Sheikhg4u Posted October 23, 2021 Share #1 Posted October 23, 2021 محترم ریڈرز آپ سب کے لیے ایک سٹو رہی لکھ رہا ہوں جو امید ہےآپ کو ضرور پسند آئے گی اس سٹوری میں آپ سب کی انٹرٹینمنٹ کے لیے سیکس ایکشن -ایموشن -حوس -محبت سب کچھ ملے گا معاشرتی مسائل میں گھرے لوگ وڈیروں کے ظلم زیادتی اور پھر ظلم کا حساب اس سٹوری کا خاصہ ہو گا آپ سب کو بتا تا چلوں کہ میں کوئی پروفیشنل رائٹر نہیں ہوں لیکن دل میں ایک شوق ہے رایٹنگ کا جو نامور رائٹرز کی سٹوری پڑھ پڑھ کر پیدا ہوا کہ میں بھی کوشش کرو ان جیسا تو نہیں لکھ سکتا پر کوشش ضرور کر سکتا ہوں بس مجھے آپ سب کی محبت اور حوصلہ افزائی کی ضرورت ہو گی اور مجھے اپ سب پہ پورا یقین ہے کہ ضرور اپنے پیار میری کوشش پر نچھاور کریں گے آپ کے وقت کا بہت بہت شکریہ اتوار کو سٹوری اپ لوڈ کر دونگا آپ کی محبتوں کا طالب شیخ جی فار یو Link to comment
Afaqzahid Posted October 23, 2021 Share #2 Posted October 23, 2021 27 minutes ago, Sheikhg4u said: محترم ریڈرز آپ سب کے لیے ایک سٹو رہی لکھ رہا ہوں جو امید ہےآپ کو ضرور پسند آئے گی اس سٹوری میں آپ سب کی انٹرٹینمنٹ کے لیے سیکس ایکشن -ایموشن -حوس -محبت سب کچھ ملے گا معاشرتی مسائل میں گھرے لوگ وڈیروں کے ظلم زیادتی اور پھر ظلم کا حساب اس سٹوری کا خاصہ ہو گا آپ سب کو بتا تا چلوں کہ میں کوئی پروفیشنل رائٹر نہیں ہوں لیکن دل میں ایک شوق ہے رایٹنگ کا جو نامور رائٹرز کی سٹوری پڑھ پڑھ کر پیدا ہوا کہ میں بھی کوشش کرو ان جیسا تو نہیں لکھ سکتا پر کوشش ضرور کر سکتا ہوں بس مجھے آپ سب کی محبت اور حوصلہ افزائی کی ضرورت ہو گی اور مجھے اپ سب پہ پورا یقین ہے کہ ضرور اپنے پیار میری کوشش پر نچھاور کریں گے آپ کے وقت کا بہت بہت شکریہ اتوار کو سٹوری اپ لوڈ کر دونگا آپ کی محبتوں کا طالب شیخ جی فار یو Good keep it up Link to comment
shawn Posted October 23, 2021 Share #4 Posted October 23, 2021 Waiting Sunday 👍👍👍👍👍😊😊 Link to comment
Billu Bhai Posted October 23, 2021 Share #5 Posted October 23, 2021 Good keep it up bro. We are waiting for your first super mega update. Wish you best of luck bhai ❣️❣️🥰🥰 Link to comment
Sheikhg4u Posted October 24, 2021 Author Share #6 Posted October 24, 2021 update 1 چھوٹو گینگ (ظلم کی ایک سچی داستان) جہازی سائز بیڈ پر20 سالہ خوبصورت لڑکی شلوار قمیض میں ملبوس تھی جس کے دونوں ہاتھ اوپر کی طرف رسی سے بندھے ہوئے تھےبکھرے بال خوفزدہ پر نم اور سہمی نگاہوں سے ارد گرد کا جائزہ لے رہی تھی کمرہ کشادہ اور نفاست سے سجا ہوا تھا جگہ جگہ دیواروں پر لگی خوبصورت پنٹنگز کمرہ کی خوبصورتی کو چار چاند لگا رہی تھیں اعلی فرنیچر کامعیار مکین کے دولت مند