کسی پتھر کی مورت سے - Own Writers Urdu Novels - URDU FUN CLUB Disable Screen Capture Jump to content
فروری 15 سے پہلے خریدی گئی پردیس 59 کی قسط رمضان سے پہلے پوسٹ ہو جائے گی ۔ 15 فروری کے بعد کی خریداری رمضان کے بعد ہی پوسٹ ہو گی۔ ×
URDU FUN CLUB

Recommended Posts

Posted

کسی پتھر کی مورت سے…سمیرا شریف طور

میں ابھی تک ہتھوڑوں کی بارش محسوس کر رہا تھا۔ مجھے اپنا پورا وجود ہوا میں معلق ہوتا محسوس ہو رہا تھا۔ یوں لگ رہا تھا گویا کوئی انہونی ہوگئی ہو، میری دنیا میں کوئی طوفان آگیا ہو اور واقعی کوئی طوفان آگیا تھا۔ مجھ پر سکتہ ساطاری ہو گیا تھا۔

’’یہ کیا کر دیا میں نے…میں کس قدر ظالم باپ تھا۔اپنی ذات کے حصار میں مقید اپنے ہی نقصان کا شدید سبب بنتا چلا گیا اور مجھے علم ہی نہ ہو سکا۔ وہ لڑکی جسے میں نے ہمیشہ نفرت کی نظر سے دیکھا۔ اس کے وجود پر لاتعلقی کے کوڑے برسائے، وہ آج میری روح، میری زندگی کی واحد خوشی، میری زندگی کا سبب بن جائے گی۔اس قدر شدید محبت کرتا ہوں اس سے اور ہمیشہ بے خبر رہا۔‘‘ تین دن سے وہ اسپتال میں تھی اور میں تین دن سے ضمیر کی سخت گرفت میں تھا۔ مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے وہ ابھی بھی میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر رہی ہو۔ وہی بیٹی جس نے آج تک میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات نہیں کی تھی۔ جس کی زبان سے میرے رویے پر احتجاج کا ایک لفظ تک نہیں نکلا تھا، وہ تین دن پہلے میرے سامنے کھڑی میری ایک ایک لغزش مجھے بتاتی ہوئی، مجھے آئینہ دکھا رہی تھی۔

میں تین دن سے اسپتال میں تھا۔ رات کو سلامہ شاہ نے مجھے زبردستی گھر بھیج دیا تھا تاکہ میں آرام کر سکوں مگر اب آرام کہاں؟ رات بھر اپنی کنپٹیوں کو مسلتے، اپنے شدید نقصان کا تعین کرنے میں مصروف تھا۔ کہاں کہاں مجھ سے حقوق کی بجا آوری میں لرزش ہوئی؟ کہاں کہاں میں غلط تھا۔مجھے اپنی ساری زندگی سے ہی شرم آرہی تھی۔

’’پاپا،آئی ہیٹ یو۔ آئی ہیٹ یو…‘‘ ماورا کے الفاظ ایک دفعہ پھر میرے ذہن میں گردش کرنے لگے تھے۔میں ایک دم بستر سے اٹھ کر کمرے میں ٹہلنے لگا۔ بیڈ کی سائیڈ دراز کے اوپر میری اور سارا کی شادی کی تصویر رکھی ہوئی تھی۔ جسے میں نے کبھی اپنی زندگی سے جدا نہیں کیا تھا۔ میں نے وہ تصویر اٹھالی۔

تصویر میں موجود سارہ آج بھی اپنے ملکوتی حسن سمیت لاثانی تھی۔ وہ ہمیشہ اپنے بھرپور حسن سمیت میرے دل پربجلیاں گراتی رہی تھی اور یہی خود فراموشی آج میری اس اذیت کا سبب بنی ہوئی تھی۔ میں واقعی جنونی تھا۔ سارہ کی وفات کے تیئس، چوبیس سال بعد بھی میں نے اسے زندہ رکھا ہوا تھا۔ اپنی یادوں میں، اپنے خیالوں میں، اپنی سوچوں میں اپنی ساری زندگی میں۔ وہ کبھی مجھ سے جدا نہیں ہوئی تھی۔ ایک عرصہ پہلے میں نے اپنے ہاتھوں سے سارہ کے وجود کو لحد میں اتارا تھا مگر تیئس، چوبیس سال تک میں نے خود کو اس کی موت کا یقین ہوجانے کے باوجود دھوکے میں مبتلا کر رکھا تھا کہ وہ ابھی بھی زندہ ہے۔ محبت کبھی بھی نہیں مرتی۔ ہاں واقعی میں بہت جنونی تھا اور اسی لیے تو ماورا مجھ سے کہہ رہی تھی۔

’’بہت جنونی ہیں پاپا آپ!…آپ نے صرف ایک محبت کی اور کیا کیا آپ نے ساری زندگی۔ماضی پر ماتم کرتے کرتے گزار دی، یہ تک خیال نہ آیا کہ میں کون ہوں، کیا رشتہ ہے میرا آپ سے۔‘‘پھوٹ پھوٹ کر روتے ہوئے اس نے کہا اور تین دن سے وہ جس طرح چپ چاپ اسپتال کے بستر پر پڑی تھی مجھے ہر آن، ہر لمحہ طوفانوں کی زد میں دھکیلتی جا رہی تھی اور اب سارہ کی تصویر کو دیکھتے، اس کے الفاظ یاد کرکے کوئی میرا دل مٹھی میں بھینچ رہا تھا۔

’’ماورا! میری زندگی، سچ کہا تم نے میں واقعی بہت جنونی ہوں۔ ماضی میں جینے والا۔‘‘اپنے آپ سے اعتراف کرتے ہوئے میں نے وہ تصویر واپس رکھ دی اور خود کو ماضی کی بھول بھلیوں میں گم ہونے سے نہ روک پایا۔

vvv

سارہ رحمان میری کلاس فیلو تھی۔ وہ بہت حسین اور پورے ڈپارٹمنٹ کی جان تھی۔ہم دونوں ایم بی اے کے ڈپارٹمنٹ سے تعلق رکھتے تھے۔ وہ شہر کے ایک بڑے بزنس مین کی بیٹی تھی۔تھا تو حیثیت و مرتبے میں بھی کچھ کم نہیں۔ میرا تعلق بھی ایک کھاتے پیتے فیوڈل گھرانے سے تھا۔ اپنے ماحول سے نالاں، اکتایا ہوا اور لاتعلق۔ مجھے اپنے باپ کی وراثت میں ایکڑوں کے حساب سے ملنے والی جائیداد سے کوئی غرض نہ تھی۔ مجھے ہر وہ کام کرنے کا جنون تھا جو میرے باپ غفار شاہ کوناپسند تھا۔ انہیں میر ی ذات کے ہر کام میں مداخلت کرنے کی عادت تھی، بچپن کی حدود سے نکلتے ہی میں نے اپنی مرضی کرنا شروع کر دی تھی۔ انہیں ہر ایک کو اپنے زیر اثر رکھنے کا خبط تھا اور میں ان کے زیر اثر رہنے پر قطعی تیار نہ تھا۔ بابا جان کاخیال تھا کہ میں سیاست کی لائن میں آؤں اور مجھے اس سے کوئی غرض نہ تھی۔میری وجہ سے ان کی حیثیت مزید مستحکم ہوسکتی تھی جب کہ میں نے ان کے سب ارادوں پر پانی پھیرتے ہوئے بزنس لائن جوائن کی تھی۔ میرے اور بابا جان کے ہمیشہ نظریاتی اختلافات رہے تھے۔ میں اپنے سسٹم سے اکتایا برگشتہ فطرت کا مالک انسان تھا۔ ایسے میں سارہ سے ملاقات ہونا، اسے دیکھنا۔ میرے احساسات کا محور بدل گیا تھا۔ پہلی نظر کی محبت کیا ہوتی ہے مجھ پر آشکار ہوئی تھی۔

اردو فن کلب کے پریمیم سیریز اور پریمیم ناولز اردو فن کلب فورم کا قیمتی اثاثہ ہیں ۔ جو فورم کے پریمیم رائیٹرز کی محنت ہے اور صرف وقتی تفریح کے لیئے فورم پر آن لائن پڑھنے کے لیئے دستیاب ہیں ۔ ہمارا مقصد اسے صرف اسی ویب سائیٹ تک محدود رکھنا ہے۔ اسے کسی بھی طرح سے کاپی یا ڈاؤن لوڈ کرنے یا کسی دوسرے دوست یا ممبر سے شیئر کرنے کی بالکل بھی اجازت نہیں ہے ۔ جو ممبران اسے کسی بھی گروپ یا اپنے دوستوں سے شئیر کر رہے ہیں ۔ ان کو مطلع کیا جاتا ہے کہ وہ اسے کسی دوسرے ممبر ثانی سے شئیر نہیں کر سکتے ۔ ورنہ ان کا مکمل اکاؤنٹ بین کر دیا جائے گا ۔ اور دوبارہ ایکٹو بھی نہیں کیا جائے گا ۔ موجودہ اکاؤنٹ کینسل ہونے پر آپ کو نئے اکاؤنٹ سے کسی بھی سیئریل کی نئی اپڈیٹس کے لیئے دوبارہ قسط 01 سے ادائیگی کرنا ہو گی ۔ سابقہ تمام اقساط دوبارہ خریدنے کے بعد ہی نئی اپڈیٹ آپ حاصل کر سکیں گے ۔ اکاؤنٹ بین ہونے سے بچنے کے لیئے فورم رولز کو فالو کریں۔ اور اپنے اکاؤنٹ کو محفوظ بنائیں ۔ ۔ ایڈمن اردو فن کلب

