Javaidbond Posted June 7, 2019 #1 Posted June 7, 2019 مجرِم یا۔۔۔ ایک ایسے نوجوان کی کہانی، جسے اپنا انتقام ہر صورت لینا تھا۔۔۔ ایک غریب لڑکی کی کہانی، جس کی عزت ایک ہی دن میں کئی مرتبہ روندی گئی۔۔۔ ایک ایسی عورت کی کہانی، جسے اپنے شوہر کا انتظار تھا۔۔۔ ایک دوست کی کہانی، انتقام میں جھلس رہے یار کو سہارا دے کر اس کی مدد کرتا ہے۔۔۔ ایک سفاک، جذبات سے عاری، ایک قیدی کی کہانی، جس کا مقصد صرف موت کا انتظار کرنا تھا۔۔۔ ایک محبِ وطن جاسوس کی کہانی، جس نے اپنی زندگی وطنِ عزیز کیلئے قربان کر دی۔۔۔ ایک لیڈر کی کہانی، جس نے انتھک محنت کے بعد اپنے ملک کے راز کسی کے دماغ میں دفن نہ ہونے دیے۔۔۔ ایک ننھی پری کی کہانی، جس کی خاطر ایک باوفا بیوی بےوفا نہ بنی۔۔۔ تحریر : جاوید بانڈ 2
Javaidbond Posted June 7, 2019 Author #2 Posted June 7, 2019 لگ جا گلے کہ پھر یہ حسین رات ہو نا ہو۔ آہہہ۔۔۔اوہ۔۔۔یس۔۔۔یس۔۔۔فک می۔ ٹھاہ۔۔۔ٹھاہ۔۔۔ڈزن۔ڈزن۔۔کلاشن کوف کی ترتڑاہٹ۔ قیدی نمبر 121۔ اچانک ہی میری آنکھ کھل گئی۔ ************************* (1) رات بڑی سرد تھی۔۔۔یخ بستہ اور ہڈیوں میں اترتی ہوئی۔ دور کہیں مشرق سے بلند ہونے والا پندرھویں کا چاند دھیرے دھیرے تاریک آسمان پر بلند ہو رہا تھا۔۔۔جیسے کوئی گول ،سنہری، گیس بھرا غبارہ کسی بچے کے ہاتھ سے چھوٹ کر اوپر ہی اوپر اٹھتا جا رہا ہو۔ اٹک جیل کے کہنہ سال دروبام چاندنی میں نہاتے چلے جا رہے تھے۔۔۔جگہ جگہ آہنی سلاخیں چمک رہی تھیں۔۔۔اور بیرکوں کے گدلے فرش پر روشن لکیریں سی رینگ رہی تھیں۔۔۔وہی چاندنی جو باغوں میں، کھلیانوں میں، میدانوں میں اور پہاڑوں پر حسن حسن بن کر برس رہی تھی۔اس جیل میں اتری تو پوری جان سے سسک اٹھی تھی۔ میں نے اپنی بیڑیاں سنبھالیں اود فرشی بستر سے اٹھتے ہوئے جیل کا پھٹا پرانا۔ جوؤں اور کھٹملوں سے بھرا ہوا خاکستری کمبل اچھی طرح شانوں پر لپیٹ کر دیوار سے ٹیک لگائی اور بے خیالی میں سلاخوں سے باہر دیکھنے لگا۔ ابھی رات کا آغاز ہوا ہی تھا۔۔۔لیکن یوں لگتا تھا، سورج غروب ہوئے مدتیں گزر گئی ہوں۔۔اور مدتوں سے میں اسی طرح کوٹھری میں بیٹھا سلاخوں سے باہر جھانک رہا ہوں۔اور چاندنی میں یادوں کی بساط بچھا کر کسی نئی چال سے چاندنی کو ہرانے کی کوشش کر رہا ہوں۔ جیل میں مشقت کے بعد سرِشام چار بجے ہی قیدیوں کو بیرکوں میں بند کر دیا جاتا تھا۔۔۔اس لیے رات قیدیوں کیلئے کچھ زیادہ ہی طویل ہو جایا کرتی تھی۔ اور ہجر کی راتیں تو ویسے ہی لامتناہی ہوتی ہیں۔ایسی ،،ہجر کی راتوں،،میں جب ساون، چاندنی یا بہار کی پیوندکاری ہو جاتی ہے تو ان کا درد بھی بیکراں ہو جاتا ہے۔انسان کے اندر آپوں آپ ہی غم کا کوئی سوتا پھوٹ نکلتا ہے اور وہ جذبات کے اظہار کے لیے بے چین ہو جاتا ہے۔ چلیں!!!میں آپ کو اپنی داستان سناتا ہوں۔ دوستو!!!میرا نام کمال پاشا ہے۔ عدالت نے مجھے اٹھائیس افراد کے قتل کے جرم میں بیس سال قیدِ با مشقت اور پھر سزائے موت سنائی ہے۔ اور میں پچھلے چند سال سے جیل میں اپنی سزا پوری کرتے ہوئے موت کا انتظار کر رہا ہوں۔ میں اس جیل میں کیسے پہنچا اور ایسے کیا واقعات پیش آئے جن کی وجہ سے مجھے یہ سزا ہوئی۔ یہ سب جاننے کیلئے آپ کو میرے ماضی کے دریچوں میں جھانکنا ہو گا۔ ************************* (2) اس وقت میری عمر چالیس سال ہے۔۔۔میرا بچپن لاہور کے قریب ایک قصبہ نما گاؤں ہنجروال چک اکتیس میں گزرا ہے۔۔۔اگر لاہور میں کوٹ رادھا کشن سے رائے ونڈ روڈ پر پتوکی کی طرف جائیں تو چھانگا مانگا سے پہلے میرا گاؤں آتا ہے۔ میرا گھرانہ کل ملا کر چار افراد پر مشتمل تھا۔۔۔میں کمال،میری بہن روبینہ،جس کو پیار سب سب لوگ بینا،بینا کہہ کر بلاتے تھے۔ میری والدہ جو کہ خالص گھریلو خاتون تھیں۔۔۔اور میرے ابا جان جن کا نام جلال پاشا تھا۔۔۔والد صاحب زمین داری کرتے تھے۔۔۔میں سولہ سال کا تھا جب میٹرک کر لیا۔ میٹرک تک تعلیم میں نے اپنے قصبہ میں ہی حاصل کی۔۔۔اس کے بعد میں اپنی زرعی اراضی جو کہ چند ایکڑ پر مشتمل تھی اس زمین پر پل پڑا۔ دن رات وہ محنت کی کہ بہت جلد ہی ہمارے کھیت لہلہانے لگے۔۔۔گھر میں پیسے کی ریل پیل ہوتی گئی۔ صرف دو سالوں میں ہی خوشحالی نے ہمارے گھر کا راستہ دیکھ لیا۔۔۔کھیتوں پر کام کرنے کیلئے چند ملازم رکھ لیے۔ جس کی وجہ سے اب میرے پاس کافی وقت بچ جاتا تھا۔ بچپن سے ہی مجھے نشانہ بازی کا شوق تھا اور یہی شوق مجھے شکار کے راستے پر لے گیا۔ اب فارغ وقت ملتے ہی میں اپنی بندوقڑیاں اٹھا کر دوستوں کے ساتھ نکل جاتا اور اپنے گاؤں یا آس پاس کے دوسرے دیہاتوں میں یا پھر چھانگا مانگا جنگل میں مرغابیاں گراتے رہتے۔ کیونکہ میں بچپن سے نشانہ بازی کے جنون میں مبتلا تھا تو نویں کلاس میں ہی والد صاحب نے مجھے شکار کیلئے رائفل لے دی تھی۔ ویسے بھی اس وقت ہمارے گاؤں اور آس پاس کے دیہاتوں میں سور لاتعداد پائے جاتے تھے۔۔۔ یہ سور آئے دن کسی نا کسی کی فصل اجاڑ کر رکھ دیتے تھے اس لیے انہیں مار بگھانے کیلئے اکثر خوشحال گھرانوں میں اسحلہ پایا جاتا تھا۔ میرے ابا جان کے پاس بھی ڈبل بیرل بندوق تھی۔۔۔وہ بھی اکثر میرے کام آتی تھی۔۔۔ہزار نصیحتوں کے بعد ابا جان نے مجھے میرے شوق کی خاطر ایک رائفل بھی خرید دی۔ میرا نشانہ بہت اچھا ہو چکا تھا۔۔۔مشکل سے مشکل نشانہ میں باآسانی لگا لیا کرتا تھا۔ دوسرا شوق مجھے باڈی بلڈنگ کا تھا۔۔۔اس زمانے میں جمنازیم وغیرہ تو ہوتے نہیں تھے۔۔۔اس لیے اس کام میں استعمال ہونے والی چند چیزیں میں نے لا کر اپنے پاس رکھی ہوئی تھیں۔۔۔اور بلاناغہ باڈی بلڈنگ کیا کرتا تھا۔ شام کے وقت گاؤں کے باہر سے گزرتی نہر میں تیراکی کرنا تو میرا محبوب ترین مشغلہ تھا۔ لہٰذا زندگی بڑی پیاری گزر رہی تھی۔۔۔شام کو گھر جانے کے بعد بہن کے ساتھ دنیا جہان کی باتیں کرنا اور قصے کہانیاں سنانا بھی روزانہ کا معمول تھا۔ میری بہن تھی ہی بڑی معصوم۔ بھرے بھرے جسم کی مالک۔ گاؤں کی صحیح الہڑ دوشیزاؤں کی طرح اس پر بھی حسن ٹوٹ کر برسا تھا۔ بینا مجھ سے چار سال چھوٹی تھی۔۔۔آٹھویں جماعت پڑھنے کے بعد اس نے تعلیم کو خیر باد کہہ دیا اور امی جان کے ساتھ گھر کے کاموں میں ہاتھ بٹانے لگی۔ رات کا کھانا کھانے کے بعد امی اور بینا اپنے کمرے میں سو جاتے۔۔۔جبکہ ابا جان شروع سے ہی بیٹھک میں سوتے تھے۔اور میرا کمرہ گھر کے پچھواڑے میں تھا۔ ************************* (3) کہتے ہیں!!!جب جوانی آتی ہے تو اپنے ساتھ نئی امنگوں کی کہانیاں بھی لاتی ہے۔۔۔اکثر یاروں کے ساتھ مل کر وی سی آر پر سیکس فلمیں دیکھا کرتا تھا۔ پھر رات کو اپنے کمرے میں لیٹنے کے بعد مٹھ مار کر اپنے آپ کو سکون دیا کرتا تھا۔میرا لن چھ انچ لمبائی اور دو انچ چوڑائی کے ساتھ کسی بھی پھدی کے بخیے ادھیڑنے کیلئے کافی تھا۔ پر پھدی ملے تو تب نا۔ میرا تو وہ حساب ہو گیا تھا۔ نہ دل لگدا۔ نہ دا(داؤ) لگدا۔ میں ہر وقت کسی نا کسی لڑکی کو تاڑنے کی سوچتا رہتا پر کبھی عملاً ہمت نہیں پڑی۔۔۔پھر ایک دن میں باہر سے گھر آیا تو گھر میں ایک لڑکی کو دیکھا۔ وہ ننگے سر بینا کے پاس بیٹھی اس سے باتیں کر رہی تھی اور اس کا دوپٹہ اس کے پاس ہی چارپائی پر پڑا تھا۔ اس کا بھربھرایا جسم دیکھ کر میرے دل و دماغ میں بجلیاں سی کودنے لگیں۔۔۔اسے دیکھتے ہی میں اس کی زلفوں کا اسیر ہو گیا۔ ان کے پاس سے گزرتے وقت بینا نے مجھے سلام کیا تو مڑ کر جواب دینے کے بہانے میں نے اس لڑکی کو دیکھا تو یاد آیا کہ یہ تو چاچے فقیرے کی بیٹی چھیمو ہے۔ چاچے فقیرے کا گھر ہمارے پچھواڑے تھا۔۔۔آہاں!!!وہ میرے ابو کا بھائی وائی نہیں تھا۔۔۔بس ایسے ہی گاؤں کے سب لوگ اسے چاچا فقیرا کہتے تھے۔ چند سال پہلے کھیتوں میں کام کرتے ہوئے سانپ کے ڈسنے سے چاچا کی موت ہو گئی تھی۔۔۔چاچا نے ترکے میں دو عدد بیٹیاں چھوڑی تھیں۔ ایک نجمہ اور ایک چھیمو۔ نجمہ بڑی تھی اور اس کی شادی ہو چکی تھی۔۔۔چھیمو جوان تھی لیکن ابھی تک اس کی شادی تو کیا کہیں منگ بھی نہیں پڑی تھی۔۔۔چھیمو پر مجھے ذیادہ محنت نہیں کرنی پڑی۔۔۔چند دنوں کے آنکھ مٹکے کے بعد وہ خود ہی میری آغوش تک پہنچ گئی۔ بلکل ایسے کہ جیسے وہ خود پہلے سے سوچ کر بیٹھی ہو کہ فدوی لائن مارے اور وہ سواگت کرے۔ چھیمو کے گھر میں صرف چھیمو،اس کی ماں،اور چاچا فقیرے کا بوڑھا باپ یعنی چھیمو کا دادا رہتے تھے۔۔۔چھیمو کی ماں بے چاری سارا دن کام کرنے کے بعد رات کو تھک کر چارپائی پر گِر جاتی تو اسے کوئی ہوش نہ رہتا۔ اس وقت چھیمو چپ چاپ دیوار پھلانگ کر ہمارے صحن سے ہوتے ہوئے میرے کمرے میں آ جاتی۔ اب سوال یہ کہ وہ کیوں میرے کمرے میں آتی تھی؟میں کیوں نہیں جاتا تھا؟تو دوستو ان کا گھر بہت چھوٹا سا تھا۔۔۔تو وہاں کوئی مناسب جگہ نہیں تھی۔ اس لیے چھیمو کو ہی دیوار پھلانگنی پڑتی تھی۔ پہلے پہل تو جپھیاں اور چوما چاٹی تک بات رہی لیکن کب تک دو سلگتے جسم ایک دوسرے سے دور رہ سکتے تھے۔۔۔آخرکار چھیمو کی شلوار بھی اتر ہی گئی۔ اور میں اس کی پھدی سے اپنے لن کو سیراب کرنے میں کامیاب ہو گیا۔۔۔مجھے اچھی طرح یاد ہے وہ بدھ کی رات تھی۔۔۔چھیمو معمول کے مطابق دیوار پھلانگ کر میرے کمرے میں آئی اور آتے ہی مجھ سے لپٹ گئی۔ ہم دونوں نے اپنے منہ ایک دوسرے کے ساتھ جوڑ دیے اور ایک دوسرے کی زبانوں کو چوسنے لگے۔ ************************* زبانیں چوستے چوستے کب کپڑے اتارے اور کس نے کس کے کپڑے اتارے کچھ پتہ ہی نہیں چلا۔ کچھ ایسے ہیجانی انداز میں یہ سب ہوا کہ میں چکرا کر رہ گیا۔۔۔