ہونے کی گواہی دے رہا تھااچانک ہی سائڈ سے کمرے کا دروازہ کھلا اور اور ایک لمبا ترنگا تقریباً 45 سال کا مضبوط جسامت والا اور بڑی بڑی مونچھوں والا دھوتی اور قمیض میں ملبوس شیطانی مسکراہٹ لیے لڑکی کی جانب گھورتا ہوا اس خوبصورت کمرہ میں داخل ہوا اس کی آنکھوں میں بلاکی حوس اور درندگی عیاں تھی - مونچھوں کو تاؤ دیتے کینہ طور نگاھوں سے لڑکی کی جانب بڑھا- معصوم لڑکی نے جب اس کو دیکھا تو دہشت زدہ ہو کر اور روہانسی سی صورت بنا کر گڑ گڑاناشروع کر دیا مجھے چھوڑ دو — کے لیے پلیز میرے ساتھ غلط مت کرو -میں تمہارے آگے ہاتھ جوڑتی ہوں میرے بابا پریشان ہو رہے ہوں گےزاروقطار روتے ہوئےآپنے ہاتھوں کو چھڑانے کی کوشش کر رہی تھی پر مضبوط رسی سے بندھا ھونے کی وجہ سے آزاد ہونےکوشش میں کامیاب نہ ہو پا رہی تھی زور لگانے اور اور آزاد ہونے کی کوشش میں اس کی نازک کلائیوں سے لال سرخ نشان اورکہی کہی سے خون رستا صاف دیکھائی دے رہا تھا پر اس شیطان صفت شخص پر کسی بھی آہو بقا کا کوئی اثر نہیں ہو رہا تھا - شیطانی مسکراہٹ لیےلوفرانہ نگاہ اس کے بھرے بھرے جسم پر ڈالی اور کہا نوٹ (سرائیکی بیلٹ کے وڈرے آپنی مادری زبان سرائیکی کو کافی اہمیت دیتے ہیں اور وہ ہمیشہ ہی آپنی مادری زبان میں بات کرنےمیں فخر محسوس کرتے ہیں اس لیے اس سٹوری کے کرکٹر “آبا سائیں “ بھی ہر کسی سے سرائیکی میں بات کرتا ہے قارئین کی سہولتاور بات کو سمجھنے کے لیے اردو میں ترجمہ موجود ہے اب آتے ہیں سٹوری کی طرف ) کہ تو وڈی سوہنڑی ہیں (تم بہت خوبصورت ہو )آج واقعی مزا آئ ویسی تیڈی پھدی وچ لن ڈے کے (تمہاری پھدی میں لن دے کریہ کہ کر اس نے اپنی انگلیوں سے چہرے سے بالوں کی ایک لٹھ کو سائڈ کیا اور زخمی کلائیوں کو دیکھتے ہوئےلوفرانہ انداز میں بولا میڈی جان کیوں ہناں نازک کلائیاں کو درد ڈیندی پئی ہئیں میں جیویں اکھاں اوے کر وڈا مزا آ سی آج تک ایہو جی مزا کہی نے نہڈتا ہوسی تو میکوان زندگی بھر نوی بھل سکدی میڈی گال من چا یہواوڑا تے تو ہے زبردستی یہوہیسے تاں درد بہوں تھی سی اگو تیڈیمرزی (جان من کیوں ان نازک کلایئیوں کو اذیت دےرہی ہوں میں جو کہتا ہوں ویسے کرو بہت مزا آئے گا آج سے پہلے کبھی بھی ایسامزہ کسی نے نہ دیا ہو گا اور نہ ہی دے سکتا ہے تم مجھے زندگی بھر نہ بھول پاؤ گی میری بات مان لو ابھی میں پیار سے سمجھا رہا ہوںچودنا تو تمہیں ہے زبردستی چدواو گی تو تکلیف تمہیں ہی ہو گی آگے تمہاری مرضی کہ کر ) اس نے قمیض کو پکڑکر پھاڑ دیا جس سے اس کے 34سائز کے براءمیں قید سفید ممے عیاں ہوگئے لڑکی زارو قطار روئے جا رہی تھی اور اپنی برہنگی چھپانے کی ناکام کوشش کر رہی تھی اور منت سماجت کر ہی تھی اور چیخ چیخ کر رحم کی بھیک مانگ رہی تھی پر اس شخص کو اس پر رحم نہیں آ رہا تھا اس نے شیطانی قہقہ لگایا