Mehwish Posted March 3, 2023 #1 Posted March 3, 2023 پردیسی مجید چاچا مجید چاچا بڑے خوش تھے کہ آخر کار 30 سال پردیس کاٹ کر اب وہ ہمیشہ کیلیئے پاکستان واپس جا رہے تھے، ہر کسی سے گلے مل رہے تھے ان کے چہرے پر خوشی نمایاں تھی، میں بھی پردیسی ہوں مجھے 15 سال ہوئے ان کو دیکھ کر مجھے بھی خیال آیا کہ ایک دن میں بھی ہمیشہ کیلیئے پردیس چھوڑ دونگا مگر فی الحال مجید چاچا کی خوشیوں میں سے ہی خوشیاں بانٹ رہا تھا ساری رات مجید چاچا نے خوشی سے جاگ کر گزاری اگلی صبح انہیں ائیرپورٹ چھوڑا اور واپس آ گیا، میں اپنے کام کاج میں لگ گیا اور مجید چاچا پاکستان پہنچ گئے، خیریت دریافت کرنے کیلیئے فون کیا انہیں خوش پایا دل کو اور بھی تسلی ہو گئی ہفتہ بھی نہ گزرا تھا کہ میں آفس سے گھر آیا دیکھتا ہوں مجید چاچا بیٹھے ہوئے ہیں، چہرہ مرجھایا ہوا کندھے جھکے ہوئے، میں نے حیران ہو کر پوچھا چاچا آپ یہاں واپس کیسے؟ مجید چاچا نے آٹھ کر مجھے گلے لگایا اور دھاڑیں مار مار کر رونے لگے، میں اتنا گھبرا گیا تھا کہ میرے ہاتھ پاؤں پھول گئے، میں نے چاچا کو زور سے گلے لگایا اور انہیں چپ کرانے کی کوشش کرنے لگا چاچا کے آنسو شاید پاکستان میں ہی خشک ہو چکے تھے، میں نے کھانا بنایا مجید چاچا نماز پڑھنے لگ گئے، کھانے سے فارغ ہو کر میں نے دریافت کیا چاچا بتائیں تو سہی ہوا کیا ہے چاچا نے بتایا کہ ان کے 3 بیٹے 2 بیٹیاں ہیں، دونوں بیٹیوں کی شادی یہاں رہ کر ہی کر دی تھی بیٹے تینوں ابھی کنوارے ہیں اور نوکری وغیرہ کرتے ہیں چاچا نے کہا جس دن وہ گھر پہنچے سب ٹھیک تھا، انہیں مہمان کی طرح عزت دی گئی، دو دن بعد ہی ایک بیٹے کو رات دیر سے گھر آنے کی وجہ سے ذرا سا ڈانٹ دیا تو جواب میں بیٹے نے کہا آپ آئے ہیں تو عزت سے رہیں زیادہ تحقیقات نہ کیا کریں کہ میں کہاں جا رہا ہوں کہاں سے آ رہا ہوں چاچا خاموش ہو گئے، اگلے روز چچا نے خود ہی اس بیٹے کو پاس بٹھا کر اس سے معذرت کی اور اس کا موڈ ٹھیک کیا مزید دو دن گزرے تو دروازے پر دستک ہوئی، باہر کوئی لڑکا ان کے بڑے بیٹے کو بلانے آیا تھا، اسی بیٹے نے دروازہ کھولا، ڈرائنگ روم میں بیٹھے چاچا مجید اپنے بیٹے کی اسکے دوست سے گفتگو سن رہے تھے دوست کہہ رہا تھا 4 دن ہو گئے ہیں تُو رات کو باہر نہیں آتا ہم تیرا انتظار کرتے رہتے ہیں، بیٹے کا جواب تھا، یار ابا آیا ہوا ہے، یہ چلا جائے تو آزادی ملے گی، جب سے آیا ہے ناک میں دم کر رکھا ہے... اسکے الفاظ چچا مجید کے دل میں خنجر کی طرح پیوست ہو رہے تھے، شاید چاچا کے کانوں نے ہی مزید سننے کی طاقت گنوا دی چاچا بیہوش ہو گئے، وہ کئی گھنٹے اسی کمرے کے فرش پر گرے پڑے رہے جب ہوش آیا تب بھی خود کو اکیلے ہی پایا، چچا کی بیوی اپنی محلے کی چند خواتین کے ساتھ شاپنگ کرنے گئی ہوئی تھی اور بیٹے گھر سے باہر تھے چچا اپنے خالی مکان کی دیواروں سے عجیب باتیں کرنے لگے، کبھی کہتے میں کہاں غلط ہوں؟ کیا میں اتنا غلط ہوں؟ میں نے کیا نہیں کیا؟ کیا میں اتنا غیر اہم ہوں؟ اسی رات چچا نے کھانے کی ٹیبل پر صرف اپنے لئے کھانا دیکھا، باقی سب باہر سے کھا کر آئے تھے، چچا نے گلہ کرنا چاہا کہ انکے ساتھ کھانے کی ٹیبل پر بیٹھ ہی جاتے، مگر مزید تکلیف دہ جواب نہ سننے کا حوصلہ تھا نہ ہی سوال کیا، کھانا کھایا اور لیٹ گئے اگلی صبح چچا نماز کیلیئے اٹھے وضو کر رہے تھے کہ بیٹے کی زوردار گرجتی آواز آئی، کون شور کر رہا ہے اس وقت؟ چچا معصوم سے بچے کی طرح ڈر سے گئے اور وضو ادھورا چھوڑ کر مسجد چلے گئے وہیں وضو کیا اور نماز پڑھی، نماز کے بعد دعا مانگتے ہوئے چچا رونے لگ گئے تبھی امام مسجد نے چچا کو پوچھا کیا ہوا بڑے میا روتے کیوں ہو؟ چچا نے سارا ماجرا بیان کیا، اور امام صاحب سے پوچھا کہ آپ ہی بتائیں مجھے اب کیا کرنا چاہیئے امام صاحب جو بہت بزرگ تھے فرمانے لگے، اب تُو کچھ نہیں کر سکتا سوائے برداشت کے یا ان کیلیئے ہدایت کی دعا کرنے کے، جو وقت تیرے بچوں کی تربیت کا تھا وہ تُو نے پردیس میں گزار دیا، اب وہ بچے نہیں رہے، انہیں جس طرح کی پرورش ملی وہ ویسے بن چکےاب یا برداشت کر یا ان سے الگ ہو کر کہیں اور رہ لے چچا واپس گھر گئے، بیوی سے تمام حال بیان کیا، بیوی نے بھی کہہ دیا میں تو پہلے ہی کہتی تھی کہ واپس آ کر کیا کرو گے، وہاں تو پھر بھی نوکری تھی پیسہ تھا یہاں فارغ رہ کر بچوں سے طعنے ہی سننے ہیں چچا کو اپنے کانوں پر تیسری بار یقین نہ آیا کہ یہ ان کا وہم ہے کوئی ڈراونا خواب ہے یا کڑوی حقیقت غرض چچا نے بینک میں رکھی ہوئی رقم سے واپسی کا ٹکٹ خریدا اور بنا کسی کو بتائے وہ اپنے گھر کے دروازے کو چوم کر یہ کہتے ہوئے نکلے کہ اے میرے وہم کے تو میرا گھر ہے، میں تجھ میں تو رہنا چاہتا ہوں پر وہم میں نہیں... چاچا کی باتیں سن کر میری آنکھوں سے نکلتے آنسو میرے سینے تک کو تر کر گئے تھے، سناٹے کو توڑتے ہوئے مجید چاچا کی ہلکی سی آواز نکلی، جہانزیب، میں اب پاکستان کبھی نہیں جاؤں گا، جب میں نہ رہا تو مجھے یہیں پردیس میں ہی دفن کردینا میں چچا کے ساتھ لپٹ کر زور زور سے رونے لگا، کیونکہ میرا دل بھی ڈرتے ہوئے کہہ رہا تھا کہیں پاکستان میں بنایا گیا میرا گھر بھی وہم تو نہیں؟ تحریر: وحید جاوید پاکستانی آف جدہ
Recommended Posts
Create an account or sign in to comment
You need to be a member in order to leave a comment
Create an account
Sign up for a new account in our community. It's easy!
Register a new accountSign in
Already have an account? Sign in here.
Sign In Now