مجھے ہوش تب آئی جب چھیمو میرے اوپر اکڑوں بیٹھے میرا لن اپنی پھدی کے اندر لیے اچھل رہی تھی۔ میں چھیمو کی گوری ٹانگوں کو تھام کر اسے تکنے لگا۔۔۔جو کہ میری چھاتی پر اپنے دونوں ہاتھ ٹکائے پوری رفتار سے اچھل رہی تھی۔ اس کے منہ سے تیز تیز سسکیاں برآمد ہو رہی تھیں۔آہ۔آہہہ۔اوہ۔افففف۔ لن اس کی گانڈ کی ہر اچھال پر ایسی زوردار ضرب کھاتا کہ میرے جسم کے تمام بال کھڑے ہو جاتے۔چھیمو کے بھاری بھاری ممے ہلتے اور آپس میں ہی ٹکرا کر اتھل پتھل ہو کر رہ جاتے۔ مموں کا اچھلنا تو ہیجان انگیز تھا ہی مگر اصل ہیجان چھیمو کے چہرے کے تاثرات تھے۔ جیسے ہی وہ اپنی گانڈ اچھال کر نیچے جھٹکا مارتی۔۔۔میرا لن پوری رفتار سے اندر جاتا اور لن کے اندر گھسنے سے پھدی میں جو رگڑ پیدا ہوتی,,اس رگڑ سے چھیمو چہرے کے تاثرات ایسے شو کرتی کہ جیسے میرا لن اس کی پھدی پھاڑ کر نکل جائے گا۔ میں بہت ذیادہ دیر اس کے سامنے ٹک نہیں پایا,,اس میں ذیادہ ہاتھ چھیمو کا ہی تھا۔۔۔وہ ایسے ہیجانی کیفیت میں خود کو چدوا رہی تھی کہ تھوڑی ہی دیر میں میرے مساموں سے جیسے دھواں نکلنے لگا۔ مجھے اس کی پھدی کے اندر اپنا لن پھولتا ہوا محسوس ہوا۔۔۔پھر اچانک میرے لن سے منی کی دھاریں خارج ہونے لگیں۔۔۔میرے چھوٹنے کے ساتھ ہی چھیمو نے ہلنا بند کر دیا اور خود کو کس کے میرے ساتھ چمٹ کر کانپنے لگی۔ (4) چند منٹ بعد چھیمو ایک سائیڈ پر میرے ساتھ ہی چارپائی پر لیٹ گئی۔۔۔تھوڑی سی خاموشی کے بعد بولی۔۔۔کمال تمہارا لن بھی کمال ہے۔ بہت عرصے بعد ایسا تگڑا لن ہاتھ آیا ہے۔ میں اس کی بات سن کر حیرانی سے بولا کہ اس کا مطلب ہے کہ تم پہلے بھی مرواتی رہی ہو۔۔۔تو وہ دانت نکوستے ہوئے بولی۔۔۔ مرواتی رہی ہو کا کیا مطلب میں اکثر لن لیتی ہوں۔۔۔آج بھی شام کو ایک بڈھا لن میرے اندر گیا۔ لیکن میری گرمی نہیں نکال پایا۔۔۔اسے لیے تو میں آج اتنی گرم تھی۔۔۔میں نے جھٹ سے پوچھا کہ پہلے کس کس سے مروائی ہے اور آج والا بڈھا لن کس کا تھا۔ اچانک اسے جیسے کرنٹ سا لگا اور وہ خاموشی سے اٹھ کر کپڑے پہننے لگی۔ کپڑے پہن کر اس نے ڈوپٹہ اٹھایا تو میں نے پھر استفسار کیا کہ چھیمو تم نے میری بات کا جواب نہیں دیا۔ وہ میری طرف دیکھ کر شوخی سے بولی،تم چپ چاپ آم کھاؤ نا۔۔۔پیڑ کیوں گنتے ہو۔ اچھا اب میں نکلتی ہوں امی کو بخار ہے کہیں اٹھ ہی نہ جائے۔۔۔یہ کہہ کر اس نے میرے ہونٹوں کو چوما اور دروازے سے باہر نکل گئی۔ میں چند منٹ پڑا سوچتا رہا پھر کندھے اچکا کر کپڑے پہننے لگا کہ لن پر چڑھے مجھے اس سے کیا کہ چھیمو کہاں کہاں سے چدی ہے۔ مجھے صرف پھدی سے غرض ہونی چاہیے۔پہلے ہی سالوں بعد پھدی ملی ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ غیر ضروری سوالات کے سبب یہ پھدی بھی ہاتھ سے جاتی رہے۔۔۔کپڑے پہننے کے بعد میں سو گیا۔ اگلی رات پھر وہ آئی۔ پھر وہ روزانہ ہی آنے لگی۔ ہم دونوں بلاناغہ سیکس کرنے لگے۔ چند دن بعد ایک رات وہ ملنے آئی تو اس کے ممے چوسنے کے بعد جیسے ہی میں نے اس کی شلوار اتارنے کی کوشش کی۔چھیمو نے میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے روکتے ہوئے کہا۔ نہیں کمال آج نہیں میرے دن چل رہے ہیں۔ مجھے اس کی بات سمجھ نہیں آئی تو میرے پوچھنے پر اس نے مجھے تفصیل سے سمجھایا کہ کیسے ہر لڑکی کو مہینہ وار چند دن کیلئے خون آتا ہے۔ اور ان دنوں میں اگر سیکس کیا جائے تو بہت سی تشویشناک بیماریاں لاحق ہو جاتی ہیں۔ تو میں نے اپنا لن باہر نکال کر اس کے سامنے لہراتے ہوئے کہا کہ چھیمو اب اس کا کیا کروں۔۔۔یہ تو مجھے سونے نہیں دے گا تو چھیمو بولی،میں آج تجھے دوسرے طریقے سے فارغ کرتی ہوں بس دیکھتا جا۔ یہ کہہ کر اس نے مجھے چارپائی پر لٹا دیا اور خود میرے لن کے سامنے زمین پر اکڑوں بیٹھ گئی۔۔میں سمجھا کہ وہ میری مٹھ مارنے لگی ہے۔ پر اس نے جھک کر میرے لن کے ٹوپے کو اپنے منہ میں بھر لیا اور تیزی سے چوسنے لگی۔ میں ایک دم اٹھ کر بیٹھ گیا۔۔۔فلموں میں تو یہ سب دیکھا تھا اور سوچتا تھا کہ گورے ہی یہ کام کرتے ہیں پر چھیمو ایسا کرے گی میں نے سوچا بھی نہیں تھا۔ چھیمو کے منہ میں جتنا لن آ سکا وہ اتنے ہی لن کو منہ میں لئیے چوپے لگاتی رہی۔ پہلی دفعہ میرے لن کو کسی منہ کا ذائقہ چکھنے کا موقع ملا تھا اس لیے صرف پانچ منٹ کے جاندار چوپوں کے بعد ہی میں کانپنے لگا۔ میں نے چھیمو کو اشارہ کیا تو اس نے اپنے ہونٹ اور مضبوطی سے بند کیے اور تیزی سے لن چوستی گئی۔چوستی گئی۔ چوستی گئی۔ یہاں تک کہ میں اچانک اس کے منہ میں ہی چھوٹ گیا۔۔۔ چھیمو میرا سارا منی اپنے حلق سے نیچے اتار گئی۔۔۔میں نے انتہائی حیرانگی سے پوچھا چھیمو یہ کام بھی کرتی ہو تو وہ بولی جانِ من سب چلتا ہے۔ میں نے پھر پوچھا کہ یہ سب کہاں سے سیکھا ہے تو وہ بولی اسی سے سیکھا ہے جس نے مجھے،،اتنا کہہ کر وہ پھر خاموش ہو گئی۔۔۔