اور ایک ہی جھٹکہ میں اس نے مموں کو براہ سے آزاد کر دیا پھر اپنی انگلیوں سے نپلز کو مسلنا شروع کیادیا لڑکی زارو قطار چیخ رہی تھی مجھے بچاو کوئی ہے مجھے بچاؤ ——-کے لیے اس سے بچاؤ کہتے ہوۓاپنے برہنہ مموں کو چھڑانے کی ناکام کوشش کر رہی تھی جب کہ وہ شخص اس کی چیخوں سے خوش ہو رہا تھا کہ اچانک زور زور سے دروازہ بجنے کی آواز آئی شام کا ٹائم تھا تھری پیس سوٹ میں ملبوس ایک خوبصورت نوجوان چشمہ لگائے تیز میوزک کی میں انگلشدھنوں کی آواز پر تیز رفتاری سے گاڑی ڈرائیو کر رہا تھا اچانک سے وہ چونکا اور زور دار بریک لگائی گاڑی لڑکھڑائی۔ پر اس نے بڑی مہارت سے گاڑی کو کنٹرول کیا اور گالیاں بکتا ہوا گاڑی کا دروازہ کھول کر باہر نکلا آگے ایک بوڑھا موٹا چشمہ لگائے لاٹھی کے سہارے سڑک کے بیچ و بیچ گاڑی سے چندانچ کی دوری پر ٹھہراہوا ٹکٹکی باندھے گاڑی کودیکھ رہا تھا اس کے چہرے پر دنیا بھر کا درد اور تکلیف عیاں تھی اگر بروقت بریک نہ لگتی تو بڑھے کی موت یقینی تھی اندھے ہو کیا مرنے کا ارادہ ہے تمہیں اتنی بڑی گاڑی نظر نہیں آ تی اگر لگ جاتی تو تمہاری ہڈی پسلی ٹوٹ جاتی نوجوان نے شدید غصہ سے اور تکبر سے چیخ کر کہا بیٹا کاش کہ میں مر جاتا آج کیوں بچایا ہے مار ہی ڈالتے ایسی ذلت اور رسوا زندگی سے تو مو ت ہی اچھی بوڑھے نے بے چار گیسےکہا اور زارو قطار رونا شروع کر دیا نوجوان نے بے زاری سے بوڑھے کی بے چارگی کی پرواہ کیے بغیر ایک جانب دھکیلا اور کہا کسی اور گاڑی کے نیچے مرو جاؤ بڑبڑاتےہوئے گاڑی میں سوار ہوا کہ اچانک موبائل کی گھنٹی بجی کال رسیو کرکے غوصیلے لہجے میں بولا کیا مسلۂ ہے دوسری طرف سے جواب سن کر چہرے کے تاثرات بدلے اور بولا اچھا تم وہیں رکو اور پوری تیاری کرو میں آ رہا ہوں کال کاٹ دی اورغصہ سے بوڑھے کی جانب دیکھا اور تیز رفتاری سے گاڑی اگے کی طرف بڑھا دی پولیس سٹیشن میں اس وقت بھونچال سا آیا ہوا لگ رہا تھا پوری فورس میں اس وقت ایک خوف اور ڈر نظر آ رہا تھا ایسا لگ رہاتھا کہ کسی خطرناک بندے کے خلاف پوری فورس سے کاروائی کا ارادہ ہے اچانک سے باہر سے کانسٹیبل کی آواز آئی صاحب آ گئے باہر سے وہی کار والا نوجوان نمودار ہوا باروعب انداز میں ایک سائڈ پر بنے کمرے کی جانب بڑھا یہ نوجوان جس کا نام انسپکٹر آصف تھا جو ڈیرہ غازی خان کے تھانے میں حال ہی میں ایس ایچ او تعینات ہوا تھا فطرط بدماغ اورمغرور سمجھا جاتا تھا آ کر کرسی پر شان بے نیازی سے بیٹھا باہر سے ایک پولیس کا جوان اندر داخل ہوا سلیوٹ کیا اور کمرہ میں موجود کرسی پر بیٹھ گیا ہاں بتاؤ کیا خبر ملی ہے انسپکٹر آصف نے پوچھا پولیس کے جوانوں نے کہا کہ سر خبر یہ ہے چھوٹو گینگ نے “آبا سائیں “کے گھر حملہ کرنے کا پروگرام بنارہا ہے کسی بھی وقتانہوں نے حملہ کرنا ہے اگر ہم نے ان کو زندہ پکڑنا ہے تو یہ موقع بہترین ہے انسپکٹر آصف نے کہا کہ تم لوگوں نے کیا پلان بنایا ہے اسے پکڑنے کا اور کیا “ابا سائیں “کو پتا ہے اس حملے کا ؟؟؟ پولیس کے جوان جس کا نام سب انسپیکٹر ارسلان تھا نے پر جوشیلےانداز میں کہا سر ہم پولیس کو تین لیرز میں تقسیم کریں گے تاکہ چھوٹو گینگ کسی بھی صورت بچ کر نکلنے میں کامیاب نہ ہو جایےاگر ہم سادہ کپڑوںمیں پوری حویلی میں پولیس کے جوانوں کو تعینات کر دیں گے اور کچھ حویلی کے باہر اور کچھ جوان مین روڈ پر تو ہم ان کو پکڑنے میںکامیاب ہو جائیں گے یہ لوگ کچھ دن وہاں رہیں گے آبا سائیں کے ملازموں کی جگہ سادہ لباس میں پولیس اہلکار موجود ہونگے جب حملہ ہو گا تو یہ لوگ چھوٹو گینگ مقابلہ کر کے کو پکڑنے میں کامیاب ہو جائے گے اور سر جہاں تک “ابا سائیں “ کو بتانے کی بات ہے آپ کو تو پتہ ہے کہ وہ کسی کی بات بھی نہیں مانیں گے تو سر اپ ان کو ساری بات بتا دیں اور کوٹھی کو خالی کرا کر پولیس اہلکار تعینات کروا دیں مجھے امید ہے “ابا سائیں “ اپ کی بات کو نہیں ٹائلیں گے انسپکٹر آصف نے ان کا پلان اور باقی باتیں سن کر سر ہلایا اور کہا کہ آپ لوگ تیاری کرو میں “ابا سائیں “ سے بات کرتا ہوں انکو منانے کی کوشش کرتا ہوں سب انسپیکٹر ارسلان سلیوٹ کر کے کمرہ سے باہر چلے گیا انسپیکٹر آصف نے موبائل اٹھایا “ابا سائیں “ سے بات کرنے کیلیے نمبر ڈائل کیا فون اٹینڈ نہ ہونے پر پھر ڈائل کیا تو وہاں سے کالرسیو کی اور بولا جی سئی کون بولیندے پیئے ہوئے (کون بول رہا ہے) ابا سائیں کہا ہیں ان سے بات کرواؤ۔ انسپکٹر آصف نے تہمکانا لہجے میں کہا دوسری جانب سے کہا گیا سائیں ابا سائیں مصروف ہین گال نہیں کر سکڈے۔ (ابا سائیں مصروف ہیں بات نہیں کر سکتے) تم میری بات کرواو کہو کہ انسپیکٹر آصف بات کرنا چاہتا ہے اباسائیں کی زندگی اور مو ت کا سوال ہے جلدی کرو انسپیکٹر آصفنے غصیلے لحجے میں کہا ——نہ کرے۔ کہیوں جی گالہیں کریندے پیہیوے ایوے تھانیدار صاحب نہ اکھو سائیں میں گال کروینداں ملازم نے گھبراکر کہا (کیسی باتیں کر رہیں ہیں ایسی بات مت کریں میں بات کرواتا ہوں ) دروازہ زور زور سے بجنے کی آواز سن کر لمبا ترنگا شخص جو دراصل “ابا سائیں” تھا غصہ سے چیخ کر بو لا کون ہے؟ باہر سے جواب آیا سائیں میں تہاڈا خادم ہاں (سائیں میں آپ کا خادم ہوں ) کیا مرنا تھی گئ زور زور دی دروازہ وجیندہ پائیں نامراد گڈو دماغ ہا “ابا سائیں” نے غوصیلے لحجے میں دروازہ کھولتے ہوئےکہا (کیا مسلا ہو گیا ہے جو دروازہ بجا رہا ہے تو گدھے کے دماغ والے نامراد ) سائیں اوھ تھانیدار دا فون آیا ہے آدھا پیا ہائی تھاڈی زندگی تے موت دا مثلا ہے گال کرواو جلدی ملازم نے ڈرتے ڈرتے کہا (سائیں وہ انسپیکٹر کا فون آیا ہے بول رھا تھا کہ آپ کی زندگی اور موت کا مثلا ہے بات کرواوں ) ابا