  • Replies 31
  • Created
  • Last Reply

Top Posters In This Topic

Top Posters In This Topic

Posted

ایم بی اے کا پورا عرصہ میں نے سارہ سے دوستی رکھی اور اپنے سب جذبوں کو دل میں سنبھالے رکھا۔ پھر جیسے ہی میں نے تعلیم کو خیرباد کہا تو بی بی جان سے سارہ کے متعلق بات کی اور انہوں نے بابا جان سے۔ ہمارے خاندان میں اپنی ذات برادری اور خاص طور پر غیر خاندان میں کبھی شادیاں نہیں کی جاتی تھیں۔میری خواہش جان کر بابا جان بہت برگشتہ ہوئے۔ بی بی جان نے ہر طرح سے مجھے سمجھانے کی کوشش کی مگر میں اپنے جذبوں پر بندھ نہ باندھ سکا۔ بابا جان کسی بھی طور پر میری شادی اپنی مرضی کے بغیر کسی غیرخاندان میںکرنے پر راضی نہ تھے اور میں بھی اپنے ارادوں میں اٹل اور ضد کا پکا انسان تھا۔ نجانے کیوں بابا جان سے نظریاتی اختلافات رکھتے رکھتے ان کے ہر فیصلے سے انکار کرنے کی ضدی خاصیت میرے اندر اپنی جڑیں مضبوط کرتی جا رہی تھی۔ بابا جان، سبحان بھائی، دونوں بہنیں بھاوج، بی بی جان سب نے سمجھانے کی کوشش کی مگر میں راضی نہ ہوا اور پھر بابا جان نے غصے میں آکر مجھے ہمیشہ کے لیے حویلی سے نکل جانے کو کہا اور میں بھی اپنا مختصر سا سامان لے کر ان سے قطع تعلق کر آیا۔

حویلی سے نکلتے ہوئے میںبالکل خالی تھا لیکن ایک عزم میرے ساتھ تھا اور شاید قسمت بھی مجھ پر مہربان تھی کہ مجھے ایک بہت اچھی کمپنی میں اعلیٰ درجے کی ایک ملازمت مل گئی۔ گاڑی، گھر وغیرہ کی بھی سہولت تھی پھر میں نے سارہ کے حصول کے لیے کوششیں شروع کردیں۔

پہلے پہل جب سارہ کو یہ علم ہوا کہ میں اسے ایک عرصے سے چاہنے کی جسارت کرتا آیا ہوں تو وہ بہت حیران ہوئی مگر پھر آہستہ آہستہ میرے بار بار اس کی راہ میں آنے پر وہ بھی میری محبت میں مبتلا ہوتی چلی گئی۔ شاید سارا کے والدین مجھ جیسے تنہا شخص سے اپنی چہیتی بیٹی کی شادی کرنے پر کبھی راضی نہ ہوتے اگر میری خاطر وہ اپنے والدین کے سامنے نہ کھڑی ہوتی۔ رو دھو کر، ضد کرکے آخر کار اس نے اپنے والدین کو راضی کر ہی لیا اور پھر ہماری شادی ہوگئی۔

سارہ کا میری زندگی میں آنا بہت خوش آئندہ ثابت ہوا۔جن حالات میں وہ میری زندگی میں آئی تھی، میں مالی مسائل میں الجھا ہوا تھا لیکن اس نے ہر حال میں میرا ساتھ دیا، کبھی بھی میری کم مائیگی پر مجھے طعنہ نہیں دیا۔ وہ عیش و عشرت میں پلی بڑھی لڑکی تھی لیکن میری زندگی میں آتے ہی وہ اپنی گزشتہ زندگی کو، اپنے والدین کے ہی گھر بھول آئی تھی۔ شادی کے بعد میں نے اپنے ایک دوست کے ساتھ بینک سے لون لے کر شراکت داری کی بنیاد پر چھوٹا سا بزنس شروع کر دیا۔ذرا سیٹل ہواتو سارہ کے ہمراہ دوبارہ حویلی گیا، میرا خیال تھا کہ اب بابا جان شاید اپنی ضد کو بھول کر مجھے اپنالیں مگر یہ میری خام خیالی ہی ثابت ہوئی اور بابا جان نے ہم دونوں کو بہت بے عزت کرکے حویلی سے نکال دیا اور پھر اس کے بعد میرے دل میں دوبارہ حویلی والوں سے ملنے کی کوئی حسرت نہ جاگی۔

سارہ سے شادی کے تین سال بعد اﷲ تعالیٰ نے ہم پر کرم کیا۔ سارہ ماں بننے والی تھی۔ جہاں میں بے انتہا خوش تھا وہیں سارہ کی خوشی دیکھنے کے لائق تھی۔ سارہ کے والدین جو وقتی طور پر ہم دونوں سے بدظن تھے یہ خوشخبری سن کر وہ سارہ کو اپنے پاس لے گئے۔میں بھی اکثر وہاں چلا جاتا۔جوں جوں سارہ کی ڈلیوری کے دن قریب آتے جا رہے تھے میری بے چینی میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا کیونکہ ڈاکٹرز نے سارہ کے کیس کو نارمل قرار نہیں دیا تھا۔ ان ہی دنوں مجھے اپنے کام کے سلسلے میں ترکی کے وزٹ پر جانا پڑ گیا۔ میں جانے پر راضی نہیں تھا لیکن سارہ نے اصرار کرکے بھیج دیا، بقول اس کے کہ میں اس کی خاطر اپنی ترقی کے اتنے اہم موقعے کو مت گنواؤں اور میں چلا گیا۔ ابھی مجھے وہاں پہنچے چار دن ہی گزرے تھے کہ پاکستان سے خبر آئی کہ سارہ کا انتقال ہو گیا ہے۔ ڈلیوری کے دوران اس کی ڈیتھ ہوگئی تھی۔ یہ خبر میرے لیے ایک زبردست ذہنی جھٹکا ثابت ہوئی۔ نجانے میں کیسے پاکستان پہنچا۔ سارہ نے ایک بچی کو جنم دیا تھا۔ مجھے اپنی نومولود بچی سے بے انتہا نفرت ہوئی جس کی آمد نے مجھ سے میری عزیزاز جان بیوی کو چھین لیا۔ میں نے ایک دفعہ بھی اپنی بیٹی کو دیکھنے کی خواہش نہ کی۔ اس کی نانی ہی اسے سنبھال رہی تھیں۔ سارہ کی وفات کے کئی ہفتے بعد بھی میری ذہنی حالت سنبھل نہ پائی۔ اپنے خاندان والوں سے میں بالکل کٹا ہوا تھا ایسے حالات میں کوئی بھی مجھے ذہنی سپورٹ دینے والا نہ تھا۔ میری توجہ اپنے بزنس سے ختم ہو کر رہ گئی تھی بلکہ زندگی سے بھی ختم ہوگئی۔میری مسلسل عدم دلچسپی کا نتیجہ تھا کہ میرا بزنس ختم ہو کر رہ گیا۔ اب اس جگہ رہنے کو میرا دل نہیں چاہتا تھا۔ سب کچھ چھوڑ کر میں واپس گاؤں پہنچا۔ بی بی جان مجھے یوں لٹا پٹا دیکھ کر بہت آزردہ ہوئیں۔ بابا جان اور سبحان بھائی البتہ خاموش ہی تھے۔کچھ وقت گزرا تو بی بی جان مجھ پر دوبارہ شادی کے لیے زور ڈالنے لگیں لیکن سارہ کے بعد کچھ بھی اچھا نہیں لگتا تھا۔ حقیقتاً میںنے سارہ کو اپنے تصور میں مرنے ہی نہیں دیا تھا وہ مر کر بھی میرے اندر سے نہیں نکلی تھی۔ ایسے میں کسی دوسرے وجود کو اپنی زندگی میں کیسے شامل کر لیتا۔ یہ میرے لیے ناممکن تھا۔ جب اماں جی کے ساتھ بھاوج اور بابا کا بھی دباؤ بڑھنے لگا تو میں پھر سب تعلق ختم کرکے وہاں سے نکل آیا۔ ماورا اپنی نانی کے پاس تھی۔ انہوں نے ہی اس کا نام ماورا رکھا تھا۔میری عدم دلچسپی دیکھتے ہوئے انہوں نے اسے پاس ہی رکھنے کا فیصلہ کیاتھا جس سے میں بھی مطمئن ہوگیا تھا۔ اب پاکستان میں رہنے کو جی نہیں چاہتا تھا۔’’بچا کچا سب کچھ سمیٹ کر میں لندن آبسا اور پھر یہاں جاب کر لی۔ پتا نہیں کتنا عرصہ گزرا تھا۔ مجھے کبھی ماورا کے وجود کا خیال نہیں آیا۔ ہاں البتہ ماورا کے ننھیال والے اکثر رابطہ کرکے اس کی خیرخیریت سے آگاہ کرتے رہتے تھے۔ اس سے زیادہ مجھے ماورا سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ ایک نفرت سی میرے دل میں اس کے لیے تھی پھر رفتہ رفتہ دس سال گزر گئے

