Administrators Administrator Posted July 9, 2016 Administrators #1 Posted July 9, 2016 گجرات کے گاؤں بانٹوا کا نوجوان عبدالستار گھریلو خالات خراب ہونے پر کراچی جا کر کپڑے کا کاروبار شروع کرتا ہے کپڑا خریدنے مارکیٹ گیا وہاں کس شخض نے کس شخض کو چاقو مار دیا زخمی زمین پر گر کر تڑپنے لگا لوگ زخمی شخض کے گرد گھیرا ڈال کر تماشہ دیکھتے رہے وہ شخض تڑپ تڑپ کر مر گیا نوجوان عبدالستار کے دل پر داغ پڑ گیا سوچا معاشرے میں تین قسم کے لوگ ہیں دوسروں کو مارنے والے مرنے والوں کا تماشہ دیکھنے والے اور زخمیوں کی مدد کرنے والے نوجوان عبدالستار نے فیصلہ کیا وہ مدد کرنے والوں میں شامل ہو گا اور پھر کپڑے کا کاروبار چهوڑا ایک ایمبولینس خریدی اس پر اپنا نام لکها نیچے ٹیلی فون نمبر لکھا اور کراچی شہر میں زخمیوں اور بیماروں کی مدد شروع کر دی وہ اپنے ادارے کے ڈرائیور بهی تهے آفس بوائے بهی ٹیلی فون آپریٹر بهی سویپر بهی اور مالک بهی وہ ٹیلی فون سرہانے رکھ کر سوتے فون کی گھنٹی بجتی یہ ایڈریس لکهتے اور ایمبولینس لے کر چل پڑتے زخمیوں اور مریضوں کو ہسپتال پہنچاتے سلام کرتے اور واپس آ جاتے عبدالستار نے سینٹر کے سامنے لوہے کا گلا رکھ دیا لوگ گزرتے وقت اپنی فالتو ریزگاری اس میں ڈال دیتے تھے یہ سینکڑوں سکے اور چند نوٹ اس ادارے کا کل اثاثہ تهے یہ فجر کی نماز پڑھنے مسجد گئے وہاں مسجد کی دہلیز پر کوئی نوزائیدہ بچہ چهوڑ گیا مولوی صاحب نے بچے کو ناجائز قرار دے کر قتل کرنے کا اعلان کیا لوگ بچے کو مارنے کے لیے لے جا رہے تھے یہ پتهر اٹها کر ان کے سامنے کهڑے ہو گئے ان سے بچہ لیا بچے کی پرورش کی اج وہ بچہ بنک میں بڑا افسر ہے یہ نعشیں اٹهانے بهی جاتے تھے پتا چلا گندے نالے میں نعش پڑی ہے یہ وہاں پہنچے دیکھا لواحقین بهی نالے میں اتر کر نعش نکالنے کے لیے تیار نہیں عبدالستار ایدھی نالے میں اتر گئے نعش نکالی گهر لائے غسل دیا کفن پہنایا جنازہ پڑهایا اور اپنے ہاتھوں سے قبر کهود کر نعش دفن کر دی بازاروں میں نکلے تو بے بس بوڑھے دیکهے پاگلوں کو کاغذ چنتے دیکھا آوارہ بچوں کو فٹ پاتهوں پر کتوں کے ساتھ سوتے دیکها تو اولڈ پیپل ہوم بنا دیا پاگل خانے بنا لیے چلڈرن ہوم بنا دیا دستر خوان بنا دیئے عورتوں کو مشکل میں دیکھا تو میٹرنٹی ہوم بنا دیا لوگ ان کے جنون کو دیکھتے رہے ان کی مدد کرتے رہے یہ آگے بڑھتے رہے یہاں تک کہ ایدهی فاؤنڈیشن ملک میں ویلفیئر کا سب سے بڑا ادارہ بن گیا یہ ادارہ 2000 میں گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں بھی آ گیا ایدھی صاحب نے دنیا کی سب سے بڑی پرائیویٹ ایمبولینس سروس بنا دی عبدالستار ایدھی ملک میں بلا خوف پهرتے تهے یہ وہاں بهی جاتے جہاں پولیس مقابلہ ہوتا تھا یا فسادات ہو رہے ہوتے تھے پولیس ڈاکو اور متحارب گروپ انہیں دیکھ کر فائرنگ بند کر دیا کرتے تھے ملک کا بچہ بچہ قائداعظم اور علامہ اقبال کے بعد عبدالستار ایدھی کو جانتا ہے ایدھی صاحب نے 2003 تک گندے نالوں سے 8 ہزار نعشیں نکالی 16 ہزار نوزائیدہ بچے پالے انہوں نے ہزاروں بچیوں کی شادیاں کرائی یہ اس وقت تک ویلفیئر کے درجنوں ادارے چلا رہے تھے لوگ ان کے ہاتھ چومتے تهے عورتیں زیورات اتار کر ان کی جهولی میں ڈال دیتی تهیی نوجوان اپنی موٹر سائیکلیں سڑکوں پر انہیں دے کر خود وین میں بیٹھ جاتے تهے تو جناب یہ تهے عبدالستار ایدھی صاحب جو آج جہاں فانی سے کوچ کر گئے ہیں اور پوری قوم کو سوگوار چھوڑ گئے 2
DR KHAN Posted July 9, 2016 #2 Posted July 9, 2016 اگر یہ کہا جائے کہ پاکستان کا سب سے مثالی کردار کونسا ہے تو وہ عبدالستار ایدھی تھے۔ ان جیسا مثالی انسان اور عاجز شخصیت پاکستانی تاریخ میں کوئی نہیں گزری۔ اللہ ان کو جنت کے بلند درجات میں فائز کرے۔ 2
Young Heart Posted July 10, 2016 #3 Posted July 10, 2016 ایدھی صاحب ایک عظیم انسان تھے ان کی خدمات تو کبھی بھلائی نہ جائیں گی انتہائی سادہ طبیعت اور شخصیت کے مالک تھے، عجز و انکساری کا پیکر اور ہر قسم کی نمود و نمائش سے پاک نامسائد حالات میں بھی کبھی سیاسی بیانات نہیں دیے حالانکہ کراچی میں ہی ان سے قربانی کی کھالیں چھیننے اور ایمبولنس سے مردے چھین کر دوسرے ایمبولینس میں ٹرانسفر کرنے کے واقعات بھی ہوئے - اسی وجہ غیر متنازع شخصیت تھے انسانیت کی خدمت بلا تفریق قوم، مذہب، فرقہ اور طبقہ کے کی جب کبھی ایدھی صاحب کا خیال آتا ہے تو ذہن میں ان کی شخصیت کے یہی پہلو آتے ہیں - انسانیت، خدمت خلق، ہمدردی، سادگی، عجزوانکساری، اچھائی، لاوارث بچوں، عورتوں، بزرگوں اور ذہنی مریضوں کے مسیحا آہ !!! کہ آج ایدھی صاحب ہم میں نہیں ہیں 1
Recommended Posts
Create an account or sign in to comment
You need to be a member in order to leave a comment
Create an account
Sign up for a new account in our community. It's easy!
Register a new accountSign in
Already have an account? Sign in here.
Sign In Now