سائیں نے چونکتے ہی دوسرے روم میں موجود فون کی جانب بڑھا اور فون اٹھا کر بات کی ہاں وے تھانیدار کی تھی گے کوئی نشہ تا نہیں کیتی ودہ کندھے وچ اتنی ہمت ہے جو میڈی زندگی او موت دی گال کرے میں ہندیماں بھیںڑ تے کتے نا چڑہا ڈیسا ڈس میکوں (ہاں انسپکٹر کیا ہو گیا ہے کوی نشہ تو نہیں کیا کس ہمت ہے جو میری زندگی اور موت کی بات کرے میں اس کی ماں اور بہن پرکتے نہ چڑھا دونگا ابا سائیں دراصل بات یہ ہے انسپکٹر آصف نے پوری حملہ کی تفصیل اور پکڑنے کا پلان بتا دی جسے سن کر آبا سائی نے کہا وے کنجرا تیکو کینی پتا کہ میں آپڑنی حفاظت خود کر سکدا آہ جو سانڈ پالے ہوئے ہین آہ جت مرواونڑ دے کم اسن میکوں تیڈی پولیستے بھروسا کینی میں ھوں گانڈو کو آپ منٹ گھنسہ تیکو فکر کرنڑ دی ضرورتکینی (آوے کنجر تمہیں نہیں پتا کہ میں اپنی حفاظت خود کر سکتا ہوں یہ جو میں نے سانڈھ نما بندے رکھے ہوے ہیں وہ کیا گانڈ مروانے کےکام آیے گے اس گانڈو کی سے میں خود نپٹ لونگاتو فکر نہ کر یہ کہ کر غصہ سے فون پٹکھ دیا) جنگل میں ایک کچے کمرےمیں ایک طرف آگ جل رہی تھی جس سے تاریک کمرہ روشن تھا کمرے میں تین مسلح افراد ایکزنجیروں میں جکڑہ ہوا اور گلے میں پٹہ بندھا ہوئےایک شخص کو بری طرح لاتوں اور گھوسوں کی مدد سے پیٹ رہے تھےنوجوان کیچیخوں کی آواز پورے کمی میں گونج رہی تھی ہماری مخبری کرتا ہے ابھی بتاتا ہوں تجھے ان تینوں میں سے ایک شخص نے کہا جو ان کا سردار لگ رہا تھا نے مارتے ہوے کہا بگو جاؤ چھرا لے آ جی سردار بگو باہر کے دروازے کی طرف گیا اور کچھ ہی دیر بعد ایک بڑا پھل والا چھرا لے آیا جسے دیکھ کر نوجوان خوف زدہ ہو کر چلانے لگا ——— کے لیے مجھے چھوڑ دو جیسا تم کہو گے میں ویسے کرنے کیلیے تیار ہوں مجھے معاف کر دو مجھ سے غلطی ہو گئی ————- کے لیے مجھے چھوڑ دو آئندہ میںایسی حرکت نہیں کرونگا میں ہمیشہ تمہارا وفادار بن کے رہو گا مجھے چھوڑ دو وہ شخص گڑگڑا کے دوھایاں دیتا رہا پر سردار کو اس پر تھوڑہ بھی رحم نہ آیا بلکہ اس نے کہا تو آیندہ کی بات کرتا ہے آیندہ تو اس قابل ہو گا تو کچھ کرے گا پکڑو اس کے ہاتھ دو مسلح افراد نے اس کے ہاتھ پکڑے سردار نے لمبے پھل والی تیز دھارچھری لے کر اس کے بائیں بازو پر چلانا شروع کر دیا جیسے وہ انسان کی بجائی کسی بھیڑ بکری کوکاٹ رہا ہو اور سفاکانہ لہجہ میں کہا کہ میں پہلے تیرے بازوں کو کاٹوں گا پھر تیری زبان پھر تیرے کان اور پھر تیری ٹانگیں وہ نوجوان درد کی شدت سے بے حال ہو کر چیختا چلاتا رہا یہاں تک کہ اس کا داہنا بازو بھی کاٹ کر جسم سے الگ کر دیا درد کی شدت سے وہ شخص بے حوش ہو گیا خون کے فواروں سے سردار کا حاتھ خون سے سرخ ہو گیا اور خون کے چھینٹوں سے اس کا چہرہ انتہائی حیبت ناک لگ رہا تھا چھوٹے قد کا مضبوط جسامت والا اور سفاک ہیبت ناک