hasnain Posted September 18, 2013 Share #1 Posted September 18, 2013 برطانیہ میں صارفین کے لیے اپنا بینک تبدیل کرنے میں درکار وقت کم ہو گیا ہے۔ انگریزی کی کہاوت ہے کہ بینک اور صارف کے درمیان رشتہ شادی کے رشتے سے زیادہ طویل ہوتا ہے۔ مگر اس کے علاوہ وہ کون سے رشتے ہیں جو کافی لمبے عرصے تک چلتے ہیں؟تحقیقی کمپنی منٹل کا کہنا ہے کہ برطانیہ میں تقریباً 50 فیصد کرنٹ اکاؤنٹ والے صارفین نے کبھی اپنا بینک تبدیل نہیں کیا۔برطانیہ میں کرنٹ اکاؤنٹ والے صارفین کا اپنے بینک کے ساتھ تعلق اوسطاً 17 سال تک چلتا ہے جب کہ برطانیہ میں شادیوں کی عمر اوسطاً ساڑھے 11 سال تک ہی ہوتی ہے۔تاہم رشتے میں طوالت خوشیوں کی ضمانت نہیں ہے۔ یو سوئچ نامی کمپنی کا کہنا ہے کہ بینکوں کے تقریباً نصف صارفین اس لیے اپنا بینک تبدیل نہیں کرتے کیونکہ اُن کا خیال ہوتا ہے کہ اس میں بہت مشکل پیش آئے گی۔پیر کے روز بینکنگ کی صنعت نے اعلان کیا ہے کہ بینک تبدیل کرنے میں درکار وقت کو 30 دن سے کم کر کے سات دن کر دیا جائے گا۔مگر ان دیگر رشتوں کی کہانی کیا ہے جو کہ عموماً لمبے عرصے تک چلتے ہیں۔حجامکچھ لوگوں کے راز ان کے گھر والوں کے اتنے معلوم نہیں ہوتے جتنے ان کے حجاموں کو! بعضے ایسے بھی ہیں جو اپنے مخصوص حجام کے پاس دور دور سے سفر کر کے جاتے ہیں۔دو ہزار افراد کے ایک سروے میں معلوم ہوا ہے کہ صارفین جس کاروبار کے ساتھ سب سے زیادہ وفادار ہوتے ہیں، وہ ہیں حجام۔ سروے کے دو تہائی شرکا نے کہا کہ وہ اپنے موجودہ حجام کے پاس ہی جاتے رہیں گے اور کسی دوسرے حجام کے پاس جانے کا سوچیں گے بھی نہیں۔صارفین کی نفسیات کے ماہر فیلپ گریوز کہتے ہیں کہ ’لوگوں کو نئے حجام کے پاس جانے کے معاملے میں کئی خدشات لاحق ہوتا ہے۔ انھیں نئے حجام کو اپنے بالوں کا انداز بیان کرنا ہوتا ہے مگر وہ انھیں تکنیکی انداز میں بتا نہیں سکتے کہ کیا کرنا ہے۔ دوسری جانب کسی جاننے والے حجام کے پاس جانا زیادہ اطمینان بخش ہوتا ہے۔‘اپنے مخصوص حجام کے ساتھ رشتہ ختم ہونے کا دکھ کئی بار دیکھا گیا ہے اور ذرائع ابلاغ پر بھی اس سلسلے میں بحث ہوتی رہی ہے۔ ڈینٹسٹ یعنی دانتوں کا ڈاکٹربہت سے لوگ دانتوں کے ڈاکٹروں کے پاس جاتے ہوئے گھبراتے ہیں مگر جب جانا پڑ جائے تو وہ اس کو ترجیح دیتے ہیں جس سے وہ واقف ہوں۔ڈینٹسٹری کی ایک کمپنی اویسز کی تحقیق سے معلوم ہوا کہ 43 فیصد لوگ اپنے ڈینٹسٹ کے ساتھ وفادار ہوتے ہیں اور وہ تب تک اسے تبدیل نہیں کرتے جب تک وہ اس کے لیے مجبور نہ ہوں۔ 