khoobsooratdil Posted April 11, 2013 Share #1 Posted April 11, 2013 تحریر©: علی عمران شاہینہمارا سب سے بڑا مسئلہ تیزی سے بڑھتی آبادی ہے.... اسے روکنے کیلئے آج ہم 13نکاتی ایجنڈے پر بحث کریں گے.... اور پھر ملک بھر کے نامور ماہرین، ڈاکٹرز، سابق وفاقی و صوبائی وزراءوغیرہ نے گفتگو شروع کی۔ ہر کسی کی زبان پر یہی الفاظ کہ جیسے ہو بچے کم کئے جائیں.... بڑھتی آبادی کی رفتار کو کم کیا جائے۔ وغیرہ وغیرہ ۔ملک کے بڑے فائیو سٹار ہوٹل میں روزنامہ جنگ کے زیر اہتمام جاری گول میز کانفرنس کی یہ بحث کافی دیر سے جاری تھی کہ اسی دوران جماعت اسلامی پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل ڈاکٹر فرید احمد پراچہ تشریف لائے اور چند منٹ شرکاءکی گفتگو سننے کے بعد گویا ہوئے....آپ لوگ ایسے پروگراموں میں ہمیں بھی مدعو کر لیتے ہیں.... پھر ہمارا مو¿قف سننے یا سمجھنے کے بجائے ”یس یا نو“ کے ذریعے فیصلہ سنا کر ہمارا نام بھی ڈال دیتے ہیں۔ لیکن آج میں اپنا مو¿قف بیان کرنا چاہتا ہوں۔ پھر بولے، ماں اور بچے کی صحت کے حوالے سے ہمیں نہ کوئی شکوک ہیں نہ شبہات۔ ہم تو خود اس کے حق میں ہیں کہ دونوں کو صحت مند ہونا چاہئے لیکن آپ لوگوں نے جس طرح آبادی کے بڑھنے کو سب سے بڑا قومی مسئلہ بنالیا ہے یہ بالکل غلط ہے۔ ملک کے دیگر مسائل اصلی اور حقیقی ہیں۔ کرپشن، اندھی لوٹ مار اور ملکی وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم سے خرابیاں جنم لیتی ہیں۔ ملک میں روزانہ اربوں کی کرپشن ہو رہی ہے، لوڈ شیڈنگ نے تباہی مچائی ہوئی ہے۔ انتہائی غریب سے تو جبراً ٹیکس لیا جاتا ہے لیکن 5ارب کا گھر بنانے والا ہر طرف سے مستثنیٰ ہے۔ کیسی بات ہے کہ کرپشن ختم کرکے اصل مسائل حل کرنے، وسائل کو درست طریقے سے استعمال کرنے کے بجائے آبادی کو ہی کم کرنے پر سارا زرو دیا جا رہا ہے۔ زیادہ آبادی بھی کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ چین نے ترقی کی تو زیادہ آبادی سے اور آج وہ ایک بچے کے حوالے سے عائد پابندی بھی ختم کر رہے ہیں۔ دیگر ممالک جنہوں نے آبادی روکنے کیلئے اقدامات کئے تھے آج وہ بھی اس حوالے سے سخت پریشان ہیں کہ وہ کیا کر بیٹھے ہیں (اس سے تو ان کی نسلیں مٹ رہی ہیں) اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ اسے سب سے بڑا مسئلہ نہ بنایا جائے اور اصل مسائل پر غور کر کے انہیں حل کیا جائے....پراچہ صاحب کے چند جملوںسے ہال میں سناٹا چھا گیا.... اور کسی کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔ اس پر پروگرام کے اس حصے کی میزبان (ہوسٹ)جو ایک انتہائی فیشن ایبل ڈاکٹر خاتون تھی، نے اتنا کہا ”پھرکیا ہم آبادی کو بڑھنے دیں؟“ پراچہ صاحب پھر بولے ، آپ میری بات سمجھیں کہ اصل مسئلہ کیا ہے....؟ اس کی طرف توجہ کریں۔ اس کے بعد سابق وفاقی وزیر اور ق لیگ کی رہنما ڈاکٹر عطیہ عنایت اللہ نے کہا کہ ”کرپشن بھی زیادہ آبادی سے ہی ہوتی ہے۔“ اس پر فرید پراچہ بولے .... یہ بالکل غلط ہے۔ کرپشن کرنے والوں کے خاندان تو محض تین افراد پر مشتمل ہوتے ہیں۔ یوں اب سب لاجواب تھے۔ اس کے ساتھ ہی پروگرام کے مرکزی میزبان جن کا نام واصف ناگی ہے اور جو بچوں کی پیدائش کم کرنے کے لئے سرکاری ملازمین کی ترقی اور تنخواہ روکنے کے مشورے دیتے ہیں،کی زبان بھی گنگ ہو چکی تھی اور وہ کہنے پر مجبور تھے ”جو نکات پراچہ صاحب نے اٹھائے ہیں وہ بھی بہت ٹھوس Valid ہیں“بحث جاری رہی اور13 نکات بڑھ کر 15ہو گئے جن پر سب لوگوں نے دستخط کئے لیکن ڈاکٹر فرید پراچہ دل کی بات بول کر چلے گئے تھے۔اگلے روز جب روزنامہ جنگ میں خبر چھپی تو ”آبادی کا بڑھنا سب سے بڑا مسئلہ“ تھا اور پراچہ صاحب کا بیان کاٹ چھانٹ کر رکھ دیا گیا تھا۔اسی ادارے نے اس کے تین دن بعد اپنے ٹی وی چینل جیو پر گریٹ ڈیبیٹ کے نام سے اسی موضوع پر پروگرام منعقد کیا جس میں موجودہ الیکشن میں حصہ لینے والی بڑی پارٹیوں کے قائدین کو مدعو کیا گیا تھااور ان سے ایک ہی سوال دہرا دہرا کر کیا جا رہا تھا کہ بتاﺅ! اقتدار میں آنے کے بعد آبادی کو کم کرنے کے لئے آپ کیا کریں گے۔اگرچہ یہاں بات کو تھوڑا گھما کر بیان کیا جا رہا تھا اور اسے ماں کی صحت کا مسئلہ بھی قرار دیا جا رہا تھا لیکن اصل نیت پھر بھی پوری طرح واضح تھی کہ جیسے بھی ہو آبادی کو ہی کنٹرول و کم کیا جائے۔ یہ تو ایک تمہید ہے لیکن ترقی کے لئے آبادی کم کرنے کا نظریہ رکھنے اور اس کی دن رات ترویج کرنے والے ان لوگوں کی ساری باتیں بھی ہمیشہ ہواﺅں، خلاﺅں میں ہی محسوس ہوتی ہیں کیونکہ یہ لوگ ترقی کیلئے آبادی کم کرنے کا جو فارمولا جس طرح پیش کرتے ہیں وہ تو آج ساری دنیا میں ناکام بلکہ نامراد ہو چکا ہے۔پاکستان میں آبادی کم کرنے کا نظریہ اور فکر جنرل ایوب خان کے دور میں آئی اور اسے لانے والی آج کی طرح اس وقت بھی غیر ملکی حکومتیں اور این جی اوز تھیں۔ حیران کن بات یہ ہے کہ انگریز ملکوں کے علاوہ جاپان، سنگاپور اور روس وغیرہ میں بھی یہ نظریہ تقریباً سو سال پہلے سامنے آیا تھا لیکن آج کل وہاں اس حوالے سے صورتحال اس قدر خوفناک اور گھمبیر ہے کہ وہاں کی حکومتیں بچوں کی پیدائش پر خصوصی مراعات دے رہی ہیں لیکن بچے پیدا نہیں ہو رہے،یوں معاشرے پہلے بوڑھے ہو رہے ہیں اور پھر ناپید۔کچھ عرصہ پہلے انہی لوگوں کے اسی عنوان سے منعقدہ ایک اور پروگرام میںایک یونیورسٹی” پروفیسر ڈاکٹر“ نے اعتراف کیا کہ آج براعظم یورپ کے تقریباً سبھی ممالک آبادی خصوصاً نوجوانوں کی شدید قلت کا شکار ہیں اور انہیں افرادی قوت مہیا کرنے والا ملک ترکی ہے جہاں کے لوگوں نے اب سارے یورپ کا نظام سنبھالنا شروع کر رکھا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی موصوف کا طے شدہ جملہ تھا کہ ”آبادی کم ہو جانا یورپ کا مسئلہ ہے، ہمارا مسئلہ تو آبادی کا بڑھنا ہے“۔ اس بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ترقی کیلئے آبادی کو کم کرنے والوں کے پاس دلائل کس قدرکمزوراور بے بنیاد ہیں۔