Disable Screen Capture Jump to content
Novels Library Plus Launched ×
Advertising Policy 2022-2024 ×
URDU FUN CLUB

Recommended Posts

اپنے ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں ایک کہانی لکھنے کی کوشش کی ہے امید ہے آپکو پہلی اپڈیٹ پسند آئے گی. وقتاً فوقتاً اپڈیٹ کرتا رہوں گا. اپنی رائے کا اظہار ضرور کیجئیے گا.

لیپ ٹاپ کی سکرین ایک جھٹکے سے بند ہوئی تو میں بھی جو نجانے کتنی دیر سے ماضی کے سمندر میں غوطہ زن تھا حال کی زمین پر قدم جما چکا تھا. آنسو میری پلکوں سے آبِ بے قابو کی طرح نکلے اور رخساروں پر بہہ گئے. میری آنکھوں کے سامنے گزرے ہوئے آٹھ سالوں کے واقعات کسی فلم کی طرح چلنے شروع ہو گئے اور مجھے محسوس ہوا کہ جیسے میرا دل مجھے ملامت کر رہا ہو کہ کاش اس وقت تم نے اپنے غصے کو قابو میں رکھا ہوتا تو آج اپنوں کے ساتھ ہوتے. کبھی کبھی انسان غصے میں اتنا پاگل ہو جاتا ہے کہ اس کا خود پر قابو نہیں رہتا اور جب وہ قابو میں آتا ہے تب تک حالات کا دھارا اپنا منہ کسی اور جانب موڑ چکا ہوتا ہے. میں مہر سکندر حیات ایک جاگیردار گھرانے کا چشم و چراغ، تین بھائیوں میں سب سے چھوٹا اور والدین کا لاڈلا. شروع سے ہی والد صاحب کے ساتھ رہا چونکہ والد صاحب ایک جاگیردار تھے علاقے کی جانی پہنچانی شخصیت، ضلع ملتان کے ضلعی ناظم اور ایک سیاسی جماعت کے ضلعی صدر بھی. وہ بچپن سے ہی مجھے اپنے ساتھ رکھا کرتے تھے اور اکثر کہا کرتے تھے کہ سکندر حیات میرے بعد میری گدی سنبھالے گا.والد صاحب کے ساتھ رہنے کی وجہ سے تقریباً ان کے سب ملنے والے مجھے پہچانتے تھے جس کی وجہ سے میں اپنا ایک الگ سماجی حلقہ بنا چکا تھا. اسکول سے چھٹی کے بعد ڈیرے پر جاتا اور وہاں کے تمام معاملات کو دیکھتا تھا یہاں تک کہ ہوٹل سے جو کھانا آتا تھا وہ تب تک نہیں آتا جب تک میرے یا والد صاحب کے دستخط چٹھی پر نا ہوتے. کیونکہ والد صاحب مجھے اپنا جانشین منتخب کر چکے تھے اس لیے بڑے بھائیوں نے کبھی سیاسی معاملات میں کوئی مداخلت نا کی گویا میں اپنے والد کی چھوٹی سی سلطنت کا اکلوتا وارث تھا. وقت اپنی ڈگر پر چلتا رہا اور میں عمر کے انیسویں سال میں داخل ہو گیا تھا. میں اپنی عمر سے بڑا نظر آتا تھا باڈی بلڈنگ کے شوق نے میرا جسم بہت مضبوط بنا دیا تھا. پڑھائی، سیاست اور جم یہی میرے مشاغل تھے. میں ملتان کے ایک نامور کالج میں زیر تعلیم تھا. وقت اچھا گزر رہا تھا کہ ایک دن مجھے اپنے بھائی کی کال موصول ہوئی کہ بابا کی طبیعت بہت خراب ہے تم جلدی نشتر ہسپتال پہنچو. یہ خبر گویا میرے سر پر کسی بم کی طرح گری اور میں فوراً کالج سے نکل پڑا. چند لمحوں بعد میری کار سڑک کے وسط میں فراٹے بھرتی نشتر ہسپتال کی طرف گامزن تھی. داخلی دروازے پر میرا کزن(چچا کا بیٹا) میرے ہی انتظار میں کھڑا نظر آیا. اس کے کچھ بولنے سے پہلے ہی میں نے سوال داغا
میں: عمر! ابا جان کو کیا ہوا؟ مجھے اپنی آواز کھوکھلی محسوس ہوئی.
عمر: صبح ناشتہ کر رہے تھے کہ اچانک دل کی طرف درد اٹھی مجھے کہنے لگے کہ میری دوا لے کے آؤ کمرے سے جب میں واپس آیا تو وہ زمین پر ڈھے چکے تھے. نوکرانی رامو کاکا کو آوازیں دے رہی تھی اور تائی اماں رو رہی تھیں.
میں نے حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے گاڑی نکالی اور انہیں ہسپتال لے آیا. ڈاکٹر کہہ رہے ہیں کہ تایا ابا کو دل کا دورہ پڑا تھا بروقت علاج کی وجہ سے جان بچ گئی تھوڑی دیر اور ہو جاتی تو شاید......
میں نے خدا کا شکر ادا کیا. ہم باتیں کرتے کرتے آئی سی یو تک پہنچ گئے تھے. جہاں اندر والد صاحب کا علاج چل رہا تھا. باہر میرے بڑے بھائی مہر زبیر حیات، منجھلے بھائی مہر حسن حیات اور ان کے ساتھ چچا مہر بدر حیات کھڑے تھے. ساتھ ہی اماں جی اور چچی جان مصلے پہ بیٹھی دعائیں مانگ رہی تھیں. ان کے قریب پہنچ کے میں نے پوچھا
میں: بھائی ابا کی طبیعت کیسی ہے اب؟
زبیر: اب وہ ٹھیک ہیں. کچھ دیر بعد انہیں کمرے میں شفٹ کر دیں گے.
میں: گاؤں میں کسی کو بتایا تو نہیں؟
