TEHREEM Posted April 7, 2023 #1 Posted April 7, 2023 ابا میں کہہ رہی ہوں مجھے ادھر شادی نہیں کرنی۔ ماہین یہ بات اپنے ابا سے دسویں بار کہہ رہی تھی !!۔ "تو بیٹا میں کیا تمہیں ساری زندگی گھر ہی رکھوں"؟ احمد صاحب کا ضبط بھی جواب دے گیا، ۔ ماہین ایک دم سے ڈر کے پیچھے دیوار کے ساتھ جا لگی!! ۔ "لیکن ابا آپ ان کی جہیز کی اتنی لمبی لسٹ کیسے پوری کریں گے، ابا میں ابھی اتنی بے ضرف نہیں ہوں کہ آپ پر مزید قرض چڑھا دوں میری وجہ سے پہلے ہی آپ قرض لے چکے ہیں۔"۔ ماہی نے اپنے آنسو ایک طرف دھکیلے!! ۔ آحمد صاحب بھی اپنی شہزادی جیسی بیٹی کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر نرم پڑھ گئے، آخر وہی واحد اِن کی آنکھ کا تارا تھی،!! ۔ "دیکھو ماہی بیٹا میں زیادہ قرض نہیں لے رہا، تم یہ سمجھو سارا کچھ ہوچکا ہے، بس کھانے کا رہ گیا ہے اور دیکھو بیٹا کوئی رشتہ ایسا نہیں ملے گا جو سامان کے بغیر بیاہ لے جائے۔ مجھے پھر بھی کچھ نہ کچھ کرنا پڑے گا پھر کیا ہوا جو اُن لوگوں نے لسٹ دے دی ہے اور بیٹا تمہاری ماں زندہ ہوتی تو اُن کی بھی یہی خواہشِ ہوتی کہ میری رانی میری ماہی اچھے سے رخصیت ہو جائے"۔ احمد صاحب نے ماہی کے ماتھے پر بوسہ دیتے ہوئے اُس کے آنسو صاف کیے۔ "ابا دنیا سہی کہتی ہے بیٹیاں بوجھ ہوتیں ہیں اور ابا کیا پتہ میں بعد میں خوش رہ سکوں یا نہ"۔ احمد صاحب نے ایک دم سے اپنے دل پر ہاتھ رکھا "نہ میری ماہی ایسے مت کہو"میری چندا چلو شاباش جاؤ اور صبح شاپنگ کر آنا بیٹی اب تو تھوڑے دن پڑے ہیں "۔ احمد صاحب سوچتے رہے کیسے انہوں نے بیٹی کو شادی کے پندرہ سال بعد پایا اور اپنی جان سی پیاری بیوی کو کھو دیا تھا!!! ۔ ماہی کی رخصتی کا وقت ہوا تو وہ اپنے باپ کے گلے لگ کے بے حد روئی "کیونکہ وہ برات میں آنے والوں خواتین اور اپنی ساس کی باتیں سن چکی تھی کہ ایک بیٹی اور اس کو بھی اتنا سامان دیا بس نہ کھانا ڈھنگ کا تھا"میرے بیٹے کو کون سا کمی تھی میں تو بس اکلوتی کی وجہ سے رشتہ کیا تھا "۔ ماہی اپنی دہلیز سے دوسرے گھر میں داخل ہوئی تو سوچتی رہی میرا مقدر کیا ہوگا، ۔ "امی یہ لڑکی دیکھی تھی میرے لئے جو نہ کار لائی نہ اے سی آپ تو کہہ رہی تھی اکلوتی ہے سب لے کر آئے گی"۔ ماہی نے اپنے شوہر کو دیکھا جس کے لئے اُس نے سب چھوڑا تھا اور اس کے سامنے اپنے باپ کا چہرہ آگیا روتی انکھیں "ہاں بیٹا مجھے کیا پتہ تھا یہ کنگال ہے تم اسے طلاق دے دو میں تمارے لئے اب امیر گھر سے بہو لاؤں گی، ہم تو اسے بیاہ لائے تھے سامان لائے گی لیکن یہ تو نہ ہونے کے برابر سامان ہے، گاڑی مانگی تھی اور موٹر سائیکل لے آئی ہے"۔ ماہی تقدیر کا کھیل سمجھنے سے قاصر اپنے باپ کہ دہلیز پر قدم رکھتے ہوئے احمد صاحب کا سوچ رہی تھی کہ احمد صاحب سامنے دروازے پر گرے سوچ رہے تھے انہوں نے تو ماہی کے لئے چھت بھی نہ چھوڑی۔ اور ماہی دلہن کے لباس میں اپنے باپ کی لاش پر رو رہی تھی۔ 4
Recommended Posts
Create an account or sign in to comment
You need to be a member in order to leave a comment
Create an account
Sign up for a new account in our community. It's easy!
Register a new accountSign in
Already have an account? Sign in here.
Sign In Now