مجھے اس دن کی بات یاد آ گئی۔ میں نے اٹھ کر اسے گلے سے لگاتے ہوئے پوچھا کہ چھیمو یار بتا نا کہ یہ سب کہاں سے سیکھا پہلی بار کس نے تیری پھدی ماری کہاں ماری کیسے ماری۔ پھر کس کس نے ماری سب تفصیل سے بتاؤ۔ چھیمو نے بے چارگی سے میری طرف دیکھا اور دھیمے لہجے میں بولی۔۔۔کمال تم یہ جان کر کیا کرو گے۔ رہنے دو وہ بہت بڑے لوگ ہیں۔ کہیں بات منہ سے پرائی ہو گئی تو لینے کے دینے پڑ جائیں گے۔۔۔پھر میرے بے تحاشہ اصرار پر وہ بولی کہ اچھا اب تو دیر ہو رہی ہے۔۔۔میں کل آؤں گی تو تمہیں سب بتاؤں گی۔میں نے اس سے وعدہ لیا تو وہ وعدہ کر کے چلی گئی۔ ************************* (5) اگلے دن صبح اٹھ کر میں زمینوں پر چلا گیا۔۔۔اب میری زمین دن رات محنت کے بعد چند ایکڑ بڑھ چکی تھی۔ پیسہ ہن کی طرح برس رہا تھا۔ ابا جان نے پاس ہی ایک احاطہ دیکھ کر خرید لیا تھا اور چند بھینسیں خرید کر پال لی تھیں۔ ملازم ہی آ کر بھینسوں کی رکھوالی کرتے اور ان کا دودھ دوہتے تھے۔۔۔پھر یہ دودھ لاہور شہر میں بھیج دیا جاتا تھا۔دودھ کا کاروبار بھی چل نکلا تھا۔۔۔زمینوں پر چکر مارنے کے بعد میں احاطے میں گیا۔ ملازم بھینسوں کیلئے چارہ تیار کر رہے تھے۔۔۔ابا جان دودھ نکلوا کر سپلائی کروانے جا چکے تھے۔۔۔میں احاطے میں ہی بیٹھ گیا۔۔۔ابھی بیٹھا ہی تھا کہ میرا بچپن کا دوست نادر احاطے میں داخل ہوا۔ مجھے دیکھ کر خوشی سے میری طرف بڑھا۔۔۔میں بھی اٹھ کر اس سے گلے ملا اور اسے اپنے پاس بیٹھنے کیلئے چارپائی پر جگہ دی۔ نادر ہمارے گاؤں کے وڈے زمیندار چوہدری مظفر سیال کے ساتھ ہوتا تھا۔۔۔کام وام تو کچھ خاص نہیں تھا بس اس کے کارندوں میں شامل تھا۔ سیالوں کے سب لوگ جدی پشتی زمیندار تھے۔اس گاؤں اور آس پاس کے چند گاؤں میں ان کی سینکڑوں ایکڑ زمین اور لاہور شہر میں بھی ٹرانسپورٹ کا کاروبار تھا۔ سیاسی لوگوں کے ساتھ بھی ان لوگوں کا اٹھنا بیٹھنا تھا۔۔تو ایسے بندوں کو ہمیشہ چند کارندوں کی ضرورت پڑتی ہے تا کہ رعب داب بنا رہے اور اگر کہیں پھڈا ہو جائے تو چیلوں چپاٹوں کی نفری لڑائی میں کام آوے۔ نادر ہنستے ہوئے بولا۔سناؤ جی چوہدری کمال پاشا صاحب کی حال چال نیں جناب دے۔ میں بھی اسی کی ٹون میں بولا:حال تے چال دونوں ای ٹھیک نیں نادرے۔۔۔توں سنا اج ادھر کداں چند نکل آیا۔ تو نادر میرے کندھے پر ہاتھ مار کر بولا:کجھ نئیں یار وڈے چوہدری صاحب لاہور گئے تے میں سوچیا چل بھائی نوں ای مل آئیے۔ میں گھر جا ریا سی تے تینوں اندر آندے ویکھ کے سدھا اندر ای آ گیا۔۔۔یہ کہہ کر نادرے نے پہلو بدلا اور اپنی ڈب سے ریوالور نکال کر مجھے دکھاتے ہوئے بولا۔ چھڈ گلاں نوں آ ویکھ یار نواں مال منگوا کے دتا چوہدری صاحب نیں۔ اٹھتیس بور دا ریوالور اے۔ میں نے ریوالور پکڑ کر چیک کیا۔۔۔خالص اسٹیل باڈی کا بنا ہوا تھا۔۔۔نہایت خوبصورت تھا۔۔۔میگزین میں گولیاں بھری ہوئی تھیں۔ میں نے اٹھ کر احاطے میں موجود کیکر کے درخت پر نظریں دوڑائیں تو مجھے اپنے مطلب کی ایک جگہ نظر آ گئی۔۔۔نادرے نے میری نظروں کا تعاقب کیا تو ہنستے ہوئے چارپائی سے اٹھ کر کیکر کے پاس جا پہنچا اور تھوڑا اونچائی کی طرف ایک ٹہنی پر کوئلے سے مارک بنا دیا۔ اونچائی پر اس لیے بنایا کہ کہیں نیچے چلائی ہوئی گولی کسی کو نقصان نا پہنچا دے۔۔۔ میں نے ریوالور والا ہاتھ سیدھا کیا۔ نشانہ باندھا۔ سانس باہر چھوڑتے ہوئے ٹرائیگر دبا دیا۔ ڈززز۔ کی آواز کی کے ساتھ گولی سیدھا مارک کے بیچوں بیچ جا لگی۔۔۔میں نے مسکراتے ہوئے ریوالور نادرے کی طرف اچھال دیا جسے اس نے ہوا میں ہی کیچ کر لیا۔ اچھا ہے نادرے بہت اچھا ہے۔ پھر ہم دونوں چارپائی پر جا بیٹھے۔۔۔اتنی دیر میں ملازم دو گلاس اور لسی کا جگ بھر کر لے آیا۔ کچھ دیر باتیں کرنے اور لسی پینے کے بعد نادرے نے ریوالور اپنی ڈب میں لگایا اور اٹھ کھڑا ہوا۔۔۔چنگا ویرے ہن مینوں اجازت دے۔ تھوڑا گھر وی چکر لا لواں۔۔۔بھابھی میری راہ ویکھدی ہونی۔۔۔مجھ سے گلے مل کر نادر باہر نکل گیا۔۔۔اور میں بھی وہاں سے نکل کر اپنے گھر کی جانب چل پڑا۔۔۔ ************************* (6) نادر ایک گھبرو جوان تھا۔۔قد کاٹھ میرے برابر تھا۔۔۔بس جسامت میں مجھ سے تھوڑا بھاری تھا۔۔۔جبکہ میرا جسم قدرے چھریرا تھا۔ نادر کے ماں باپ برسوں پہلے فوت ہو چکے تھے۔۔۔اس کے باپ کو ایک رات اچانک دل کا دورہ پڑا تھا اور کسی قسم کی طبی امداد میسر آنے سے پہلے ہی وہ اجل کے حوالے ہو گیا۔۔۔نادر کی ماں اپنے شوہر کی موت کا صدمہ سہہ نا سکی اور دن بدن کمزور ہوتی گئی۔ پھر ایک رات گھر کے تینوں نفوس نادر۔۔۔اس کا بڑا بھائی جمیل اور اس کی ماں سونے کیلئے لیٹے۔۔۔سوئے تو تین تھے لیکن اگلی صبح جاگے صرف دو ہی۔۔۔