Posted

اور ایک دن ماورا کی نانی کا فون آیا۔

vvv

’’میں بہت بیمار ہوں۔زندگی کا کچھ نہیں کہہ سکتی…ماورا کو میں سارہ کی نشانی سمجھ کرسینے سے لگا کر پالتی آرہی تھی مگر اب یہاں کے حالات پہلے جیسے نہیں رہے۔ مجھے علم نہیں کہ سارہ کے بھائی بھی ماورا کو بہن کی نشانی سمجھ کر وہی محبت و پیار دیں گے جو میری موجودگی میں دیتے ہیں۔ وہ تمہاری امانت ہے بیٹا۔ اپنی بیٹی کے بارے میں سوچو۔وہ اب بڑی ہو رہی ہے تمہاری مسلسل غیر حاضری کے متعلق سوال کرنے لگی ہے۔میںاسے مسلسل کسی نہ کسی طرح بہلا لیتی ہوں مگر اب بچی کو تمہاری ضرورت ہے۔ جو تحفظ تم دے سکتے ہو وہ میں یا کوئی اور نہیں دے سکتا۔اس لیے بیٹا اپنی بیٹی کے بارے میں سوچو۔‘‘

پھر مجھے واپس آنا پڑا۔ ماورا کے لیے میرے دل میں قطعی کوئی گنجائش نہ تھی۔ بس ولدیت کے خانے میں میرا نام درج تھا، یہی وہ رشتہ تھا جو اسے میری بیٹی بناتا تھا۔ اسے لے کرمیں حویلی چلا آیا۔دس سال بعد میں دوبارہ وہاں آیا تھا۔ وہاں کا ماحول ویسا ہی تھا۔ بابا جان کا رویہ ہنوز وہی تھا۔ پہلے انہوں نے سارہ کو بہو ماننے سے انکار کیا تھا اب میری بیٹی کو اس خاندان کا خون ماننے سے انکاری ہوگئے تھے اور تب پہلی بار میرے دل میںیہ احساس جاگا کہ وہ میری بیٹی ہے۔میرا خیال تھاکہ اسے میں حویلی چھوڑ کر واپس لندن چلا جاؤں گا لیکن بابا جان کے خود پسند رویہ نے میرے اندر اشتعال بڑھادیا۔ انہیں یہ گوارا نہیں تھا کہ ان کے اعلیٰ حسب نسب والے خون میں غیر خون کی آمیزش ہو۔ مجھ سے تو وہ متنفر تھے ہی، ماورا کو بھی میری بیٹی ماننے سے انکاری ہوگئے۔ میرے نزدیک بابا جان کا یوں ماورا کو میری بیٹی ماننے سے انکار کرنا کھلم کھلا میری توہین تھی اور یہ توہین میری مردانگی کو گوارا نہ تھی۔میں ماورا کو لے کر لندن آبسا۔

وقت گزرتا چلا گیا اور میں اپنی ذات کے حصار میں بند ہوتا چلا گیا۔ اپنی خود ساختہ نفرت میں غرق میں جان ہی نہ سکا کہ میں کیا کیا غلطیاں کرتا چلا جا رہا ہوں۔ اب بھی میرے شب و روز سارہ کی یاد میں گزرتے تھے۔ اس کی ذات سے ہٹ کر میں نے دوبارہ زندگی میں کسی اور طرف دیکھا ہی نہ تھا۔ حتیٰ کہ ماورا کو بھی میں یہاں لاکر بھول گیا تھا۔ اس کے لیے میں نے ایک مسلمان گورنس کابندوبست کردیا تھا۔ کہنے کو میں اس کی سب ضروریات پوری کرتا تھا۔ بہتر اداروں میں اسے تعلیم دلوا رہا تھا مگر میری نفرت جوں کی توں تھی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ میرے اندر بسنے والا یخ احساسات کا مالک رہبان غفار شاہ مزید سرد گلیشیئرز میں بدلتا چلا گیا۔

حویلی والوں میں سے سبحان بھائی کے بڑے صاحبزادے سلامہ شاہ نے مجھ سے رابطہ رکھا تھا۔ بس وہی ایک شخص تھا جو صحیح معنوں میں میرا حوصلہ بنا تھا۔ کتنے سالوں بعد ایک دن بالکل اچانک وہ مجھ سے ملنے میرے اپارٹمنٹ پر چلا آیا۔ اسے دیکھ کر جیسے نئے سرے سے جی اٹھا۔ اسی دن مجھے دفتری کام کے سلسلے میں کسی دوسرہ شہر میں جانا تھا۔ اسے اپنے گھر میں ٹھہرنے کا کہہ کر میں چلا گیا دو دن کا کام تھا مگر چند گھنٹے بعد ہی سلامہ شاہ نے موبائل پر اطلاع دی کہ ماورا کا نروس بریک ڈاؤن ہوا ہے وہ اسپتال میں ہے حیرت کی بات تھی تب بھی میرے احساسات سرد ہی رہے تھے۔ میں آرام سے اپنا کام مکمل کرکے اگلے دن گھر پہنچا۔ ماورا اسپتال میں ہی تھی۔ سارا دن آرام کرکے میں شام کو اسپتال گیا۔ سلامہ بے چارہ میری محبت و مروت میں وہیں تھا۔ میرے کہنے پر وہ چلا گیا۔ اس کے بعد بھی وہ اکثر ملتا رہتا۔ میرے اصرار پر وہ میرے ساتھ ہی رہنے لگا۔ پھر جیسے ہی اس کا کام ختم ہوا وہ چلا گیا۔ جاتے ہوئے وہ مجھے کہہ گیا کہ وہ بابا جان کو راضی کرنے کی کوشش کرے گا کہ وہ سب پرانی باتیں اور رنجشیں بھلا کر مجھے واپس بلا لیں۔ شاید وہ میرے دل میں حویلی والوں سے متعلق محبت کو اچھی طرح محسوس کر رہا تھا اور میں اس کے جانے کے بعد حویلی والوں کی پیش رفت کا انتظار کرنے لگا۔ سلامہ سے رابطہ اسی طرح قائم تھا۔ اب تو اس کی بدولت بی بی جان، سبحان بھائی، بھاوج وغیرہ سے بھی بات ہونے لگی تھی۔ اکثر خط ملتے تھے اور میں شدت سے واپسی کا منتظر تھا۔ یہاں رہتے ہوئے مجھے یہاں کے معاشرے سے ایک الجھن ضرور رہی تھی۔ ماورا اگرچہ یہیں پلی بڑھی تھی مگر اپنی تمام لاتعلقی کے باوجود میری پوری کوشش تھی کہ اس پر اس معاشرے کے اثرات غالب نہ آئیں۔ اسی لیے تو میں نے اس کے لیے فاطمہ جیسی خاتون کابندوبست کیا تھا۔ فاطمہ خاتون بہت مذہبی تھیں۔صوم و صلوٰۃ کی پابند۔ انہوں نے ماورا کی تربیت بھی انہی خطوط پر کی تھی۔ ماورا اپنے لباس گفتگو انداز و اطوار ہر لحاظ سے ایک مکمل مشرقی لڑکی تھی اور اب میری خواہش تھی کہ اس کی شادی یہاں کرنے کی بجائے پاکستان جاکر کروں۔ سلامہ کو جب سے دیکھا تھا میرے اندر عجیب و غریب سے احساسات پیدا ہونے لگے تھے۔ رفتہ رفتہ میری خواہش جڑ پکڑتی جا رہی تھی کہ کیا ہی اچھا ہو کہ سلامہ شاہ ماورا سے شادی کر لے۔ اس طرح ایک تو ماورا خاندان میں ہی رہ جائے گی دوسرے شایدبابا جان کے دل میں بھی جگہ بن جائے۔ اس عمر میں میری سوچ بہت ٹیپیکل ہوتی جا رہی تھی۔ایک سال کے عرصے میں سلامہ صرف ایک دفعہ لندن آسکا تھا۔ وہ بھی دو دن کے لیے اس نے مجھے بتایا کہ حالات آہستہ آہستہ بدل رہے ہیں۔

پھر چند ماہ بعد ہی اچانک سلامہ شاہ نے فون کرکے بابا جان پر فالج کا اٹیک ہونے کی اطلاع دی۔ اب میں اتنا پتھر دل بھی نہ تھا کہ ان کی بیماری کی اطلاع سن کر بھی نہ آتا۔ نجانے کیوں مجھے یقین تھا

Posted

کہ اب کے بابا جان مجھے نہیں دھتکاریں گے۔میںماورا سمیت وہاں پہنچا۔

فالج کے اٹیک نے بابا جان کی ساری اکڑ ختم کرکے رکھ دی تھی۔ حسب نسب پر فخروغرور کرنا اور جاگیردار ہونے کا سارا زعم صابن کے جھاگ کی طرح بیٹھ گیا تھا۔ انہیں اس حالت میں دیکھ کر میرا دل کانپ گیاتھا۔ میرے دل میں کبھی بھی نظریاتی اختلافات کے سوا کوئی برا خیال نہیں آیا تھا۔

’’مجھے معاف کردے رہبان پتر! میں نے بہت برا کیا۔’’حویلی کے کمرے میں لیٹے وہ کہہ رہے تھے۔ فالج نے ان کے دماغ کو بھی متاثر کیا تھا۔جسمانی طور پر وہ ٹھیک تھے میرے ہاتھ کو اپنے ہاتھوں میں تھامے وہ رو رہے تھے۔

’’معافی مانگ کر مجھے شرمندہ مت کریں…سب قصور میرا ہے…بلکہ میں تو خود شرمسار ہوں…‘‘ اس لمحے میری ساری ناراضگی، برسوں کی ضدی فطرت خود سری و طنطنہ نجانے کہاں جا سویا تھا۔ شاید عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ میری انا بھی سرنگوں ہوتی جا رہی تھی یا پھر بوڑھے باپ کو اس حالت میں دیکھنے کا اثر تھا۔