شکل والایہ سردار کوئی اور نہیں چھوٹو گینگ کا سردار چھوٹو تھا جو اپنےچھوٹے قد کی وجہ سے چھوٹو بلایا جاتا تھا انتہائی حد درجہ سفاق اور فطرط کمینہ شخص تھا ارد گر کے گاؤں کے لوگ اس سے بہت خوف زدہ رہتے کیوں کہ یہ درندہ صفتانسان تھا انسانوں کو اذیت دے کر قتل کرنا اس کا محبوب مشغلہ تھا اس کے ساتھی ڈاکو تک اس کی درندگی کی وجہ سے اس سےخوف زدہ رہتے تھے اس کی دہشت کوسوں دور تک پھیلی ہوئی تھی دونوں ہاتھوں کو جسم سے الگ کر کے اس نے اپنی زبان نکالی اور الگ ہوئے ہاتھ سے خون نکل رہا تھا چوسنے لگا اور قہقہ لگا کر کہتا ہے اس نا مراد کے خون کا زایقہ تو کمال ہے چلو باقی کل اس کی زبان کاٹیں گے اج کیلیے اتنا کافی ہے سفاکانہ لہجے میں کہا یہ کہہ کر سردار اس کمرہ سے باہر نکلا اور اور چلا کر بولا بگو۔ جو کمرہ میں موجود تھا باہر آیا اور کہا کہ جی سردار وہ آج چھمیاں نے انا تھا وہ کہا ہے میرا لن اس کی پھدی میں جانے کیلئے بے تاب ہے اپنے لن کو شلوار کے اندر سے ہی مسلتےہوئے کہا سردار وہ یہاں آ گئی ہے آپ مصروف تھے تو نہیں بتایا آپ ہی کا انتظار کر رہی ہے بگو نے خوشامدانا لہجے میں کہا سردار چھوٹو نے خوش ہوتے ہوئے کہا چلو پھر آج کی رات چھمیاں کا رس پیتا ہوں ارے ہاں رکو خبر ملی تھی پولیس ہمیں پکڑنے کی تیاری کر رہی ہے اس کے بارے میں مکمل معلومات اکٹھی کرو ایسا کاری وار کریںگے کہ آیندہ ہمارے بارے میں سوچ کر بھی ان کو خوف آئے گا یہ کہہ کر ایک سائڈ پر بنے کچے مکان کی جانب چل پڑا انسپیکٹر آصف کیلے جس لہجہ میں “آبا سائیں” نے بات کی اور کال کاٹی شدید ناقابل قبول تھا جس کی وجہ غصہ سے اس کا چہرہ لالسرخ ہو گیا تھا اپنے ہی آفس میں ٹہلتے ہوئے اس نے بیل بجائی اور سب انسپیکٹر ارسلان کو بلانے کیے سپاہی کو بھیجا تھوڑی ہی دیر میں سبانسپیکٹر ارسلان آفس میں داخل ہوا اور انسپیکٹر آصف کو یوں غصہ میں دیکھ کر سمجھ گیا کہ کیا وجہ ہے آتے ہی سلیوٹ کیا اور کہا سر آپ غصہ نہ کریں “آبا سائیں “ کی طبیعت ہی ایسی ہے اور ایسا ہی مزاج ہے کہ وہ کبھی کسی کی باتنہیں سنتے اور اپنی ہی من مانی کرتے ہیں آخر وہ ایک باآثر سیاسی شخصیت ہیں جس کہ وجہ سے ہم ان کے اگے مجبور ہو جاتے ہیںآپ دھیریج سے کام لیں سب انسپیکٹر ارسلان نے باہر ٹھہرے سپاہی کو آواز دی اور کہا صاحب کے لیے ٹھنڈا پانی لے آؤ انسپیکٹر آصف جو ارسلان کے آتے ہی کرسی پر بیٹھ گیا تھا اور غور سے بات سن رہا تھا ارسلان سے مخاطب ہوا دیکھو ارسلان میں یہاں نیا ضرور آیا ہوں پر جیسا لہجہ “ابا سئیں “ کا تھا وہ میرے لیے نا قابل برداشت ہے آخر ہم ان کی جان ہیتو بچانا چاہتے تھے اس میں ان کی ہی بھلائی تھی اگر چھوٹو گینگ نے حملہ کیا اور کوئی جانی نقصان ہوا تو یہ لوگ تو اس کا موردالزامپولیس کو ہی ٹھہرائیں گے اسی دوران سپاہی پانی