نادر کی ماں بھی زندگی کے ہر دکھ سے نجات پا گئی۔۔۔ جمیل اس وقت محنت مزدوری کرتا تھا۔۔۔ماں کو دفن کرنے کے بعد جمیل نے اپنے بھائی نادر کی کفالت کا پورا حق ادا کیا۔۔۔جمیل کا نام اس کی شکل و صورت سے پوری طرح میچ کرتا تھا۔۔۔وہ واقعی مردانہ وجاہت کا نمونہ تھا۔۔۔انتہائی حسین و جمیل نین نقش کا مالک تھا۔ جمیل ہماری زمینوں پر ابا جان کا ہاتھ بٹاتا تھا۔۔۔پھر ایک وقت آیا جب ابا جان نے گاؤں کے بزرگوں کی مشاورت سے ساتھ والے گاؤں کے ایک محنت کش کی خوبصورت بیٹی سے جمیل کی شادی کر دی۔۔۔شادی کے بعد جمیل نے دگنی محنت کرنی شروع کر دی۔ اس وقت تک میں یعنی کہ کمال پاشا بھی میٹرک کر چکا تھا۔۔۔اور آپ اپنی زمینوں پر پل پڑا تھا۔۔۔جیسے جیسے پیسہ آتا گیا زمینیں بڑھتی گئیں اور اس منافع میں ہم اپنے ملازموں کو بھی مختلف حیلوں بہانوں کے ساتھ ان کی مدد کر کے حصہ دیتے رہے۔ جمیل کی آمدن بھی بڑھ چکی تھی۔۔۔اس وقت تک نادر بس گلیوں کوچوں میں آوارہ گردی ہی کرتا تھا۔۔۔چونکہ جمیل کا لاڈلہ بھائی تھا تو اس نے کبھی بھی نادر کو کسی کام کیلئے نہیں کہا تھا۔ شادی کے ڈیڑھ سال بعد ہی جمیل پر سعودیہ جانے کا خبط سوار ہوا۔۔۔اس نے تھوڑے تھوڑے بچا کر پیسے جمع کر کے رکھے ہوئے تھے۔ چنانچہ اس نے وہ سارا پیسہ لگا کر سعودیہ کا ویزہ لگوایا اور محنت مزدوری کر کے سہانے مستقبل کے خواب آنکھوں میں سجائے سعودیہ چلا گیا۔ پہلے ہی مہینے اس نے اچھے خاصے پیسے گھر بھیجے۔۔۔سب لوگ خوش تھے۔۔۔ لیکن زندگی نے جمیل کے ساتھ وفا نہ کی اور چند ہفتے بعد ہی کام کے دوران ایک حادثے میں وہ جاں بحق ہو گیا۔ نادر کو یہ اطلاع بہم میں نے ہی پہنچائی تھی۔۔۔کیونکہ اس وقت گاؤں میں ایک سیالوں کی حویلی اور دوسرا فقط ہمارا گھر تھا جہاں ٹیلی فون لگا ہوا تھا۔ سعودی سے جمیل نے ایک دو بار ہمارے گھر ہی کال کی تھی اور ہم نے کسی ملازم کو بھیج کر اس کی بیوی کو بلوا کر اس سے بات چیت کروائی تھی۔ ایک دن میں گھر میں ہی تھا کہ فون کی گھنٹی بجی۔۔۔میں نے کال ریسیو کی تو سعودی سے جمیل کی کمپنی کا کوئی آدمی تھا۔ اس نے بتایا کہ جمیل کی حادثے میں موت ہو گئی ہے۔۔۔چونکہ سعودیہ کا قانون ہے کہ اگر کوئی بندہ مقروض ہو اور مر جائے تو اس کو وہیں سعودیہ میں ہی دفنا دیا جاتا ہے۔ (7) چنانچہ جمیل کو بھی یہیں دفنا دیا گیا ہے۔۔۔میں نے کسی کو بتائے بغیر یہ اطلاع نادر کو دی تو نادر گھنٹوں میرے گلے لگ کر رویا۔ پھر اس نے ہاتھ جوڑ کر میری منت کی کہ جمیل کے مرنے کی بات ابھی میں کسی کو نہ بتاؤں۔۔۔موقع محل دیکھ کر وہ خود ہی اپنی بھابھی کو بتا دے گا۔ نادر اپنی بھابھی شمسہ سے بہت پیار کرتا تھا۔۔۔وہ بھی دیور کو بھائیوں کی طرح ہی چاہتی تھی۔ میں نے نادر کو چپ کروانے کے بعد کہا۔۔۔لیکن نادرے یار جدوں جمیل دا فون نئیں آوے گا تے سارے پریشان ہون گے اودوں کی کریں گا۔ نادر نے اپنا سر جھکا لیا۔۔۔چند منٹ سوچنے کے بعد اس نے سر اٹھایا اور بولا ویرے تو اک کم کر۔۔۔سدھا میرے گھر جا تے شمسہ نوں اطلاع دے چھڈ کہ اوتھے حادثہ ہو گیا تے جمیل بہت بری طرح زخمی ہویا اے۔ ہن اودا علاج چل ریا اے۔۔۔ڈاکٹراں دے مطابق پورے اک سال تک اودا علاج ہووے گا۔۔۔نالے اودا جبڑا وی ٹٹ چکیا اے۔۔۔اس لئی او فون تے گل نئیں کر سکدا۔ ہاں مہینے دو مہینے بعد میں جمیل الوں کوئی خط پتر لکھ کے شمسہ نوں دے چھڈیا کراں گا۔۔۔فیر آہستہ آہستہ موقع محل ویکھ کے اونوں دس دیواں گا۔ تیری مہربانی صرف ہا اک احسان کریں ساڈے تے کہ کسے نوں خبر نا ہووے اصل گل کی اے۔۔۔میں نے کہا:یار نادرے اے بہت مشکل کم اے۔ توں خود شمسہ نوں ہا ساری گل دس۔ باقی میں پردہ پائی رکھاں گا۔ نادر کے جانے کے بعد میں نے سوچا کہ جب شمسہ کو پتہ چلے گا تو وہ روتی ہوئی سیدھا امی کے پاس ہی آئے گی۔پھر کچھ سوچ کر میں نے ابو کو اعتماد میں لینے کا فیصلہ کیا۔۔۔اور جا کر ساری بات من و عن ابو کو بتا دی۔ ابو کو بھی جمیل کی موت کا سن کر بہت دکھ ہوا۔۔۔پھر ابو نے بھی کہا کہ ہاں پتر یہی کرنا چاہیے کہ پہلے شمسہ کو ذہنی طور پر تیار کرنا چاہیے۔ دو گھنٹے بعد ہی شمسہ روتی ہوئی نادر کے ساتھ ہمارے گھر پہنچ گئی۔۔۔ابو نے اسے حوصلہ دیا کہ پتر فکر نا کر سب ٹھیک ہو جائے گا۔ کچھ دنوں بعد ہی نادر نے وڈے چوہدری کے پاس ملازمت کر لی۔۔۔کیونکہ گھر کا نظام تو چلانا تھا۔۔۔اسی طرح وقت گزر رہا تھا۔۔۔مہینے دو مہینے بعد نادر مجھ سے جمیل کی طرف سے ایک خط لکھوا کر جس میں اپنی خیر خیریت اور علاج چل رہا ہے کا بتا کے اور ایک دو رومانی مکالمے لکھوا کر خط شمسہ کو دے دیتا تھا اور وہ بھلی مانس دن رات جمیل کی تصویروں کو دیکھتے ہوئے آس لگائے بیٹھی تھی کہ کب اس کا شوہر ٹھیک ہو کر واپس آئے گا۔ یہ تھی نادر کی ساری کہانی۔ ************************* (8) میں یہ ساری باتیں سوچتا ہوا گھر پہنچ گیا۔۔۔گھر جا کر دوپہر کا کھانا کھایا۔ باقی وقت اسی طرح بینا اور امی کے ساتھ دنیا جہان کی باتیں کرتے ہوئے گزار دیا۔ سرِشام ہی ابو گھر آ گئے۔ رات کا کھانا کھانے کے بعد سب اپنے اپنے کمروں میں سو گئے۔۔۔اور میں اپنے کمرے میں لیٹ کر چھیمو کا انتظار کرنے لگا۔ کل جب سے اس نے چوپا لگایا تھا۔۔۔اس کے منہ کے لمس کو یاد کرتے ہی میرا لن فٹافٹ کھڑا ہو جاتا تھا۔۔۔ابھی بھی میں اپنے بستر پر لیٹ کر شلوار اتارے لن کو پکڑ کر سہلا رہا تھا۔۔۔کچھ دیر بعد ہی کمرے کا دروازہ کھلا اور چھیمو اندر داخل ہوئی۔ چھیمو کے کمرے میں آتے ہی میں نے آگے بڑھ کر دروازہ بند کیا۔۔۔کنڈی لگا کر مڑتے ہی چھیمو کے ہونٹوں پر پل پڑا۔۔۔کبھی وہ میری زبان چوستی تو کبھی میں اس کی زبان چوستا۔ ساتھ ساتھ چھیمو نے میرے لن کو پکڑ کر اپنے نرم نرم ہاتھوں سے سہلانا شروع کر دیا۔ میں پہلے ہی کافی گرم تھا اوپر سے چھیمو کی اس حرکت نے مجھے اور گرم کر دیا۔۔۔میں نے کھڑے کھڑے چھیمو کی قمیض اتار کر پھینک دی اور ساتھ ہی اپنی قمیض بھی اتار دی۔۔۔چھیمو کو اپنے ساتھ کھینچتا ہوا چارپائی پر لے گیا۔۔۔میں نے نیچے لیٹ کر اسے اپنے اوپر کھینچ لیا اور اس کے ہونٹوں کو چوسنے لگا۔ اس کے ننگے پیٹ نے میرے لن کو دبایا ہوا تھا۔۔۔ہم دونوں ایک دوسرے کو شدت کے ساتھ کسنگ اور ایک دوسرے کی زبانیں چوس رہے تھے۔ چھیمو نے مجھے زور سے پکڑا ہوا تھا اور میرے اوپر چِپکی ہوئی تھی۔۔۔ہم دونوں کافی دیر تک ایک دوسرے کے منہ میں منہ ڈال کر ایسے ہی چوستے رہے۔ پھر چھیمو میرے اوپر سے ہٹ کر ایک سائیڈ پر لیٹ گئی اور میں اس کے مموں پر پل پڑا۔۔۔اس کے بھاری بھاری ممے میری نگاہوں کے سامنے تھے۔ میں نے اس کے نپلز کو کاٹنا اور چوسنا شروع کر دیا۔۔۔اب میرا لن پوری طرح سے اکڑ چکا تھا۔ میں سیدھا ہو کر لیٹتے ہوئے بولا۔۔۔چھیمو میری جان اس کا کچھ کر یہ بہت تنگ کر رہا ہے۔ تو چھیمو بولی ابھی لو میری جان۔۔۔اتنا کہہ کر وہ اٹھی اور گھوڑی سٹائل میں ہو کر اپنا منہ میرے لن کے پاس لے آئی اور اسے ہاتھ سے پکڑ کر میرے لن کے ٹوپے پر ایک کِس کی۔ پھر ٹوپی سے لیکر لن کے آخری حصے تک چومتی گئی۔۔۔کچھ لمحے ایسے ہی چومنے کے بعد اس نے اپنی زبان باہر نکالی اور میرے لن کے ٹوپے پر پھیری۔۔۔ساتھ ہی اس نے ایک ایسی حرکت کی کہ مجھے مزہ ہی آ گیا۔ اس نے اپنی زبان کی نوک سے میرے لن کے سوراخ کو گداگدانا شروع کر دیا۔۔۔چند لمحے بعد اس نے لن کے ٹوپے کو پوری زبان کے ساتھ چاٹنا شروع کر دیا۔۔۔ساتھ ساتھ وہ لن کی ٹوپی کو ہونٹوں میں پکڑ کر سوراخ کو اپنی زبان سے گدگداتی رہی۔ میں تو مانو مزے کی لہروں پہ سوار تھا۔ میں نے ہاتھ بڑھا کر اس کے چوتڑوں کو دبوچ کر اپنی طرف کھینچا تو وہ تھوڑا تِرچھی ہو گئی۔۔۔اب اس پوزیشن میں اس کی گانڈ میرے پہلو میں آ گئی۔ میں نے شلوار کے اوپر سے ہی اپنی ایک انگلی کی پور اس کی گانڈ کے سوراخ پر رکھ کر دباتے ہوئے پوچھا۔ چھیمو کیا کبھی گانڈ بھی مروائی ہے تو وہ بولی ہاں کمال یہ راستہ بھی کھلا ہے۔ پر جب تک میرے دن ختم نہیں ہوتے میں گانڈ بھی نہیں مروا سکتی۔۔۔کیونکہ پھدی میں تو پہلے ہی جلن ہو رہی ہے اور گانڈ مرواتے ہوئے بھی درد ہوتی ہے۔۔۔اور میں دونوں جگہ پر ایک ساتھ درد برداشت نہیں کر سکتی۔ یہ کہہ کر اس نے آہستہ آہستہ میرے پورے لن کو اپنے منہ میں لینا شروع کر دیا۔۔۔میرا لن موٹا اور لمبا بھی تھا تو چھیمو کیلئے پورا لن منہ میں لینا ممکن نہیں تھا۔ اس لیے جتنا ہو سکا وہ منہ میں لیکر چوپا لگانے لگی۔ اس کا منہ اتنا گرم اور چھوٹا سا تھا کہ میرا لن پھنس پھنس کر اندر جا رہا تھا۔۔۔چھیمو مسلسل میرے لن کے چوپے لگا رہی تھی۔۔۔پھر اس کی سپیڈ بڑھتی گئی۔ مجھے اپنے جسم کے سارے مسام پھولتے ہوئے محسوس ہو رہے تھے۔۔۔اس نے مزید دو منٹ تک میرے لن کے شاندار چوپے لگائے۔ مجھے لگا کہ بس اب میرا پانی نکلنے ہی والا ہے تو میں نے اپنے دونوں ہاتھ بڑھا کر اس کے بال پکڑے اور اپنی گانڈ چارپائی سے تھوڑا اوپر اٹھا کر اپنا جسم کا وزن اپنے پیروں پر ڈالتے ہوئے پوری رفتار سے اس کے منہ کو ہی چودنا شروع کر دیا۔ اس کے منہ سے اوغ،،اوغ،، کی آوازیں نکلنے لگیں لیکن میں ہر چیز سے بے نیاز جھٹکے مارتا گیا۔۔۔میرے ہر جھٹکے پر میرا لن اس کے حلق سے جا ٹکراتا۔ آخری جھٹکا میں نے جان سے مار کر اس کے سر کو اپنے لن پر دبا دیا تو میرے لن کا ٹوپہ اس کے حلق میں جا پھنسا اور وہیں میرے لن نے ہار مان لی۔ منی دھاروں کی شکل میں اس کے حلق میں بہتا جارہا تھا۔۔۔فارغ ہونے کے بعد جیسے ہی میں نے اس کے سر سے اپنا ہاتھ اٹھایا۔ اس نے ایک جھٹکے سے اپنا منہ اوپر اٹھایا اور کھانسی ہوئی اپنا منہ تکیے میں دبا لیا۔۔۔