دنیا کا ایک بڑا اور ترقی یافتہ ملک آسٹریلیا ہے، جو رقبہ کے لحاظ سے پاکستان سے کم از کم دس گنا بڑا اور آبادی میں دس گنا چھوٹا ہے۔ تعلیم کی شرح بہت زیادہ ہے، اسی لئے وہاں کی عورتیں دوسرا بچہ پیدا کرنے کا سوچتی بھی نہیں۔ آسٹریلیا نے اس پر قابو پانے اور کم از کم 3بچوں کے خاندان کو رواج دینے کے لئے چند سال سے ایک مہم چلائی جس کا ماٹو تھا: ”ایک امی کیلئے، ایک ابو کیلئے، ایک ملک کیلئے“ پھر والدین کے لئے مراعات کا اعلان ہوا لیکن بچے کون پیدا کرے؟ کیونکہ سو سال سے تو عوام خصوصاً عورتوں کو الٹی پٹی پڑھائی جاتی رہی ہے۔ سو آج آسٹریلیا اپنے ہاں باہر کے لوگوں کو ترجیحاً بلاتا اور انہیں شہریت دیتا رہا ہے۔22اکتوبر 2012ءکو یورپ کے ایک بڑے جریدےThe Fiscal Times نے رپورٹ دی کہ یورپ کا اگلا بڑا بحران بوڑھی آبادی ہے۔ جریدے نے لکھا کہ بچوں کی شرح پیدائش شہریوں کی اموات سے کم ہو چکی ہیں اور اب ہر طرف خوف طاری ہے کہ ہماری آبادیاں ہی مٹ رہی ہیں تو ہمارے ملک کہاں جائیں گے....؟اسی یورپ کا طاقتور و امیر ترین ملک فرانس ہے۔ یہاں حکومت نے نہ صرف بچوں کی پیدائش و نگہداشت کا سارا خرچ اٹھا رکھا ہے بلکہ تیسرے بچے کی پیدائش پر ہر ماں کو ایک سال کی چھٹی مع تنخواہ دی جاتی ہے۔ حکومت 2005ءسے ہر بچے کی مکمل نگہداشت کے علاوہ والدین کو ماہانہ 750یورو (لگ بھگ ایک لاکھ روپے پاکستانی) بھی دیتی ہے۔ آج کل یورپ کے وہ ملک جنہیں فرانس نے بغیر ویزے کے آنے جانے کی اجازت دے رکھی ہے ،وہاں کے لوگ تیسرا بچہ پیدا کرنے کے لئے فرانس آ رہے ہیں۔ اس پر بی بی سی ورلڈ نے 2008ءمیں ایک تفصیلی رپورٹ دی تھی۔ یوںتین بچوں والے والدین، بچے اور حکومت سب خوش ہیں۔دنیا میں روس آج بھی رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا ملک ہے جبکہ آبادی محض 14کروڑ 33لاکھ ہے۔ ملک کے پاس وسائل تو بہت ہیں لیکن آبادی نہیں۔ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے کچھ عرصہ پہلے عوام کے سامنے ہاتھ جوڑ کر کہا تھا کہ وہ کم از کم تین بچے ضرور پیدا کریں تاکہ کچھ نہ کچھ تو آبادی میں اضافہ ہو ورنہ تو ملک میں اب بوڑھے عام ہو رہے ہیں۔ وہ مریں گے تو ملک کہاں جائے گا؟ 2005ءمیں پیوٹن نے اعلان کیا تھا کہ وہ دوسرے بچے کی پیدائش پر والدین کو 9ہزار ڈالر جبکہ تیسرے کی پیدائش پر اس سے زیادہ انعام دیں گے۔اس وقت روس کی حالت یہ ہو چکی ہے کہ اس کی آبادی کم ہی ہوتی جا رہی ہے اور کہا جا رہا ہے کہ اگلے 35سال تک موجودہ روسی آبادی کا بڑا حصہ بھی مٹ جائے گا اور روس جیسا دنیا کا ایک بہت بڑا حصہ مکمل طور پر بھی انسانوں سے خالی ہو سکتا ہے۔جاپان میں بوڑھو ن کی تعداد حیران کن طور پر پہلی بار نوجوانوں سے آگے جا رہی ہے ۔جاپان میں اوسظ عمر دنیا بھر میں چونکہ زیادہ ہے اس لئے بھی ان کے لئے یہ مسئلہ گھمبیر صورتحال اختیار کر رہا ہے۔آبادی کم کر کے ترقی کی شاہراہ پر چلنے کے دعویداروں کے پاس اس سب کا تو کوئی جواب نہیںالبتہ وہ یہ کہتے ہیں کہ ہمارے پاس خوراک کم ہے، آبادی بڑھنے سے زرعی رقبہ سمٹ رہا ہے،شہر تنگ پڑ رہے ہیں، وغیرہ وغیرہ ۔