’’یہ تمہاری بیٹی ہے؟‘‘ میں نے ان کے ہاتھوں پر بوسہ دیا تو وہ مسکرا کر میرے عقب میں کھڑی ماورا کو دیکھ کر پوچھنے لگے۔ کبھی انہوں نے اسے میرا خون ماننے سے انکار کیا تھا اور اب…میں نے سر ہلادیا۔

’’ادھر کیوں کھڑی ہو بیٹی…ادھر آؤ…میرے قریب آؤ…میں تمہارا دادا ہوں۔ مجھ سے نہیں ملو گی…‘‘مجھے حیران کرتے اسے بلایا تو وہ کچھ جھجکتی دھیرے دھیرے قدم اٹھاتی ان کے پاس ہی بیٹھ گئی۔انہوں نے اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر پیار کیا۔

’’میں غلط تھا…مجھے بڑا زعم تھا اپنے حسب نسب پر…مگر اس بیماری نے سب سمجھا دیاہے۔ اﷲ کی لاٹھی بے آواز ہے۔ مجھے معاف کر دینا بیٹی۔‘‘ بابا جان ماورا سے کہہ رہے تھے اور میں خاموش تھا۔

پاکستان آکر میں نے بی بی جان کے اصرار پر مستقل یہیں رہنے کا فیصلہ کرلیاتھا۔ میں لندن کچھ کام نمٹانے گیا تو میرے پیچھے ماورا اپنے ننھیال والوں سے ملنے چلی گئی۔ میں واپس آیا تو وہ بھی آچکی تھی۔ یہاں آکر میں بہت خوش تھا۔ان ہی دنوں ماورا کی نانی اور ممانی اپنے بیٹے شہریار کا رشتہ ماورا کے لیے مانگنے آئیں۔ ابھی میں کوئی فیصلہ بھی نہیں کر پایا تھا کہ بابا جان نے سلامہ شاہ کے لیے بات کی۔میری تو دلی مراد بر آئی تھی۔ سلامہ شاہ ہر لحاظ سے معقول تھا۔ بابا جان نے بات کی تو میں انکار کرنے کی گنجائش نہیں نکال سکا۔میری ہاں کی دیر تھی بابا جان اور سبحان بھائی نے وہیں بیٹھے بیٹھے دونوں کی شادی کی تاریخ عیدالاضحیٰ کے فوراً بعد طے کر دی تھی۔ میں بھی خوش تھا، یہ بوجھ جتنی جلدی اترتا اتنا ہی اچھا تھا۔

سلامہ شاہ سے ماروا کی شادی کا فیصلہ کرکے میں بہت خوش تھا۔ لیکن تین دن پہلے ماورا جس طرح اس رشتے پر انکار کرکے برسوں کی گئی میری کوتاہیاں بھی گنواگئی تھی ان کو یاد کرکے، مجھے اپنے آپ سے بھی نظر ملانا باعث شرم لگ رہا تھا۔

’’میں تو ایک بوجھ کی طرح آپ پر مسلط رہی ہوں۔ بیٹی تو کہیں تھی ہی نہیں اور اب بھی ایک بوجھ کی طرح مجھے اتار پھینکنا چاہتے ہیں۔ بڑا دعویٰ ہے آپ کو کہ آپ نے ماما سے بڑی انمول محبت کی ہے۔ ان کی موت کے بعد بھی ان کی محبت کا عہد نبھاتے رہے ہیں۔‘‘

ماورا کی آواز میرے دماغ میں گھس رہی تھی۔ہر طرف صرف انہی لفظوں کی بازگشت تھی۔

’’مگر مجھ سے پوچھیے کہ آپ دراصل کیا ہیں؟ آپ تو انسان بھی نہیں ہیں۔ باپ کیا بنتے؟‘‘ ہمیشہ میری سب زیادتیاں چپ چاپ سہنے والی میری بیٹی کیسے بلک بلک کر رو رہی تھی۔

’’میرے ساتھ نا انصافیاں کیں… اور اب چاہتے ہیں کہ آپ ہی کی طرح کے ایک جنونی شخص سے شادی کر لوں…نہیں پاپا…ایسا کبھی نہیں ہوگا… نفرت کرتی ہوں اس سے، اس خاندان سے اور آپ سے بھی…پاپا!…میں آپ کو اس زیادتی پر کبھی معاف نہیں کروں گی…‘‘

اس کی آواز کی بازگشت تین دن سے میرا محاسبہ کر رہی تھی۔میری جانب،سے میرے رویوں سے بد دل ہو کر وہ اپنی زندگی ہی ختم کر دینا چاہتی تھی۔وہ تو اگر بروقت سلامہ شاہ اس کے روم میں نہ چلا جاتا تو شاید اس وقت اس کی قبر پر بیٹھا میں پچھتاوے کے آنسو بہا رہا ہوتا۔ میری آنکھوں سے آنسو روانی سے بہہ رہے تھے۔

’’اے اﷲ مجھے معاف کر دے…میں تیرا گناہ گار بندہ بہت ناشکرا تھا۔ ساری عمر تیرے حکم سے سرتابی کی…تیری رضا سے منہ موڑا…مجھ سے میری زندگی چھین لے مگر میری بیٹی کو تندرستی دے دے…مجھے معاف کر دے۔ اے میرے پروردگار معاف کردے…‘‘وضو کرکے آنے کے بعد جائے نماز بچھا کر میں رب کے حضور اپنی غلطیوں پر آنسو بہا رہا تھا۔ بے شک وہی خطاؤں سے

Posted

درگزر کرنے والا ہے اور گناہ گاروں کی بخشش کرنے والا ہے۔وہ ضرورمجھ گناہ گار کی سنے گا۔

vvv

میں ماروا ہوں رہبان شاہ کی اکلوتی بیٹی اور غفار شاہ کی پوتی۔تھوڑی دیر پہلے سلامہ شاہ میرے سرہانے بیٹھا بہت آزردہ سا تھا۔ وہ مجھے ٹرینکو لائزر کے زیرِ اثر جان کر اپنے رویوں پر پشیمانی کا اظہار کر رہا تھا۔ میرے ہاتھ کی پشت پر اس کے ہونٹوں کا لمس ابھی بھی باقی تھا۔ میں جو اس سے ہمیشہ نفرت کرتی چلی آرہی تھی اس وقت آنکھیں کھول کر اس کی جانب دیکھنے کی ہمت بھی نہیں کرپائی تھی۔ آج پہلی دفعہ مجھے اس کی محبت کی شدت و گہرائی کا اندازہ ہوا تھا، ورنہ اپنے دل میں نفرت کی دنیا بسائے میں کچھ اور محسوس کرنا ہی نہیں چاہتی تھی۔ اس کا آزردہ سا لہجہ میرے دل و دماغ پر اپنے نقش چھوڑ گیا تھا۔

’’آئی ایم سوری ماورا… اگر مجھے علم ہوتا کہ تمہاری نفرت کے پیچھے یہ سب کارفرما ہے تو میں کبھی تمہیں زچ کرنے کی کوشش نہ کرتا۔ میں تو یہی سمجھ رہا تھا کہ تم میرے گزشتہ رویے کی وجہ سے مجھے قبول نہیں کر رہی۔ میری محبت کو ٹھکرا رہی ہو۔تم ایک دفعہ اپنے دل کی بھڑاس میرے سامنے نکالتی تو سہی…اب میں اتنا خودسر و جنونی بھی نہیں ہوں۔ میں تم سے صرف محبت ہی نہیں کرتا، تمہاری عزت بھی کرتا ہوں ورنہ بارہا تمہارے رویے نے مجھے مشتعل کیا اور بارہا میرا دل حد سے گزر جانے کو چاہا…اگر تمہارے احساسات کا پاس نہ ہوتا تو نجانے کیا کرگزرتا۔‘‘

اس کے لفظوں کی پشیمانی میری سماعت میں گھلتی جا رہی تھی۔ کہیں سے کوئی بازگشت بار بار میرے حواس کو جھنجوڑ رہی تھی۔

کسی پتھر کی مورت سے محبت کا ارادہ ہے

پرستش کی تمنا ہے عبادت کا ارادہ ہے

میں نے بے بسی سے اپنے ہاتھ کو دیکھا وہاں ان دیکھا لمس ابھی بھی میرے ہاتھ کو دہکا رہا تھا۔آنسو تواتر سے بہہ رہے تھے۔ وہ تو مجھے سویا ہوا جان کر سب کہہ گیا لیکن میں اپنے آپ کو اب پہلے والی ماورا نہیں بنا پا رہی تھی۔ شاید پاپا کے سامنے سب کچھ کہہ کر رو دھو کر اپنے دل کا درد بہا کر اب سب احساسات منجمد ہوگئے تھے، کوئی فیلنگز نہیں رہی تھیں۔

بار بار ذہن پیچھے کی طرف گردش کر رہا تھا۔ ڈاکٹرز کا کہنا تھا کہ میرا ذہن نارمل ہے مگر شاید پاپا کی طرح میں بھی شدت پسند تھی جو اپنے آپ کو ماضی میں سفر کرنے سے نہیں روک پا رہی تھی۔ کافی دیر تک خود پر کنٹرول کرتے اور بے بس ہوتے، میں نے اپنے آپ کو گزشتہ یادوں کے حوالے کر دیا۔ جہاں میرا ماضی تھا۔