کا گلاس لے کر آ گیا تو انسپیکٹر آصف خاموش ہو گیا سپاہی نے گلاس رکھا اور چلا گیا جاتے ہی ارسلان نے کہا سر آپ فکر نہ کریں آپ ڈی پی او صاحب سے رابطہ کر کے انہیں خبر کریں اگر وہ ضروری سمجھیں گے تو ابا سائیں سے خود رابطہ کرلیں گے اور آپ بھی بعد میں بری الزمہ ہو جائیں گے سب انسپیکٹر ارسلان ایک زہین اور تجربہ کار جوان تھا اس تھانے میں آئے ہوئےاسے تین سال ہو گیے تھے اس لیے وہ یہاںکے ہر بااثر بندے کے بارے میں جانتا تھا اس لیے انسپیکٹر آصف نے آتے ہی اس کو اپنے ساتھ ملا لیا انسپیکٹر آصف نے بات سن کر تحسین آمیز تاثر کے ساتھ کہا ویری گڈ ارسلان تم نے تو پورہ مسلۂ ہی حل کر دیا میں تو بھول ہی گیا تھا کہ ڈی پی او صاحب کے “ابا سائیں “ سے گہرے مراسمہیں وہ یقینا بات کریں گے آگے ہمیں جو وہ ہدایت دیں گی ہم اسی اندا ز میں پولیس ریڈ کریں گے اور اس سفاق گینگ کو پکڑنے کیکوشش کریں گے اپنی ٹیبل سے موبائل اٹھا کرنمبر ملانا شروع کیا فون پٹخ کر آبا سائیں نے اونچی اوز میں کہا “بلا” کتھا مر گیا ہیں تو (بلا کہا مر گیا ہے ) بھاگتا ہوا ایک بھوری آنکھوں والا چھوٹے قد کا پہلوان ُنما شخص کمرے میں داخل ہوا اور بولا حکم کرو ابا سائیں آج میکوں اطلاع میلی ہے کہ اوہ کتے دا پتر چھوٹو اپنڑے ٹٹواں نال اتھا حملہ کرنڑ دا پروگرام بڑی ندا پے ونج تو تیاری کر سارےکنجرا کو اکٹھا کر کے اکھ کہ میں کو حندی لاش چاہی دی ہے (آج مجھے اطلاع ملی ہے (گالی دی ) چھوٹو اپنے ساتھیوں کے ساتھ حملہ کرنے کا پلان بنا رہا ہے سارے لوگوں کو اکٹھا کرو مجھے اسکی لاش چاہیے ) بلا نے کہا آبا سائیں ہندی اتنی جرات میں ہندی لاش کو کتیاں کو کہویساں توسا سائیں پریشان نہ تھیوو میں سب کوں اکھیںنداسارے کاٹھے تھی تے ہندو بندو بست کریندا (آبا سائیں اس کی اتنی جرات میں اس کی لاش کو کتوں کے کھیلاوں گا اپ پریشان نہ ہوں میں سب کو اکٹھا کر کے اس کابندوبست کرتا ہوں ) میکوں کوئی پریشانی کینی تو ہوکو ماہ ماری میں اپنڑے حتھاں نال ہوکو قپیساں (مجھے پریشانی نہیں ہے میں خود اس کو اپنے ہاتھوں سے مارونگا ) یہ کہ کر “ابا سائیں دوبارہ کمرے کی طرف چلا گیا دروازہ کھول کر بندھی ہوی لڑکی سے مخاطب ہوا میڈا چندر ہن میکوں غصہ نہ ڈیواوی میں آ گیا چپ چاپ میکوں اپنی پدھی ڈے چا بندھی ہوی لڑکی کی جانب بڑھا جو پھر (میری چاند مجھے غصہ نہ دلانا اب میں آگیا ہوں چپ چاپ مجھے اپنی پھودی دے دو) یہ کہ کر اس نے پھر سے بوبز کی نپل کو مسلنا شروع کیا لڑکی گڑگڑانے لگی مجھے چھوڑ دو ——— بندھی ہوی ہونے اور تکلیف کی شدت سے جو کلائیوں زخمی تھی اس کی آواز میں درد تھاالتجا تھی پر ابا سائیں کسی بھی صورت اس کو چھوڑنے کے موڈ میں نہیں تھا ابا سائیں نے دھوتی اتاری جس سے اسکا لمبا اور موٹا نیم مردہ لن ہاتھوں میں جب لڑکی کو نظر آیا