زبیر: نہیں اب تک تو نہیں میں نے رامو کاکا کو بول دیا تھا کہ جب تک چھوٹے مہر صاحب حکم نا دیں تب تک کسی کو نا بتایا جائے.
میں: اچھا! تو کیا خیال ہے چچا جان اب بتا دیا جائے کیونکہ یہ بات چھپنے والی تو ہے نہیں.
چچا بدر! ہاں پتر میرا وی خیال اے ہن دس دینا چاہیے نہیں تو پنڈ میں سو گلیں ہو گی کہ مہر صاحب ہمیں اپنا نہیں سمجھتے.
میں : تو ٹھیک ہے چچا آپ راموکاکا سے کہو کے وہ گاؤں میں خبر کر دے اور ساتھ یہ بھی بتا دے کہ اب بڑے مہر جی کی طبیعت ٹھیک ہے.
حسن بھائی جو کافی دیر سے خاموش کھڑے تھے بولے
حسن: چھوٹے مہر میرا خیال ہے کہ آپ خود حویلی جائیں اور ڈیرے پر گاؤں کے معززین کو بلا کر خود اطلاع کر دیں. کیونکہ ابا جی کی غیر موجودگی میں آپ ہی انکی نشست سنبھالتے ہیں اور اس طرح یہ خبر زیادہ عام بھی نہیں ہو گی.
ٹھیک ہے میں بولا. میں گاؤں جا رہا ہوں شام تک واپس آ جاؤں گا تب تک آپ یہیں رہیں. اماں اور چچی کو میں ساتھ لے جاتا ہوں شام کو لے آؤں گا. میں آگے بڑھا اور اماں کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور انہیں تسلی دے کر بولا کہ آپ اور چچی میرے ساتھ گھر چلیں شام کو واپس آجائیں گے. اماں نے انکار کرتے ہوئے کہا کہ نہیں میں مہر صاحب کو چھوڑ کر کہیں نہیں جاؤں گی. میرے سمجھانے پر وہ جانے کے لیے راضی ہو گئیں. ہمارا گاؤں ملتان سے پندرہ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے. تھوڑی دیر میں ہی ہم حویلی پہنچ گئے گاڑی کھڑی کر کے اماں جی کو ان کے کمرے میں پہنچایا اور چچی سے کھانے کا بول کر میں ڈیرے پر پہنچا. راموکاکا کو پہلے ہی بول دیا تھا کے اردگرد کے علاقوں کے معززین کو خبر کر دیں. میں ڈیرے پر پہنچا تو علاقے کے معززین چہروں پر حیرت لیے وہاں موجود تھے. میں نے سب سے مصافحہ کیا اور اپنی نشست پر جا کر بیٹھ گیا جو کہ باقی نشستوں سے ذرا اونچی تھی.
چند لمحوں کی خاموشی کے بعد میں نے بات شروع کی.
میں: صاحبان! آپ کو تکلیف دینے کا مقصد صرف یہ ہے کہ کچھ دنوں کے لیے بڑے مہر صاحب کی جگہ میں اس کرسی پر بیٹھوں گا. آج صبح انہیں دل کی تکلیف کی وجہ سے ہسپتال لے جایا گیا. صحت یابی کے بعد وہ دوبارہ اپنی گدی سنبھالیں گے. میں بات کرتے وقت ان سب کے چہرے پڑھ رہا تھا. سب کے چہرے افسوس کی وجہ سے اترے ہوئے تھے کہ اچانک ایک چہرہ میری نظروں سے گزرا جس کے تاثرات نے مجھے چونکا دیا. میری بات ختم ہوئی تو سب نے باری باری بڑے مہر صاحب کی صحت کے متعلق پوچھنا شروع کر دیا اور میں انہیں جواب دیتا رہا لیکن میری نظریں اس شخص کا جائزہ لے رہی تھیں. تھوڑی دیر بعد ملاقات ختم کی اور انہیں تلقین کی کہ یہ خبر اپنے تک ہی رکھیں. سب لوگ اٹھ کر چلے گئے تو میں نے راموکاکا کو اندر بلایا.
میں: راموکاکا! وہ شخص جو دوسری لائن کی آخری کرسی پر بیٹھا تھا وہ کون تھا.
راموکاکا! پتر جی وہ اپنے ایم این اے نہیں ہیں نظر وٹو یہ ان کا بندہ تھا. وہ خود نہیں آ سکے اس لیے اسے بھیج دیا.
میں راموکاکا کی بات سن کر بظاہر مطمئن ہو گیا لیکن مجھے اس بندے پر شک تھا. میں نے فوراً عُمر کو فون ملایا اور اسے اس بندے کے متعلق بول کر حویلی کی جانب ہو لیا. عمر جانتا تھا اسے کیا کرنا ہے وہ میرا چچازاد ہونے کے ساتھ ساتھ میرا دوست، جگر اور ہمراز بھی تھا. عُمر میرا ہم عمر ہی تھا اور ہم شروع سے ہی ساتھ ساتھ تھے پہلے سکول اور اب کالج میں بھی ساتھ تھے.
حویلی پہنچ کر کھانا کھایا اور پھر اپنے کمرے کی جانب ہو لیا. ہماری حویلی کے دو حصے تھے ایک میں چچا کی فیملی رہتی تھی جوکہ چچا، چچی، عمر اور ان کی بیٹی عمارہ پر مشتمل تھی اور دوسرے حصے میں ہماری فیملی. میرا کمرہ دوسری منزل پر تھا تو میں سیڑھیاں چڑھ کر اپنے کمرے میں جا پہنچا. گرمی کا موسم تھا اے سی چلایا اور حسبِ عادت شرٹ اتاری اور بیڈ پر ڈھے گیا. تھکن کی وجہ سے جلد ہی نیند کی آغوش میں پہنچنے والا تھا کہ اپنے جسم پر گیلا پن محسوس کر کے واپس شعور کی وادی میں قدم رکھ دیا. کوئی وجود میرے اوپری جسم کو چوم رہا تھا. اس کے لبوں کی گرماہٹ میں اپنی کمر پر محسوس کر رہا تھا.