لہذا بچے کم سے کم پیدا کئے جائیں۔لیکن جب ان لوگوں سے کہا جائے کہ بتاﺅ، پاکستان پہلے خوراک میں خودکفیل تھا یا آج ہے؟ تو ان کے پاس جواب نہیں ہوتا،کیونکہ آج ہم گیس، بجلی نہ ہونے اور بے تحاشا مہنگائی کے بعد بھی خوراک دوسرے ملکوں کو دے رہے ہیں۔ سی فوڈز سے لے کرکئی اقسام کے گوشت، ہمہ قسم کے پھل اور سبزیاں، چینی، گندم اور چاول تک ہم آج بڑے پیمانے پر برآمد کر رہے ہیں جبکہ چند سال پہلے تک ہم خوراک بڑے پیمانے پر درآمد کرتے تھے۔ آج ہماری زرعی پیداوار سے افغانستان کا پورا ملک بھی چلتا ہے۔ اگر ہمارے ہاں کسانوں کو ساری سہولیات میسر ہوں تو ہم واقعی دنیا کے بڑے حصے کو خوراک مہیا کر سکتے ہیں۔ پاکستان اس وقت دنیا میں آبادی کے لحاظ سے چھٹے نمبر پر ہے جبکہ رقبے کے لحاظ سے اس کا نمبر36سواں ہے۔اس کے باوجود پاکستان کا وہ صوبہ بلوچستان جو ملک کے 43فیصد رقبے پر مشتمل ہے محض 80لاکھ آبادی رکھتا ہے۔پاکستان کا بہت بڑا حصہ آج بھی بنجر و ویران پڑا ہے۔سب سے آباد صوبہ پنجاب ہے لیکن اس میں بھی زیر کاشت رقبہ بنجر رقبے سے کہیں کم ہے۔آج ہمارے انہی کھیتوں سے پیداوار کئی گنا بڑھ چکی ہے جنہیں ہم صدیوں سے کاشت کر رہے ہیں۔یہ بات تو درست ہے کہ زرعی زمینوں پر آبادیاں بنتی ہیں لیکن یہ کس کی ذمہ داری ہے کہ ملک کے بنجر پڑے وسیع رقبوں کو زیر کاشت لائے تاکہ توازن قائم رہے۔یہ لوگ بنگلہ دیش کی بھی خاص طور پرمثال دیتے ہیںکہ جناب! بنگلہ دیش کی آبادی 1971ءمیں ہم سے زیادہ تھی اور اب ہم سے کہیں کم ہے، سو وہ کامیاب ہو گئے۔ سوال یہ ہے کہ آبادی کم کر کے بنگلہ دیش نے کیا تیر مار لیا؟ باوجودیکہ پاکستان دنیا میں کرپشن کے لحاظ سے پہلے نمبروں پر ہے۔ دہشت گردی کی امریکی جنگ میں 50ہزار لوگ جانوں سے چلے گئے ۔100ارب ڈال کی معاشی تباہی ہو چکی لیکن آج بھی پاکستان کی معیشت و معیار زندگی بنگلہ دیش سے ہزار گنا بہتر ہے۔ہما را سوال ہے کہ آبادی کم سے کم کر کے ترقی کرنے کے نعرے لگانے والے ماہرین جن آقاﺅں کی تقلید اور حکم برداری میں یہ مشن لے کر اٹھے ہوئے ہیں ،کیا وہ ہمیں بھی انہی کے عبرتناک حشر سے دوچار کرنا چاہتے ہیں؟ کیا کل ہم بھی بچوں کی پیدائش پر انعام رکھیں گے اور انسانوں کے وجود کو ترسیں گے؟ وہ تو کھلے لفظوں میں یہ نہیں کہیں گے لیکن ہم تو کھلے لفظوں میں کہتے ہیں کہ اصل سازش یہی ہے۔آخر کیا وجہ ہے کہ باہر کے ممالک اور ان کے ادارے ہماری آبادی کم کرنے کے لئے اس قدر بے چین ہیں۔ Link to comment
(._.)Milestone(._.) Posted April 20, 2013 Share #2 Posted April 20, 2013 acha thread hai thanks for posting Link to comment
Recommended Posts
Create an account or sign in to comment
You need to be a member in order to leave a comment
Create an account
Sign up for a new account in our community. It's easy!
Register a new accountSign in
Already have an account? Sign in here.
Sign In Now