پاپا کا تعلق ایک جاگیردار گھرانے سے تھا۔ ماما سے محبت اور پسند کی شادی کی پاداش میں انہیں اپنے خاندان سے قطع تعلق کر دیاگیاتھا اور پھر ماما کی وفات اور میرا دنیا میں آنا ان کی نفرت کا سبب بنا تھا۔ میرا بچپن نانی اماں کے گھر میں گزرا تھا۔ انہوں نے ہی میرا نام ماورا رکھا تھا۔ انہیں ماما سے بہت محبت تھی، ماما کی وفات کے بعد پاپا کی نفرت کو دیکھتے ہوئے انہوں نے مجھے اپنے پاس رکھ لیا تھا اور پھر دس سال میں ان کے پاس رہی۔

ماما کل سات بہن بھائی تھے۔ بڑی خالہ آنسہ پھر ماموں زبیر ان کے بعد ماموں یحییٰ اور خالہ فوزیہ تھیں پھر دو ماموں عمران اور سیف الرحمٰن تھے سب سے آخر میں ماما تھیں۔ ماموں زبیر کی بیگم شہلا ممانی ان کے بعد آسیہ مامی، طیبہ اور عظمیٰ تھیں۔ سب کے ہی بچے تھے۔ سب ہی گھر بار والے تھے۔ مامی کی عدم موجودگی پاپا کی عدم دلچسپی نے مجھے بچپن سے ہی بہت حساس بنادیا تھا۔ پھر نانی کے گھر میں سب کے رویے کو دیکھتے ہوئے میرے اندر شدید قسم کا کمپلیکس پیدا ہوگیا تھا۔ چاروں ممانیاں اور ان کے بچے ہر لمحہ مجھے یہ احساس دلانے کے لیے کافی تھے کہ میں ان کے گھر رہ رہی ہوں۔ ان کے روپے پر پل رہی ہوں۔ چاروں ممانیاں ایک دوسرے سے برتری لینے کے چکر میں رہتی تھیں۔ ایسے میں اکثر مجھے بھی ہرٹ کر جاتی تھیں لیکن یہاں میرے لیے سب سے بڑا اور مضبوط سہارا نانا اور نانی ہوتے تھے۔ مجھ سے بے پناہ محبت کرتے تھے۔ اکثر میری خاطر ممانیوں اور ان کے بچوں سے بھی الجھ پڑتے تھے۔ بارہا ممانیوں کے طنز اور پاپا کے رویے پر آزردہ ہو جاتی تھی۔

ایک دن نانو اچانک بیمار پڑگئیں اور پھر وہ اکثر بیمار رہنے لگیں۔ چاروں ممانیاں ایسے میں ان پر زور ڈالنے لگیں کہ وہ پاپا کو بلوا کر مجھے ان کے حوالے کریں۔ پہلے پہل تو ایسا کہنے پر نانو انہیں چپ کرادیتی تھیں مگر پھر رفتہ رفتہ نانو بھی خاموش ہوگئیں۔ نانو کو ہارٹ پرابلم رہنے لگی تھی۔ اسی لیے وہ میری جانب سے فکرمند تھیں اگر انہیں کچھ ہوگیا تو میرا کیا بنے گا۔ ممانیاں تو کسی طور مجھے برداشت نہیں کریں گی۔ ایک دن انہوں نے مجھے بتایا کہ انہوں نے پاپا سے رابطہ کیا ہے وہ بہت جلد مجھے لینے آئیں گے میں یہ جان کر بہت خوش ہوئی۔یہ جان کر نئے سرے سے جی اٹھی کہ اب میں پاپا کے ساتھ رہوں گی پھر کتنے دنوں کا رہنے والا انتظار ایک دن سچ مچ ختم ہوگیا۔ میں لان میں ایک طرف بنی کیاری میں ٹوٹے مرجھائے پتے چن رہی تھی جب نانا کی گاڑی اندر داخل ہوئی۔ میں نے دیکھا کہ ساری

Posted

ممانیاں ان کے بچے اور ماموں نانو سمیت لان میں ہی کرسیاں ڈالے بیٹھے ہوئے تھے۔ سب ہی متوجہ ہوگئے۔ گاڑی میں سے نانا ابو کے ساتھ جو شخص برآمد ہوا اسے دیکھ کر میں وہیں ساکت ہوگئی۔

’’پاپا…‘‘

جس شخص سے میں صرف تصویروں کی حد تک واقف تھی آج انہیں سامنے مجسم دیکھ کر مجھے یقین نہیں آرہا تھا۔ میں جہاں تھی وہیں ساکت کھڑی رہی۔ اتنی ہمت نہ ہو سکی کہ آگے بڑھ کر پاپا سے لپٹ جاؤں۔ وہ فرداً فرداً سب سے مل رہے تھے۔

’’ماورا…‘‘نانی کی آواز پر میں جیسے خواب سے چونکی۔

’’جی…‘‘

مٹی سے اٹے۔ ہاتھوں کو جھاڑتے ہوئے میں نے خود کو سنبھالا۔

’’ادھر آؤ ماورا…ان سے ملو یہ تمہارے پاپا ہیں۔‘‘ نانا جان نے بھی بلایا میں ان کے پاس آگئی۔ وہ بھی مجھے دیکھ رہے تھے۔ ان کی آنکھوں میں سرد سے جامد تاثرات تھے۔ مجھ پر سرسری سی نظر ڈالی تھی۔

’’رہبان یہ ماورا ہے…یہ تمہاری بیٹی ہے۔‘‘ نانو نے پاپا کو بتایا۔

’’السلام علیکم پاپا!…‘‘ ان کے سرد سے انداز پر میں جھجک گئی تھی۔ انہوں نے سر ہلادیا۔

’’کیسی ہیں آپ؟…‘‘نہ ہی کوئی پیار، نہ ہی کوئی محبت بھرا اظہار، تکلف کے لبادے میں لپٹا ہوا یہ استفسار، میرے احساس کو بیدار کر گیا۔

’’کیا باپ ایسے ہوتے ہیں؟‘‘ بھیگی آنکھوں سے انہیں دیکھتے میں نے سوچا۔

وہ مجھ پر سرسری نظر ڈالنے کے بعد دیگر لوگوں سے مصروفِ گفتگو ہوگئے اور میرے اندر جتنی خواہشوں و آرزوؤں نے سر اٹھایا تھا وہ اپنی موت آپ مرگئیں۔

رات کو سب ہی کمروں میں جاچکے تھے۔ میں پاپا کے کمرے میں آگئی۔ میرے اندر کی دس سالہ بچی اپنے باپ سے باتیں کرنے، اپنی تعلیم کے بارے میں بتانے کو مچل رہی تھی۔

وہ کتاب پڑھ رہے تھے۔ مجھے کمرے میں داخل ہوتے دیکھا تو رک گئے۔

’’آپ اس وقت؟‘‘ وہ شاید اس وقت مجھے دیکھ کر حیران ہوگئے تھے۔

’’وہ پاپا میں…‘‘ میں جھجک گئی۔

’’کچھ کہنا ہے آپ کو…‘‘ میرا خیال تھا کہ وہ مجھے اپنے پاس بلا کر ڈھیروں باتیں کریں گے۔ خوب پیار کریں گے مگر ان کا سرد انداز دیکھ کر میں حیران رہ گئی۔

’’جی…نہیں…‘‘ میں نے نفی میں سر ہلایا تھی میرا چھوٹا سا دل بہت دکھی ہوا۔

’’تو پھر اپنے کمرے میں جاکر سوجائیں۔‘‘ وہ کتاب کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے سرد انداز اور سخت لہجے میں کہہ رہے تھے۔میں ایک دم پلٹی اور باہر نکل آئی اوراپنے کمرے میں آکر پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔ میرے اندر جو برسوں سے ایک احساس پل رہا تھا باپ کے سینے پر سر رکھ کر باتیں کرنے کا وہ مزید بڑھتا گیا اور پھر ساری رات میری آنسوؤں میں کٹ گئی۔ میں اپنی دس سالہ عمر سے بڑی باتیں سوچ رہی تھی۔

میرے دل میں پاپا کے لیے بہت محبت تھی مگر ان کی سردمہری سے کئی شکوے بھی جاگ گئے۔

’’وہ مجھے ناپسند کرتے ہیں۔ مجھ سے محبت نہیں کرتے۔ میری صورت بھی دیکھنا نہیں چاہتے۔‘‘یہ سوچیں مجھے پاگل کر دینے کو کافی تھیں۔

ہم نانی اماں کے ہاں دو دن رہے پھر پا پا مجھے وہاں سے لے کر گاؤں چلے آئے۔ بہت بڑی شاند حویلی تھی۔ وہاں سب لوگ بہت خوش ہو کر پاپا سے مل رہے تھے۔ بچے بھی تھے۔ میرے لیے سب انجان تھے۔ وہ مجھے لے کراپنی اماں جی کے پاس چلے آئے جو بڑے سے تخت پر براجمان تھیں۔ پاپا کو دیکھ کر وہ والہانہ انداز میں اٹھ کھڑی ہوئیں۔

’’السلام علیکم بی بی جان!…‘‘پاپا ان کے سامنے جھک گئے۔ انہوں نے پاپا کا سر چوم کر گلے سے لگالیا۔

Posted

’’کتنا تڑپایا ہے تو نے رہبان اپنی ایک ضد اور خواہش کی خاطر…کیا سے کیا بنا لی ہے زندگی تو نے… ایسے بھی کوئی اپنوں سے خفا ہو جاتا ہے۔ بی بی جان رو رہی تھیں اور پاپا بالکل خاموش تھے۔

’’برسوں بعد اس ماں کی یاد کیسے آگئی تجھے…‘‘دوپٹے سے آنکھیں صاف کرتے ہوئے انہوں نے پاپا کو شکایتی نظروں سے دیکھا۔