تو اس نے خوف زدہ ہو کر زورزور سے چلانا شروع کر دیا بچاو بچاو بچاو کوئی ہے دہایاں دے رہی تھی جب کہ ابا سائی کے دماغ پر اس وقت شیطان سوار تھا کسی بھی قسم کی دہائی کا کوئی اثر اس پر نہیں پڑتا دیکھائی دے رہا تھا پھر اسنے ہاتھوں سے شلوار کو کھینچا لاسٹک کی وجہ سے آسانی سے اترتی چلی گی جس سے لڑکی کی سفید پھدی عیاں ہوگئی لڑکی سٹپٹائی اور اپنے اپ کو بچانے کی کوشش میں تیزی لانے لگی اس وقت لڑکی کا بے داغ جسم بوبز اور پھدی ابا سائی کو دعوت گناہ کی شدت میں اضافہ کیے جا رہی تھی آہستہ آہستہ اس کے نیم مردہ لن میں جان دکھائی دینے لگی ابا سائیں نے پھر اس کے بے داغ جسم کے ہر حصہ کو کاٹنا شروع کیا جس سے لڑکی کی چیخوں میں مسلسل اضافہ ہوتا گیا اور کمرہ جونہایت کشادہ ہونے کی وجہ سے گونج رہا تھا اچانک ہی زور دار چیخ کے ساتھ لڑکی نیم بے ہوشی میں چلی گئی ابا سائی نے بوبز پر زور دار کاٹا جس سے وہاں سے خون رسنا شروع ہو گیا اس پر ہی اکتفا نہ کیا اپنے لن کو ھاتھوں میں لے کر ٹانگوں کو اٹھایا اور لن کو پدھی کے لبوں پر رکھ کر ایک زور دار جھٹکا لگایا لیکن تنگ اور خشک پھودی اور موٹا اور لمبا لن ہونے کی وجہ سے صرف ٹوپی ہی اندر جا سکی لڑکی کی نیم بے ہوشی کی حالت میںدرد کی شدت سے ایک بار پھر حیبت ناک چیخ بلند ہوئی اور بیڈ کی شیٹ خون سے تر ہو گئی بے پرواہ ابا سائیں نے پھر ایک جھٹکا لگایا آدھا لن ہی اندر جا سکا پھر آہستہ آہستہ اندر باہر کرنا شروع کر دیا ابا سائیں مزے سےآوازیں نکال رہا تھا اچانک ہی ایک اور جھٹکے سے پورہ لن اندر تھا پھدی بھی اب چکنی ہو گئی تھی جس کی وجہ سے لن قدرےاسانی سے اندر باہر ہو رہا تھا اب کوئی بھی آواز لڑکی کی جانب سے نہیں آئی مگر ابا سائیں کو اس سے غرض نہیں تھی وہ اپنے لن کواندر باہر کر کے کنواری پدھی کی چدائی کے مزے لے رہا تھا اور ابا سائیں کی مزے سے بھرپور آوازیں پورے کمرے میں گونج رہیتھی کچھ ہی دیر بعد “آبا سائی “نے زور زور سے جھٹکے مارنے شروع کیے اس کی سانس پھولی اور آخری طاقتور جھٹکے کے ساتھ ہی اندرہی فارغ ہوگیا لڑکی کے جسم کو کاٹنے سے جگہ جگہ خون رس رہا تھا اور پورے جسم پر کاٹنے کے نشان واضح نظر آ رہے تھے جس سے لگ رہا تھاکہ ابا سائیں ازیت پسند سیکس کو پسند کرتا ہے ابا سائیں نے ہقارت کی نظر سے لڑکی کو دیکھا اور نیم مردہ لن کو لڑکی کے ہی کپڑوں سے صاف کیا اور لڑکی کو اسی حالت میں چھوڑکر کمرے سے باہر چلا گیا Link to comment
Dilbarjani Posted October 24, 2021 Share #8 Posted October 24, 2021 Start to acha hy story ka Link to comment
Sheikhg4u Posted October 24, 2021 Author Share #10 Posted October 24, 2021 5 hours ago, Mehar_ch said: اچھا سٹارٹ ہے.... آپ کی محبت کا شکریہ Link to comment
Recommended Posts