Link to comment

اردو فن کلب کے پریمیم ممبرز کے لیئے ایک لاجواب تصاویری کہانی ۔۔۔۔۔ایک ہینڈسم اور خوبصورت لڑکے کی کہانی۔۔۔۔۔جو کالج کی ہر حسین لڑکی سے اپنی  ہوس  کے لیئے دوستی کرنے میں ماہر تھا  ۔۔۔۔۔کالج گرلز  چاہ کر بھی اس سےنہیں بچ پاتی تھیں۔۔۔۔۔اپنی ہوس کے بعد وہ ان لڑکیوں کی سیکس سٹوری لکھتا اور کالج میں ٖفخریہ پھیلا دیتا ۔۔۔۔کیوں ؟  ۔۔۔۔۔اسی عادت کی وجہ سے سب اس سے دور بھاگتی تھیں۔۔۔۔۔ سینکڑوں صفحات پر مشتمل ڈاکٹر فیصل خان کی اب تک لکھی گئی تمام تصاویری کہانیوں میں سب سے طویل کہانی ۔۔۔۔۔کامران اور ہیڈ مسٹریس۔۔۔اردو فن کلب کے پریمیم کلب میں شامل کر دی گئی ہے۔

  • Replies 38
  • Created
  • Last Reply

Top Posters In This Topic

Top Posters In This Topic

×
×
  • Create New...

سدفگ.png

OK
URDU FUN CLUB