’’میں تو بی بی جان صرف ناراض ہوں…سارے رشتے ناتے تو آپ لوگوں نے خود ختم کر لیے ہیں۔ کیا میرا دل نہیں تڑپتا آپ سے ملنے کو بھائی اور زہرہ بھابھی بچوں کو دیکھنے کو بہنوں کے پاس جانے کو مگر بابا جان نے بھی حد کی ہے پھر میں کس منہ سے اور کیا لینے آجاتا اور آج بھی…‘‘

’’چھوڑ چل پچھلی باتوں میں کیا رکھا ہے۔ آج تو خود چل کر آیا ہے۔ یہی کافی ہے میرے لیے۔‘‘

’’یہ کون ہے؟‘‘ میری طرف دیکھتے ہوئے انہوں نے پاپا سے پوچھا۔

’’یہ ماورا ہے۔ میری بیٹی…‘‘ ایک دم پاپا کا انداز سرد ہوگیا یا شاید مجھے محسوس ہوا۔

’’اچھا… ماشاء اﷲ بڑی پیاری بچی ہے بالکل ماں جیسی ہے صرف ایک دفعہ دیکھا تھا اسے جب تیرے ساتھ آئی تھی ہو بہو وہی ہے۔ ادھر آؤ بیٹی…‘‘انہوں نے پیار سے کہتے ہوئے بازو سے تھام کر مجھے سینے سے لگالیا۔

’’بابا جان اور سبحان بھائی کہاں ہیں؟‘‘ پاپا نے پوچھا۔

’’تیرے ابا جی تو دو دن سے اپنے کسی دوست کے ساتھ گئے ہوئے ہیں اور سبحان پتر صبح کا زمینوں پر نکلا ہوا ہے…آنے ہی والا ہے…‘‘

’’اماں جی! میں صرف چند دن کی چھٹی پر آیا ہوں۔آپ کو علم ہوگا کہ ماورا اپنی نانی کے پاس ہی رہتی تھی۔ وہ اب بیمار ہیں اسی لیے بلوا کر اسے میرے ساتھ روانہ کر دیا ہے۔ لندن میں تنہا ہوتا ہوں۔ میں اسے کیسے پالوں گا…اسی لیے حویلی لے آیا ہوں۔‘‘

وہ بی بی جان کو بتا رہے تھے اور مجھے جان کر حیرت ہو رہی تھی۔

’’مجھے تو پتر کوئی اعتراض نہیں۔ تمہاری بیٹی ہے سو بسم اﷲ پر تیرے ابا کو کون سمجھائے وہ ابھی تک اپنی ضد پر اڑے تجھے نہ دیکھنے کی ٹھانے ہوئے ہیں۔ اپنے ابا سے پوچھ لینا… تین چار دنوں میں لوٹ آئیں گے۔‘‘

’’جی اچھا…میں بات کر لوں گا…‘‘ پاپا نے بھی حامی بھری۔

حویلی میں بی بی جان کے علاوہ پاپا کے بڑے بھائی سبحان انکل بھی رہتے تھے۔ ان کے کل پانچ بچے تھے۔ صبا آپی، سلامہ شاہ، ام رومان، علی اور رضا۔صبا آپی، ام رومان اور سلامہ شاہ تینوں مجھ سے بڑے تھے جب کہ علی میرا ہم عمر تھا اور رضا مجھ سے چھوٹا تھا۔ ان کی والدہ کا نام زہرہ بیگم تھا جنہیں سب اماں جی کہتے تھے۔ بی بی جان، اماں جی سبحان انکل کے علاوہ ان کے بچے بھی بہت اچھے تھے مجھ سے بڑا پیار کرتے تھے لیکن ان سب میں سلامہ شاہ کچھ بد دماغ سا انسان تھا۔ جب بھی سامنا ہوتا عجیب نظروں سے گھورنے لگتا تھا۔مجھ سے عمر میں کافی بڑا تھا۔ ڈیل ڈول اور جسامت کا بھی اچھا خاصا تھا۔ چہرے پر موجود ہلکی ہلکی مونچھیں اسے کچھ دلکش چہرے کا مالک بنادیتی تھیں۔ بہرحال جو بھی تھا وہ مجھے ذرا بھی اچھا نہیں لگا۔ پاپا کے رویے سے میں بدظن ہو چکی تھی مگر ان لوگوں کے پرخلوص اور محبت بھرے رویے نے پھر سے مجھے پرامید بنادیاتھا۔ میں اپنوں میں تھی اس احساس نے میرے اندر نئی زندگی دوڑادی تھی۔

بابا جان ابھی تک حویلی نہیں لوٹے تھے۔ ہمیں یہاں آئے ہوئے تین دن ہوگئے تھے۔پاپا سارا دن حویلی سے باہر گزارتے نجانے کہاں کہاں گھومتے رہتے تھے۔ پاپا کا سن کر میری دونوں پھوپھیاں بھی آگئی تھیں۔ وہ دونوں بہت اچھی تھیں۔ اتنے دنوں میں، میں سب کے ساتھ بہت اچھی طرح گھل مل گئی تھی۔ لگتا ہی نہیں تھا کہ میں ان لوگوں کے لیے اجنبی ہوں۔ مجھے یہاں کسی سے خوف نہیں آتا تھا۔ سوائے سلامہ شاہ کے۔ نجانے کیوں مجھے دیکھتے ہی اس کا اچھا خاصا پرکشش چہرہ بگڑ جاتا تھا۔ نظروں میں پاپا کی ہی طرح کی سردکیفیت ہوتی تھی۔ زبان سے ابھی تک اس نے کچھ نہیں کہا تھا مگر مجھے اس سے بڑا ڈر لگنے لگا تھا۔ ساتھ ساتھ نفرت سے بھی ہونے لگی تھی۔ نجانے کیوں مگر میری بچپن سے ہی یہ عادت پختہ ہوگئی تھی کہ کوئی مجھے ایک دفعہ نفرت سے پکارتا تھا تو میرے دل میں اس کے لیے ہزار درجے نفرت پیدا ہوجاتی۔ ممانیوں کے ساتھ بھی یہی حال تھا لیکن یہاں۔

ام رومان مجھ سے تین سال بڑی تھی اس کے باوجود ہماری پکی دوستی ہوگئی تھی۔وہ تھی بھی بہت اچھی اور پیاری ویسے تو صبا آپی بھی بہت خوبصورت تھیں مگر وہ تو عمر میں سلامہ شاہ سے بھی دو تین سال بڑی

Posted

تھیں۔ اسی لیے ان سے شرم آتی تھی۔ علی اور رضا بھی میرے دوست بن گئے تھے۔ ہم گھنٹوں اکٹھے مل کر کھیلتے تھے۔ یہاں آکر سچ مچ میں بہت خوش تھی۔

اگلے دن بابا جان بھی آگئے۔ پاپا، سبحان انکل کے ساتھ کہیں گئے ہوئے تھے۔ پاپا کی آمد اور مقصد جان کر وہ بڑے چراغ پا ہوئے۔ مجھے اور ماما کو برا بھلا کہتے رہے۔ پاپا حویلی لوٹے تو انہوں نے انہیں اپنے پاس بلا لیا اور ساتھ مجھے بھی۔

’’کیا لینے آئے ہو اب تم یہاں…کیا تعلق ہے تمہارا ہم سے۔‘‘میری طرف حقارت سے دیکھتے ہوئے انہوں نے کہا تو نجانے کیوں پاپا کا چہرہ ایک دم سرخ ہو گیا۔ وہاں کمرے میں سبھی تھے۔ میں پہلی دفعہ انہیں دیکھ رہی تھی۔ ان کے الفاظ سن رہی تھی۔ جس طرح غرور نخوت کا اظہار کرتے انہوں نے کہا مجھے وہ بہت برے لگے۔سلامہ شاہ کی ہی طرح زہر بھرے۔

’’گستاخی معاف بابا جان! جس بات کا آپ کو غصہ ہے وہ تو کب کی منوں مٹی تلے جا سوئی ہے۔ دس سال ہوگئے ہیں اس کے باوجود آپ کی نفرت جوں کی توں برقرار ہے۔ اب تو معاف کردیں…‘‘پاپا نے کہا۔ تو جواباً بابا جان استہزائیہ مسکرائے۔

’’چلو معاف کر دیتا ہوں مگر ہماری بات وہی ہے۔ جس عورت کو میں خاندان کی بہو تسلیم کرنے پر راضی نہ تھا اس کی بیٹی کو خاندان میں کیسے جگہ دے دوں…تم اسے جہاں سے لائے ہو وہیں واپس چھوڑ تو ہم کچھ سوچیں گے…میں اپنے اعلیٰ حسب نسب والے خون میں غیر خون کی ملاوٹ قطعی برداشت نہیں کر سکتا…‘‘ ان کے نخوت بھرے انداز میں مطلق فرق نہیں آیا تھا۔

’’باباجی… یہ آپ زیادتی کر رہے ہیں۔ یہ میری اور سارہ کی بیٹی ہے۔ میرا خون ہے۔ آپ کے رد کرنے سے حقیقت بدل نہیں جائے گی…ویسے بھی اب میں اسے وہاں نہیں چھوڑ سکتا۔ دس سال انہوں نے اسے سنبھالا ہے۔ اب اسے اپنے خاندان کی ضرورت ہے۔‘‘

