Story Maker Posted November 15, 2018 Share #1 Posted November 15, 2018 گئے موسم میں جو کھلتے تھے گلابوں کی طرح دل پہ اتریں گے وہی خواب عذابوں کی طرح راکھ کے ڈھیر پہ اب رات بسر کرنی ہے جل چکے ہیں مرے خیمے مرے خوابوں کی طرح ساعت دید کہ عارض ہیں گلابی اب تک اولیں لمحوں کے گلنار حجابوں کی طرح وہ سمندر ہے تو پھر روح کو شاداب کرے تشنگی کیوں مجھے دیتا ہے سرابوں کی طرح غیر ممکن ہے ترے گھر کے گلابوں کا شمار میرے رستے ہوئے زخموں کے حسابوں کی طرح یاد تو ہوں گی وہ باتیں تجھے اب بھی لیکن شیلف میں رکھی ہوئی بند کتابوں کی طرح کون جانے کہ نئے سال میں تو کس کو پڑھے تیرا معیار بدلتا ہے نصابوں کی طرح شوخ ہو جاتی ہے اب بھی تری آنکھوں کی چمک گاہے گاہے ترے دلچسپ جوابوں کی طرح ہجر کی شب مری تنہائی پہ دستک دے گی تیری خوش بو مرے کھوئے ہوئے خوابوں کی طرح پروین شاکر Link to comment
Recommended Posts
Create an account or sign in to comment
You need to be a member in order to leave a comment
Create an account
Sign up for a new account in our community. It's easy!
Register a new accountSign in
Already have an account? Sign in here.
Sign In Now