مباداً آواز باہر نہ چلی جائے۔۔۔دو منٹ بعد وہ معمول پر آ چکی تھی۔ (9) میں نے اسے کھینچ کر اپنے ساتھ لٹاتے ہوئے پوچھا۔۔۔چھیمو میرا یوں کرنا تمہیں برا تو نہیں لگا۔۔۔تو وہ میرے سینے میں اپنا سر دھنساتے ہوئے بولی۔ کمال تمہارا کچھ بھی مجھے برا نہیں لگتا اور ویسے بھی میں تو اس سب کی عادی ہو چکی ہوں۔۔۔میرے ساتھ یہ کونسا پہلی بار ہوا ہے۔ میں اس کے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے بولا۔۔۔چھیمو تم نے وعدہ کیا تھا کہ سب بتاؤ گی کہ۔تو وہ میری بات کاٹتے ہوئے تیزی سے بولی،،ہاں بابا ہاں،،مجھے یاد ہے۔ لیکن کمال میں پھر کہتی ہوں کہ باز آ جاؤ یہ سب جاننا تمہارے لیے ٹھیک نہیں ہو گا۔۔۔میں بھی ضدی لہجے میں بولا ارے کچھ نہیں ہو گا۔ تو وہ کچھ دیر خاموش رہی پھر اس نے اپنا منہ اوپر اٹھایا اور جیسے خلا میں تکتی ہوئی بولی:یہ آج سے اڑھائی سال پہلے ان دنوں کی بات ہے کہ جب وڈے چوہدری سیال کی سب سے پہلی بیوی کے سب سے بڑے بیٹے نور سیال کی شادی کے دن رکھے گئے تھے۔ میں نے اسے روکا پہلے یہ بتاؤ کہ کیا تم یہ سیالوں کی فیملی کو جانتی ہو تو وہ انتہائی نفرت انگیز لہجے میں بولی۔۔۔میں ان کنجروں کے پورے خاندان کو جانتی ہوں۔۔۔یہی سیال تو میری بربادی کی وجہ بنے ہیں۔ چوہدری مظفر سیال وڈا زمیندار ہے۔ یہی شیطان ابنِ شیطان ہے۔ اس کا ایک چھوٹا بھائی بھی ہے شیطان کا جانشین چوہدری ظفر سیال۔۔۔دونوں بھائی ایک نمبر کے عیاش اور سفاک انسان ہیں۔۔۔اور یہی سارے گن آگے ان کی اولادوں میں بھی ہیں۔ وڈے چوہدری نے تین شادیاں کی ہیں۔۔۔اس کی پہلی دو عورتیں مر چکی ہیں۔۔۔ایک سانپ کے کاٹے سے مری اور دوسری کار ایکسیڈنٹ میں ماری گئی۔ تو میں بتا رہی تھی کہ نور سیال کی شادی کے دن رکھے گئے تو حویلی کی طرف سے آس پاس کے چند گھروں کو کہلوایا گیا کہ شادی کے کاموں میں ہاتھ بٹانے کیلئے اپنی لڑکیوں کو بھیج دو۔۔۔وہ سارا دن حویلی میں کام کریں گی اور رات کو واپس جانا چاہیں تو گھر جا سکتی ہیں نہیں تو ان کے وہاں سونے کا بھی انتظام کر دیا جائے گا۔ میں جنم جلی بھی حویلی اور حویلی والوں کی شان و شوکت دیکھنے کیلئے ان کے بلاوے پر چلی گئی۔ حویلی کے مہمان خانے کا سارا انتظام ہم دو لڑکیوں کے ذمہ لگایا گیا۔ ایک میں تھی اور ایک خوبصورت لڑکی جس کا نام رضیہ عرف راجی ہے۔ وہ پہلے سے ہی وہاں موجود تھی۔۔۔وہ لڑکی بھی ساتھ والے گاؤں کے ایک کسان کی بیٹی ہے۔۔۔اور آج کل اس حویلی میں ہی بظاہر خادمہ کی حیثیت سے کام کر رہی ہے۔ جبکہ اصل میں وہ سیالوں کے لن ٹھنڈے کر رہی ہے۔۔۔ہمیں وہاں آنے والے مہمانوں کی مہمانداری کیلئے مخصوص کیا گیا۔۔۔وہاں جاتے ہی وہاں موجود ایک ملازم نے ہمیں رسیو کیا اور مہمان خانے میں جانے سے پہلے اپنے ساتھ ایک کوارٹر میں لے گیا۔ کوارٹر میں لے جا کر اس نے ہم دونوں کو نئے سوٹ دیے اور کہا کہ اچھی طرح نہا دھو کر یہ پہن لو۔ وڈے چوہدری صاحب بہت نفاست پسند انسان ہیں۔۔۔وہ اپنے آس پاس کسی قسم کی گندگی پسند نہیں کرتے۔ تم دونوں باری باری اس واش روم میں جا کر نہا لو اور اپنے پرانے کپڑے اتار کر یہ حویلی والے نئے کپڑے پہن لو۔ یہ کہہ کر اس نے کمرے کے ساتھ موجود واش روم کی طرف اشارہ کیا۔ پھر باہر جاتے جاتے بولا کہ اپنے کپڑے طے کر کہ یہیں الماری میں رکھ دینا۔۔۔یہاں سے جاتے وقت یہ نئے سوٹ تم دونوں کے ہی ہوں گے۔۔۔جاتے ہوئے اپنے پرانے کپڑے بھی یہیں سے اٹھا لینا۔ اب جلدی جلدی تیار ہو جاؤ میں یہیں باہر ہی موجود ہوں۔۔۔پھر تم دونوں کو مہمان خانے میں پہنچا دوں گا۔ ہم دونوں جلدی سے تیار ہوئیں اور باہر نکل آئیں۔۔۔وہ آدمی ہم دونوں کو لیکر ایک ہال نما کمرے میں داخل ہوا۔۔۔کمرے میں ہر طرف بیش قیمت فرنیچر سجا ہوا تھا۔۔۔ایک عالیشان بیڈ اور سامنے پڑی ہوئی خوبصورت کرسیاں۔۔۔سامنے دیوار کے ساتھ ٹرالی پر بڑا سا ٹی وی اور وی سی آر بھی پڑا ہوا تھا۔ ہمیں کرسیوں پر بٹھا کر وہ آدمی باہر چلا گیا۔۔۔ہم دونوں اس شان و شوکت کو دیکھ کر مرعوب ہو رہی تھیں۔۔۔اسی وقت دروازہ کھلا اور دو نوجوان اندر داخل ہوئے۔۔۔بعد میں پتہ چلا کہ ان میں سے ایک کا نام نور سیال اور دوسرا اس کا چھوٹا بھائی راجو سیال تھا۔ (10) دونوں سیال زادوں نے ہمارے پاس آ کر ہم سے چھیڑخانی کرنا شروع کر دی۔۔۔میں اس وقت سمجھی کہ ہم دونوں ایک ایسے جال میں پھنس گئی ہیں۔۔۔جہاں سے نکلنا اب نا ممکن نظر آ رہا ہے۔۔۔مختصراً سیال زادوں کے ہاتھوں آج ہماری عزت کا جنازہ نکلنے والا ہے۔ ان دونوں نے ہم دونوں کو دبوچ لیا۔۔۔ہم دونوں چیختی چلاتی رہیں پر جتنا ہم چلاتی تھیں۔ اتنا ہی وہ قہقہے لگاتے تھے۔۔۔دونوں سیال زادوں نے اپنے کپڑے اتار کر ایک طرف اچھال دیے۔۔۔پھر نور سیال نے مجھے اٹھایا اور راجو نے دوسری لڑکی راجی کو۔۔۔