Asifa Kamran Posted December 19, 2012 #1 Posted December 19, 2012 بھارت کے دارلحکومت دہلی میں تئیس سالہ طالبہ کو ایک نجی بس میں مبینہ طور اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ پولیس حکام کا کہنا ہے کہ طالبہ اپنے مرد دوست کے ہمراہ بس میں سفر کر رہی تھیں۔ دونوں اتوار شب فلم دیکھ کر واپس آ رہے تھے کہ اُن پر بس میں چھ سے ساتھ افراد نے حملہ کیا اور دونوں کو بری طرح مار پیٹ کر بس سے باہر پھینک دیا گیا۔ دونوں ہسپتال میں زیر علاج ہیں اور اطلاعات ہیں کہ خاتون کی حالت ’انتہائی تشویشناک‘ ہے۔ پولیس نے مقدمہ درج کر لیا ہے اور دلی کی وزیرِ اعلیٰ شیلا ڈیکشت کا کہنا ہے کہ واقعے میں ملوث ہونے والے افراد کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔ دہلی شہر میں ہر سال جنسی تشدد کے سینکڑوں واقعات ریکارڈ کیے جاتے ہیں اور اسی وجہ سے اس شہر کو بھارت میں جنسی زیادتی کا مرکز بھی کہا جاتا ہے۔ نامہ نگاروں کے مطابق دہلی میں عوامی مقامات پر جنسی طور پر ہراساں کرنے، زیادتی اور اغوا کے واقعات کی شرح بڑھنے کے باعث خواتین کے لیے مشکلات میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ بھارت کے قومی کمیشن برائے خواتین کی سربراہ کا کہنا ہے کہ دہلی میں ایسے واقعات کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے۔ پولیس اور حکومت کو خبردار رہنا چاہیے۔
Asifa Kamran Posted December 19, 2012 Author #2 Posted December 19, 2012 بھارتی دارالحکومت دلی کی ہائي کورٹ نے دلی پولیس کو حکم دیا ہے کہ بس میں مبینہ طور پر اجتماعی جنسی زيادتی کا شکار ہونے والی طالبہ کے معاملے کی تفتیشی رپورٹ دو روز کے اندر پیش کی جائے۔ عدالت نے یہ احکامات بدھ کو خواتین وکلاء کی ایک درخواست پر دیے جس میں اس معاملے کی عدالتی نگرانی میں تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ عدالت نے اس بارے میں خواتین وکلاء کو یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ اس ’شرمناک‘ واقعہ پر توجہ دے رہی ہے۔ ہائي کورٹ نے سخت ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ عوام کا پولیس اور عدلیہ سے اعتماد اٹھتا جا رہا ہے۔ عدالت نے کہا ہے کہ اس کیس کی جلد سماعت کے لیے پانچ مختلف فاسٹ ٹریک عدلتیں تشکیل دی جائیں گي اور پولیس سے پوچھا ’اس واقعے سے پہلے آخر وہ کہاں تھی؟‘ بدھ کے روز اس واقعے کے خلاف دارالحکومت دلی کے مختلف علاقوں میں ایک بار پھر احتجاجی مظاہرے ہوئے ہیں۔سب سے پہلے پارلیمان کے باہر ارکان پارلیمان نے اس کے خلاف ایک علامتی مظاہرہ کیا اور حکومت سے خواتین کے تحفظ کو یقینی بنانے پر زور دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی کی سزا میں اضافے کی ضرورت ہے۔ وزیرِ داخلہ سشیل کمار شندے نے ایوان میں ایک بیان دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس سزا سے متعلق قانون میں ترمیم کا ایک بل بہت پہلے سے موجود ہے جسے جلد ہی متعارف کیا جائےگا۔ خواتین کی مختلف تنظیموں اور یونیورسٹیز کی طلباء یونین نے بھی دلی پولیس کے ہیڈ کوارٹر کے باہر مظاہرہ کیا اور پولیس کے خلاف نعرہ بازي کی۔ اسی طرح کے ایک دیگر گروپ نے وزیر اعلی شیلا دکشت کی رہائش گاہ کے باہر مظاہرہ کیا جسے منتشر کرنے کے لیے پولیس نے تیز دھار پانی کا استمعال کیا۔ ملک کے بعض دیگر علاقوں میں بھی اس واقعے کے پس منظر میں احتجاجی مظاہرے ہوئے ہیں اور لوگوں میں زبردست غم و غصہ دیکھا گيا ہے۔ ادھر زیادتی کا شکار ہونے والی طالبہ کی حالت اب بھی نازک ہے اور ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ وہ اب بھی وینٹی لیٹر پر ہی ہیں۔ جنسی زيادتی کے ساتھ ساتھ لڑکی کے ساتھ مار پیٹ بھی کی گئی تھی اور ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ انہیں شدید چوٹیں آئی ہیں۔ دہلی کے صفدر جنگ ہسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر بيڈي اتھاني کا کہنا ہے کہ ’لڑکی کی حالت اب بھی نازک ہے لیکن وہ ہوش میں ہیں اور لکھ کر اپنی بات بتا رہی ہیں‘۔ منگل کی شام کانگریس پارٹی کی سربراہ سونیا گاندھی نے متاثرہ لڑکی سے ملاقات کے لیے ہسپتال کا دورہ کیا تھا اور کہا تھا کہ حکومت کو اس معاملے میں سخت سے سخت قدم اٹھانے کی ضرورت ہے۔ سونیا گاندھی نے اس سلسلے میں وزیر داخلہ سشیل کمار شندے، دہلی کی وزیر اعلی شیلا دکشت اور نیشنل خواتین کمیشن كي صدر ممتا شرما کو ایک سخت خط بھی لکھا ہے۔ وزیر داخلہ کو لکھےگئے خط میں سونیا گاندھی نے لکھا ہے کہ ’یہ شرم کی بات ہے کہ ملک کے دارالحکومت میں ایک لڑکی کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے۔' انہوں نے کہا کہ مجرموں کو تلاش کر کے انہیں فوری طور پر سزا دی جائے‘۔ اس دوران اجتماعی جنسی زيادتی کرنے والے چھ ملزمان میں سے چار کو گرفتار کر لیا گیا ہے اور منگل کو انہیں پانچ دن کے لیے پولیس حراست میں بھیج دیا گیا تھا۔ دو ملزم اب بھی فرار ہیں اور پولیس انہیں تلاش کر رہی ہے۔ یہ واقعہ اتوار کی رات ساڑھے نو بجے کے آس پاس اس وقت پیش آیا تھا جب مذکورہ لڑکی اور اس کا ایک دوست چارٹرڈ بس میں سوار ہوئے تھے۔ اسی بس میں سوار کچھ افراد نے لڑکی سے چھیڑ چھاڑ کی، پھر دونوں کو مارا پیٹا گیا اور لڑکی سے جنسی زیادتی کی گئی تھی۔ اس واقعے کے بعد دونوں کو بس سے باہر پھینک دیا گیا تھا۔
khoobsooratdil Posted December 19, 2012 #3 Posted December 19, 2012 Bas g jab Aazadi or Hawas had se berhay gi to aisay kaam to hon gy na keep it up
Asifa Kamran Posted December 19, 2012 Author #4 Posted December 19, 2012 Bas g jab Aazadi or Hawas had se berhay gi to aisay kaam to hon gy nakeep it up oor dekhan romance walii films
Asifa Kamran Posted December 30, 2012 Author #6 Posted December 30, 2012 Thanks 4 sharing Welcomeeeeeeee
Recommended Posts
Create an account or sign in to comment
You need to be a member in order to leave a comment
Create an account
Sign up for a new account in our community. It's easy!
Register a new accountSign in
Already have an account? Sign in here.
Sign In Now