بغیر بیاہ لے جائے۔ مجھے پھر بھی کچھ نہ کچھ کرنا پڑے گا پھر کیا ہوا جو اُن لوگوں نے لسٹ دے دی ہے اور بیٹا تمہاری ماں زندہ ہوتی تو اُن کی بھی یہی خواہشِ ہوتی کہ میری رانی میری ماہی اچھے سے رخصیت ہو جائے"۔ احمد صاحب نے ماہی کے ماتھے پر بوسہ دیتے ہوئے اُس کے آنسو صاف کیے۔ "ابا دنیا سہی کہتی ہے بیٹیاں بوجھ ہوتیں ہیں اور ابا کیا پتہ میں بعد میں خوش رہ سکوں یا نہ"۔ احمد صاحب نے ایک دم سے اپنے دل پر ہاتھ رکھا "نہ میری ماہی ایسے مت کہو"میری چندا چلو شاباش جاؤ اور صبح شاپنگ کر آنا بیٹی اب تو تھوڑے دن پڑے ہیں "۔ احمد صاحب سوچتے رہے کیسے انہوں نے بیٹی کو شادی کے پندرہ سال بعد پایا اور اپنی جان سی پیاری بیوی کو کھو دیا تھا!!! ۔ ماہی کی رخصتی کا وقت ہوا تو وہ اپنے باپ کے گلے لگ کے بے حد روئی "کیونکہ وہ برات میں آنے والوں خواتین اور اپنی ساس کی باتیں سن چکی تھی کہ ایک بیٹی اور اس کو بھی اتنا سامان دیا بس نہ کھانا ڈھنگ کا تھا"میرے بیٹے کو کون سا کمی تھی میں تو بس اکلوتی کی وجہ سے رشتہ کیا تھا "۔ ماہی اپنی دہلیز سے دوسرے گھر میں داخل ہوئی تو سوچتی رہی میرا مقدر کیا ہوگا، ۔ "امی یہ لڑکی دیکھی تھی میرے لئے جو نہ کار لائی نہ اے سی آپ تو کہہ رہی تھی اکلوتی ہے سب لے کر آئے گی"۔ ماہی نے اپنے شوہر کو دیکھا جس کے لئے اُس نے سب چھوڑا تھا اور اس کے سامنے اپنے باپ کا چہرہ آگیا روتی انکھیں "ہاں بیٹا مجھے کیا پتہ تھا یہ کنگال ہے تم اسے طلاق دے دو میں تمارے لئے اب امیر گھر سے بہو لاؤں گی، ہم تو اسے بیاہ لائے تھے سامان لائے گی لیکن یہ تو نہ ہونے کے برابر سامان ہے، گاڑی مانگی تھی اور موٹر سائیکل لے آئی ہے"۔ ماہی تقدیر کا کھیل سمجھنے سے قاصر اپنے باپ کہ دہلیز پر قدم رکھتے ہوئے احمد صاحب کا سوچ رہی تھی کہ احمد صاحب سامنے دروازے پر گرے سوچ رہے تھے انہوں نے تو ماہی کے لئے چھت بھی نہ چھوڑی۔ اور ماہی دلہن کے لباس میں اپنے باپ کی لاش پر رو رہی تھی۔
    2 likes
×
×
  • Create New...