ہم دونوں کو بیڈ پر پٹخ کر ہمارے کپڑے پھاڑ ڈالے۔ میں نے مزاحمت کرنے کی کافی کوشش کی لیکن نور سیال نے میرے چہرے پر طمانچے مارے اور مجھے ڈرایا دھمکا کر چپ کروا دیا۔ میرے کپڑے اترتے ہی وہ پاگلوں کی طرح میرے مموں پر ٹوٹ پڑا۔۔۔ممے چوسنے کے ساتھ ساتھ اس نے جانوروں کی طرح مموں کو کاٹنا شروع کر دیا۔۔۔میں تکلیف سے مچلتی رہی۔۔۔دوسری طرف راجی بھی اسی عذاب سے گزر رہی تھی۔۔۔پھر نور سیال نے میرے سر کے پاس آ کر اپنا موٹا ڈنڈے جیسا لن میرے منہ کے پاس کر دیا۔۔۔اور مجھے لن کو منہ میں لینے کو کہا۔ مجھے انتہائی گھِن آئی میں نے انکار کرنے کی کوشش کی تو اس نے نہیں کے انداز میں میرا سر ہلتے ہی ایک زوردار تھپڑ میرے منہ پر رسید کر دیا۔ میں روتے ہوئے کہہ رہی تھی کہ مجھے چھوڑ دو مجھے گھر جانا ہے۔۔۔تو وہ غراتے ہوئے بولا کہ چپ چاپ میرے حکم پر عمل کرو۔ ورنہ گھر سے تیری ماں کو بھی یہیں اٹھا لائیں گے۔۔۔پھر ماں بیٹی ایک ساتھ چدواؤ گی۔ یہ سن کر میں ڈر سے کانپ اٹھی۔۔۔پھر اس نے دوبارہ اپنا لن میرے ہونٹوں پر رگڑنا شروع کر دیا اور زور زور سے چلانے لگا۔ کھول اپنا منہ جلدی کر۔ میرا لن چوس،،رنڈی کی بچی،، میں نے بے چارگی سے اس کے لن کی ٹوپی منہ میں لی تو مجھے انتہائی گندی بدبو محسوس ہوئی۔ میں نے سانس روک کر اس کا لن منہ میں لے کر چوسنا شروع کر دیا۔۔۔اس کا لن میرے منہ میں جاتے ہی وہ بڑے پیار سے میرے سر پر ہاتھ پھیرنے لگا اور بولا شاباش ایسے ہی میری ہر بات مانو اور مجھے اچھی طرح سے مزہ دو گی تو کچھ نہیں کہوں گا بلکہ انعام واکرام دے کر یہاں سے واپس جانے کی اجازت دوں گا۔ کچھ دیر لن چسوانے کے بعد اس نے مجھے بیڈ پر لٹایا اور دوبارہ سے میرے مموں کو چوستے ہوئے اپنے ایک ہاتھ سے میری پھدی کو مسلنے لگا۔۔۔ساتھ ہی اس نے بیڈ پر پڑی ایک بوتل اٹھائی اور اس میں سے تیل نکال کر تھوڑا سا میری پھدی پر گرایا اور پھر اپنے دائیں ہاتھ سے میری پھدی کو مسلنا شروع کر دیا۔ میری آنکھیں بند تھیں اور ان سے لگا تار آنسو بہہ رہے تھے۔۔۔اسی وقت مجھے اس دوسری لڑکی راجی کی تیز چیخ سنائی دی۔ میں نے گردن موڑ کر دیکھا تو راجو نے اس کی ٹانگیں اپنے کندھے پر رکھی ہوئی تھیں اور تیز تیز جھٹکوں کے ساتھ وہ اپنا لن لڑکی کی پھدی میں اندر باہر کر رہا تھا۔۔۔اسی دوران اچانک مجھے اپنی پھدی پر پریشر پڑتا ہوا محسوس ہوا۔۔۔مجھے ایسا لگا کہ جیسے آرے کے ساتھ میری پھدی کو چیرا جا رہا ہو۔ نور سیال کا لن میری پھدی کی دیواروں کو چیرتا ہوا اندر گھستا چلا جا رہا تھا۔۔۔میں نے بلکتے ہوئے نیچے سے نکلنے کی بہت کوشش کی لیکن نور سیال نے مجھے اپنے طاقتور بازوؤں میں جھکڑا ہوا تھا۔ ایک زوردار جھٹکے سے اس کا لن جڑ تک میری پھدی میں غائب ہو چکا تھا۔۔۔میرے منہ سے فلک شگاف چیخیں نکلنے لگیں۔۔۔مگر وہ حرام کا جنا ہر چیز سے بے نیاز میری پھدی میں اپنا لن ڈالے جھٹکے مارتا رہا۔ اس کے ہر دھکے پر مجھے اپنی پھدی میں دھماکے ہوتے ہوئے محسوس ہو رہے تھے۔۔۔میرے سارے جسم میں درد کی لہریں پھیلتی جا رہی تھیں۔ چند منٹ تک ایسے ہی جھٹکے برداشت کرنے کے بعد نور سیال کے جھٹکوں میں اور تیزی آ گئی اور پھر اچانک نور سیال مجھے چھوڑ کر اٹھ کھڑا ہوا اور مجھے الٹی کر کے اپنی سارا گرم گرم منی میری گانڈ کے اوپر نکال دیا۔۔۔ ************************* 9
Javaidbond Posted June 8, 2019 Author #3 Posted June 8, 2019 جی جناب۔۔۔ آپ کی بات بلکل ٹھیک ہے پر اور بھی غم ہیں زمانے میں اس کے سوا۔۔۔بہرحال اپڈیٹس آتی رہیں گی 3
چراغ سحر Posted June 8, 2019 #4 Posted June 8, 2019 2 hours ago, Javaidbond said: جی جناب۔۔۔ آپ کی بات بلکل ٹھیک ہے پر اور بھی غم ہیں زمانے میں اس کے سوا۔۔۔بہرحال اپڈیٹس آتی رہیں گی لگاو دم مٹے غم جیئے صمد بونڈ 2
چراغ سحر Posted June 8, 2019 #5 Posted June 8, 2019 بہت بہت زبردست شروعات جاوید بانڈ صاحب امید ہے اپڈیٹ جلد دیا کریں گے منتظر ہیں 1
Aikalone78 Posted June 8, 2019 #6 Posted June 8, 2019 Pure village style گاؤں کے چوہدری کے حالات سے مماثلت ایسا ہی سنا ہے کافی لوگوں سے 1
Javaidbond Posted June 8, 2019 Author #8 Posted June 8, 2019 جی جی بلکل اپڈیٹس آتی رہیں گی بس ابھی کچھ دن کافی مصروفیت ہے کام پر۔۔۔ نوکری پیشہ آدمی ہوں تو تھوڑا آگے پیچھے ہو سکتا ہے سہی سے ٹائم فریم نہیں دے سکتا پر ہاں اتنا ضرور کہوں گا کہ دوستوں کو بہت ذیادہ دیر انتظار نہیں کرنا پڑے گا۔۔۔ 4
Javaidbond Posted June 8, 2019 Author #9 Posted June 8, 2019 مجھے آپ کے اس فورم پر کسی کے میسیج کو رپلائی مطلب ٹیگ کرنا نہیں آ رہا۔۔۔ کیا کوئی میری راہنمائی کرے گا۔ 6
Recommended Posts