پاپا اپنے بابا جان سے کہہ رہے تھے۔انہوں نے سر جھٹکا۔

’’تو فراہم کرو تم اسے خاندان کی ضرورت، یہ میری حویلی ہے کوئی یتیم خانہ نہیں کہ میں اس جیسی لڑکیوں کو رکھتا پھروں، نہیں سنبھالی جاتی تم سے تو کہیں چھوڑ آؤ مجھ سے امید مت رکھو…میں نے جو کہہ دیا ہے وہ بدلے گا نہیں…اگر مجھ سے یا اس حویلی کے کسی فرد سے تعلق رکھنا چاہتے ہو تو یہی شرط ہے میری۔ ورنہ میری حویلی کے دروازے تمہیں کبھی روکیں گے نہیں۔‘‘

’’شاہ جی…‘‘ بی بی جان اس دو ٹوک فیصلہ کن انداز پر تڑپ اٹھیں۔

’’بابا جان آؑپ…‘‘سبحان انکل نے کچھ کہنا چاہا تو انہوں نے ہاتھ اٹھا کر روک دیا۔

’’نہیں سبحان ایسی نافرمان اولاد کے لیے میری حویلی میں کوئی گنجائش نہیں۔ اس نے ہمیشہ اپنی من مانی کی ہے۔ برسوں پہلے میںاسے اپنی زندگی سے نکال چکا ہوں۔ یہ اتنے سالوں بعد آیا ہے میں معاف کر بھی دوں مگر اس لڑکی کو جگہ نہیں دوں گا۔ فیصلہ اس کے اپنے ہاتھ میں ہے جو میں نے کہنا تھا کہہ دیا۔‘‘

میں خاموش تماشائی بنی ایک طرف کونے میں کھڑی تھی جب کہ میرا دل اندر ہی اندر کانپ رہا تھا کہ اگر پاپا نے مجھے چھوڑ دیا تو؟

’’آپ نے ہمیشہ میری مخالفت ہی کی ہے۔ چاہے وہ معاملہ میری تعلیم کا ہو یا شادی کا۔ ہمیشہ اپنی مرضی ٹھونسنے کی کوشش کی ہے۔ہمارے درمیان صرف نظریاتی اور سوچ کی حد تک اختلافات تھے آپ نے ہمیشہ اس بات کو اپنی انا کا مسئلہ سمجھا۔ ہمیشہ مجھ سے نفرت سے پیش آئے۔ برسوں بعد میں یہاں آیا ہوں اس خیال سے کہ آپ کا دل پسیج گیا ہوگا۔ پتھر میں جونک لگ گئی ہوگی۔ شاید مجھے اپنے سامنے دیکھ کر دل میں تھوڑی بہت گنجائش نکل آئے۔ مگر افسوس…میں نے پسند کی شادی کرکے کوئی غلطی نہیں کی۔غلطی تو اب کی ہے کہ آپ کے سامنے آیا ہوں…جب میرے لیے آپ کے دل میں گنجائش نہیں بنی تو میری اولاد کے لیے خاک بنے گی۔میں بہت بڑی بھول میں تھا۔‘‘وہ غصے سے کہہ کر اور میرا بازو پکڑ کر وہاں سے نکل آئے تھے۔

رات تک ہم نے حویلی چھوڑ دی تھی۔ پاپا مجھے لے کر اپنے کسی دوست کے گھر آئے تھے۔ چند دن ہم وہاں رہے تھے۔ پاپا کا رویہ اگرچہ وہی تھا مگر اب میں مطمئن تھی کہ میں پاپا کے ساتھ ہوں۔ اس دوران پاپا میرے پاسپورٹ اور ویزہ وغیرہ کا انتظام کرتے رہے۔

پھر ہم لندن آگئے۔ یہاں آتے ہی پاپا نے سب سے پہلے میرا ایڈمیشن کروایا۔ پھر میرے لیے ایک مسلمان گورنس کا بھی بندوبست کر دیا۔ وہ خاتون بہت پڑھی لکھی اور مذہبی تھیں۔ شادی کے بعد شوہر کا انتقال ہو جانے کے بعد بالکل تنہا تھیں۔کوئی اولاد بھی نہیں تھی۔ پاپا کے دوست کی بہن تھیں۔ پاپا میری طرف سے فکرمند تھے تو وہ میرے ساتھ رہنے پر رضامند ہوگئیں اور اس طرح مجھے بالکل ایک ماں کی طرح انہوں نے پالا تھا۔ میرا خیال رکھا تھا۔ وہ بہت محبت کرنے والی خاتون تھیں۔ پاپا کے متعلق سب کچھ جانتی تھیں۔ پاپا کا رویہ میرے ساتھ اب بھی ویسا ہی ہوتا تھا۔ سرد مہری لیے ہوئے

Posted

اگرچہ وہ مجھ سے لاکھ لاتعلق رہتے تھے مگر کبھی ضروریات سے بے خبر نہیں ہوئے تھے۔ تعلیم سے لے کر ہر چیز مجھے وقت پر مہیا کی۔ وہ بلاشبہ ایک بہت اچھے باپ تھے، اگر کبھی اپنے خول سے نکل کر میرے ساتھ محبت بھرا رویہ رکھ لیتے تو۔ وقت آہستہ آہستہ گزرنے لگا۔ میں نے پہلے اسکولز، پھر کالج اور اس کے بعد یونیورسٹی تک کا سفر بڑے آرام سے طے کیا تھا۔ اس دوران بارہا میرا جی چاہا کہ میں پاپا کے سرد رویے پر چیخ اٹھوں۔ انہیں جھنجوڑ دوں۔ وقت کے ساتھ ساتھ بجائے کمی آنے کے پاپا کے انداز و اطوار میں شدت ہی آئی تھی۔ برملا ناپسندیدگی کا اظہار کرنے لگے تھے۔ میں دس سالہ بچی کی طرح ہر وقت ان کے چہرے کی طرف دیکھتی رہتی تھی کہ شاید کوئی مسکراہٹ میرے نام کی بھی ہو۔ کوئی جذبہ میرے وجود سے بھی متعلق ہو اور ہر بار ناکام رہتی تھی۔میں گھنٹوں پاپا کے رویے پر پُرملال و رنجیدہ رہتی تھی۔ رفتہ رفتہ میرے دل و دماغ میں بھی ان کے خلاف غبار بڑھنا شروع ہو گیا۔محبت کے ساتھ ساتھ نفرت بھی جگہ پانے لگی۔ بارہا ایسا ہوا کہ میں شدید بیمار ہوئی مگر ان کے اندر احساس تک نہ جاگا۔ کبھی ایک محبت بھر اجملہ نہ بولا…باپ پتھر بھی ہوتے ہیں مجھے یقین کرنا پڑا۔ گزرتے وقت میں پاپا کے خاندان نے پلٹ کر خبر تک نہ لی۔ سوائے ایک فرد کے اور وہ سلامہ شاہ تھا جس کا نام ابھی بھی میرے اندر نفرت کا احساس جگا دیتا تھا۔ اکثر اس کی ٹیلیفون کالز، خطوط اور گفٹس موصول ہوتے رہتے تھے جو سب کے سب پاپا کے نام ہوتے تھے۔

مجھے نہ اس شخص سے کوئی سرور کار تھا اور نہ ہی اس کے خطوط سے۔میرے لیے اس کا پورا خاندان ہی قابلِ نفرت تھا گزرے وقت میں،میں نے لوگوں سے بے پناہ نفرت محسوس کی تھی۔ بہت شدت سے نفرت کا زہر بویا تھا اپنے اندر۔ سلامہ شاہ اور اس کے غرور کے پہاڑ بابا جان دونوں کے الفاظ ہمیشہ بازگشت بن کر میرے دل و دماغ پر کچوکے لگاتے رہتے تھے۔ ان دونوں کے لہجوں سے چھلکتی گہری نفرت و ناگواری اب بھی میرے تصور میں زندہ تھی۔ سلامہ شاہ کی آنکھوں سے عیاں ہوتی وحشت میرے وجود میں ابھی تک ایک عجب سی آگ جلادیتی تھی مگر ان سب کے باوجود میں پاپا کے رویے سے بدظن ہو کر کوئی انتہائی قدم نہ اٹھاسکی۔ پاپا پہلے تو مجھے ماما کی موت کا ذمہ دار ٹھہراتے تھے اب تو اپنے خاندان کی جدائی کا سبب بھی مجھے سمجھنے لگے تھے اور میں بے پناہ محبت کے ساتھ نفرت کا پودا پروان چڑھاتے ان سے ان کی کوتاہیوں کا سبب نہ پوچھ سکی۔ حتیٰ کہ وقت بدلنے لگا۔

vvv

میں برسوں نفرتوں میں جیا، میں نفرتوں میں مرا

بڑی آرزو تھی میری کوئی چاہتا مجھے بھی

اپنے کمرے سے نکل کر لاؤنج کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی میں رک گئی۔

’’ہاں تو پھر کیا کروں میں…اپنے خاندان کی جدائی اب میرے لیے ناسور بنتی جا رہی ہے۔ماورا اگر سارہ کی بیٹی اور میرا خون نہ ہوتی تو کبھی اتنی طویل سزا نہ جھیلتا…‘‘

پاپا فون پر کسی سے کہہ رہے تھے اور میرا وجود سناٹوں کی زد میں تھا۔ وہ بارہا اپنے رویوں، لفظوں سے مجھے یہ احساس دلا چکے تھے کہ میں ان کے لیے قابلِ نفرین ہوں مگر اب یوں دیگر لوگوں سے بھی اپنی نفرت بیان کرنے لگے کہ مجھے یقین نہیں آرہا تھا۔باپ کا یہ کون سا روپ ہے میں ساکت تھی۔ میرا ذہن ماؤف ہو رہا تھا۔

’’یہ ناممکن ہے…بابا جان کے حقارت بھرے جملوں نے مجھے مجبور کر دیا تھا کہ میں اسے لے کر یہاں آگیا ورنہ سارہ کے بعد کبھی کسی اور چیز کی خواہش نہیں رہی۔ اب بھی صرف اور صرف اس لیے برداشت کر رہا ہوں کہ سارہ کی بیٹی ہے… ورنہ۔‘‘

نجانے دوسری طرف کون تھا۔ کس سے کہہ رہے تھے مگر ان کا ایک ایک لفظ میرے دل میں ترازو ہوتا جا رہا تھا۔ وہ صرف اپنے باپ کی ضد میں مجھے یہاں لے کر آئے تھے۔یہ احساس ہی میری محبت کا خون کر دینے کو کافی تھا۔ اتنی نفرت…اتنی ناگواری…میں بہتی آنکھوں سے انہیں دیکھ رہی تھی جب کہ میرے دل میں طوفاں برپا تھا۔

’’یار کیا بتاؤں میں…زندگی کے اس موڑ پر آکر لگتا ہے سب کچھ بے کار ہے۔ماورا کی وجہ سے میں سب چھوڑنے پر مجبور ہوا تھا ورنہ بابا جان تو مجھے ابھی حویلی میں رکھنے پر راضی ہیں۔ اب تو سلامہ شاہ بھی کہہ رہا تھا کہ وہ بابا جان کو راضی کرے گا۔اﷲ کرے ایسا ہی ہو…‘‘ابھی وہ مزید گفتگو میں مصروف تھے مگر میرے اندر مزید سننے کی سکت نہ تھی۔ ایک دم وہاں سے ہٹ آئی اور پھر اپنے بستر پر گر کر کتنی دیر تک ماما کی موت کا ماتم کرتی رہی۔ اﷲ سے شکوہ کرتی رہی۔

اگلے دو دن تک میری طبیعت کافی خراب رہی۔ میں بالکل گم صم ہوگئی۔ فاطمہ ماما بارہا مجھ سے دریافت کرچکی تھیں مگر میری چپ نہ ٹوٹی۔ اکثر شدید ڈپریشن میں مجھ پر یہ کیفیت طاری ہو جاتی تھی مگر یہ کیفیت کبھی طویل نہیں ہوتی تھی۔ چند گھنٹے کڑھنے کے بعد میں اپنے آپ کو نارمل کر لیتی تھی مگر اب… مجھے بخار اور سردرد بھی تھا۔فاطمہ ماما کے بے پناہ اصرار پر میں ڈاکٹر کے پاس چلی آئی چیک اپ

Posted

کے بعد اس نے تنبیہہ کی کہ اگر میرا ڈپریشن ختم نہ ہوا تو نتیجتاً میرا نروس سسٹم متاثر ہو سکتا ہے مگر میں کیا کرتی یہ حساسیت میرے اختیار میں نہیں تھی۔ میرا سب سے بڑا مسئلہ پاپا کی نفرت ہی تو تھی۔ دو دن آف کرکے تیسرے دن میں یونیورسٹی چلی آئی۔ میرا سارا وقت یونیورسٹی میں خالی الذہنی کیفیت میں ہی گزرا۔ یونیورسٹی کے بعد طبیعت ایک دم بگڑی تھی چکر پر چکر آرہے تھے۔ میں فوراً گھر پہنچی۔ دروازہ بند کرکے آگے بڑھی تو وہاں لاؤنج کے صوفے پر پاپا اور ان کے ساتھ بیٹھے شخص کو دیکھ کر میرے قدم وہیں رک گئے۔ اگر زندگی میں ایک دفعہ اس شخص کو نہ دیکھ چکی ہوتی تو تب بھی میں فوراً پہچان جاتی۔ اس کی شکل ہو بہو پاپا سے ملتی جلتی تھی۔حیرت سے میری آنکھیں پھٹنے کو تھیں۔

’’سلامہ شاہ…‘‘ میرے لب ہولے سے ہلے۔ وقت نے اسے کافی بدل ڈالا تھا لمبا قد،بھرابھرا صحت مند تروتازہ سڈول جسم، سرخ و انابی دلکش چہرہ اور اس پر گھنی سیاہ مونچھیں۔ وہ بھی مجھے دیکھ چکا تھا مگر اسے یوں اچانک اس حالت میں دیکھ کر میرے دل و دماغ میں اس کے کہے برسوں کے جملے ہتھوڑے برسانے لگے تھے۔ ہر شخص مجھ سے نفرت کرتا ہے۔برسوں پہلے اس کے منہ سے اپنے لیے نفرت سے لبریز الفاظ سنے تھے کس طرح اس نے میری ذات کی توہین کی تھی۔ میرے چہرے کے تاثرات یک دم کرخت ہوگئے۔ ایسے شخص کو دیکھنے کو بھی میرا جی نہیں چاہا تھا اس سے پہلے کہ میں سامنے سے ہٹتی وہ کھڑا ہو گیا۔

’’السلام علیکم…‘‘ وہ بڑی متانت و سنجیدگی سے سلام کر رہا تھا۔ بڑی اپنائیت تھی اس کے لہجے میں۔ شاید وہ بھی مجھے خوب پہچان چکا تھا۔ جواباً سرد نگاہوں سے میں نے اسے دیکھا تھا۔ ایک سخت شاکی نظر پاپا پر اور اس پر ڈال کر میں مزید رکے اور توجہ دیے بغیر اپنے کمرے کی طرف چل دی۔

اپنے کمرے میں آکر اپنی اس حرکت بلکہ بداخلاقی پر مجھے عجیب سا سکون ملا تھا۔مجھے ایسے لگا جیسے میں نے اس شخص کے برسوں پہلے کہے گئے الفاظ کا بدلہ لے لیا ہو۔میرے اندر کی تڑپتی، سسکتی میری انا کو یک گونا خوشی حاصل ہوئی تھی۔

میری طبیعت تو پہلے ہی خراب تھی سر چکرا رہا تھا۔ اب اسے یوں اچانک دیکھ کر مجھے کوفت بھی ہونے لگی۔ڈاکٹر کی ہدایت تھی کہ میں اپنے آپ کو مکمل طور پر پرسکون رکھوں ورنہ میری کوئی نس پھٹ جائے گی لیکن اپنے آپ کو نارمل نہیں کر پا رہی تھی۔ چکراتے سر میں درد کی ٹیسیں شدت اختیار کرتی جا رہی تھیں۔ سرہانے پر سر پٹختے میری چیخیں نکلنے کو بے تاب تھیں مگر میں مسلسل ضبط کر رہی تھی اور پھر ایک دم جیسے مجھے کچھ ہونے لگا تھا۔ ادھر سے اُدھر سر پٹختے میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھاگیاتھا اور مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ مجھے کیا ہو رہا ہے۔

’’آہ…‘‘ آنکھیں کھلی تو ایک کراہ کے ساتھ میں اطراف میں دیکھنے لگی۔ ذہن بالکل خالی تھا اپنے اردگرد کے ماحول سے مانوس ہونے میں کچھ وقت لگا تھا پھر جب اجنبی چہروں میںایک نحیف وجود کے ساتھ ایک سفید بستر پر اپنے وجود کو لیٹا دیکھا تو حیرانگی ہوئی۔ فوراً اٹھنے کی کوشش کی۔

’’اوں…ہوں…لیٹی رہو… وہ مجھ پر جھکا ہوا میرے کندھوں پر ہاتھ رکھے کہہ رہا تھا،ڈرپ لگی ہوئی ہے۔‘‘میں الجھی آنکھوں سے اسے دیکھ رہی تھی۔ اس دفعہ بھی اس کے لہجے میں بہت اپنائیت تھی۔ وہ مجھے دونوں کندھوں سے تھام کر لٹاتے ہوئے پیچھے ہٹا۔

’’آپ…‘‘

ساری صورتحال کا ادراک کرتے ہوئے میرے لبوں سے صرف یہی لفظ ادا ہوسکا۔

’’تمہیں برین ہیمبرج ہوا ہے۔ اس وقت تم اسپتال میں ہو۔ خدا کا شکر ہے۔ اب تم خطرے سے باہر ہو…‘‘وہ کرسی گھسیٹ کر میرے قریب بیٹھ گیا۔ مسکرا کر بتا رہا تھا اور حیرت کے ساتھ میں یاد کرنے کی کوشش میں تھی کہ مجھے ہوا کیا تھا۔

بے پناہ سردرد اور بے ہوشی کے بعد اب ہوش آیا تھا تو علم ہوا کہ گزشتہ لمحوں میں مجھ پر کیا کیفیت گزری تھی۔

’’پاپا…ماما…پاپا کہاں ہیں؟…‘‘ کمرے میں صرف سلامہ شاہ کو ہی دیکھ کر میں نے پوچھا۔

’’انکل تو اپنے آفس کے کام کے سلسلے میں آؤٹ آف سٹی ہیں۔ میں نے فون کر دیا ہے۔وہ جلد پہنچ جائیں گے…البتہ فاطمہ آنٹی کو میں نے گھر بھیج دیا ہے وہ یہیں تھیں۔‘‘اس نے مفصل جواب دیا تو میں چپ چاپ اسے دیکھے گئی۔

’’مجھے یہاں کون لایا تھا؟‘‘ کچھ دیر خود سے ہی الجھتے آخر کار میں نے اس سے پوچھ ہی لیا۔

Create an account or sign in to comment

You need to be a member in order to leave a comment

Create an account

Sign up for a new account in our community. It's easy!

Register a new account

Sign in

Already have an account? Sign in here.

Sign In Now
×
×
  • Create New...
URDU FUN CLUB