22 فیصد لوگوں نے کبھی اپنا ڈینٹسٹ تبدیل نہیں کیا جبکہ 60 فیصد افراد پانچ سال سے ایک ہی ڈینٹسٹ کے پاس جا رہے ہیں۔برطانیہ کی بجائے اگر آسٹریلیا پر نظر ڈالیں تو لوگوں کا اپنے ڈینٹسٹ کے ساتھ اوسطاً رشتہ نو سال تک قائم رہتا ہے۔تاہم اس بات کے بھی شواہد ہیں کہ مریض اور ڈاکٹر کے رشتے کی طوالت وقت کے ساتھ کم ہوتی جا رہی ہے اور نوجوان اپنے ڈاکٹر زیادہ آسانی سے بدل لیتے ہیں۔اویسز کے مطابق 16 سے 24 سال عمر کے افراد میں سے 35 فیصد اپنے آپ کو اپنے ڈینٹسٹ کا وفادار کہتے ہیں جب 55 سے 60 فیصد کی عمر کے افراد میں یہ شرح بڑھ کر 56 فیصد ہو جاتی ہے۔لندن شہر کے 40 فیصد لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ سستے ڈاکٹر کی تلاش میں دانتوں کے دیگر ڈاکٹروں سے مشورہ کرتے ہیں جب کہ باقی ملک میں یہ شرح صرف 28 فیصد ہے۔ موبائل فون کمپنیاںتحقیقی کمپنی منٹل کا کہنا ہے کہ 25 فیصد افراد نے کبھی اپنا موبائل نیٹ ورک تبدیل نہیں کیا۔تاہم کمپنی کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں نیٹ ورک کمپنیوں کو ٹیکنالوجی کا فائدہ حاصل ہے۔’موبائل کمپنیاں نئے نئے موبائل فون دے کر صارفین کو اپنے نیٹ ورک پر لانے کے لیے مائل کر سکتی ہیں۔‘’اس کے علاوہ موبائل کمپنیاں لائن رینٹ جیسے اخراجات کو کم کر کے اپنی مصنوعات کو زیادہ مقبول بنا سکتی ہیں جبکہ دوسری جانب، مثال کے طور پر، بجلی کی کمپنیوں میں تبدیلی صارفین کے لیے نفسیاتی طور پر قدرے مشکل ہے کیونکہ ان کو اس میں کوئی فوری مالی فائدہ نظر نہیں آتا۔‘ توانائی کی کمپنیاںتحقیقی کمپنی یو سوئچ کا کہنا ہے کہ 95 فیصد صارفین کو معلوم ہے کہ وہ اپنی بجلی کی کمپنی تبدیل کر سکتے ہیں مگر صرف 38 فیصد ہی ایسا کرتے ہیں۔ویب سائٹ ’منی سپر مارکیٹ ڈاٹ کام‘ کا اندازہ ہے کہ شاید ان کی تعداد اس سے بھی زیادہ ہے۔ کمپنی کے کیون ماؤنٹ فورڈ کہتے ہیں ’70 فیصد لوگ کبھی بھی اپنی بجلی کی کمپنی تبدیل نہیں کرتے، حالانکہ اگر وہ عام پلان پر ہیں تو وہ اس تبدیلی سے تقریباً دو سو پاؤنڈ بچا سکتے ہیں۔‘صارفین کی نفسیات کے ماہر فیلپ گریوز کہتے ہیں کہ معاملہ فوائد ڈھونڈنے کا نہیں ہے: ’جب تک لوگ ذرا چالاک قسم کا مالی حساب کتاب نہ کریں تو یہ نہیں لگتا کہ کمپنی تبدیل کرنے سے بجلی کے بل میں کمی واقع ہوگی۔‘ جِم کی رکنیتجِم یا ورزش گاہ کی رکنیت بھی ایک ایسا ہی رشتہ ہے جو طویل عرصے تک قائم رہتا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جِم کی رکنیت حاصل کرنے والے زیادہ تر لوگ اسے خریدتے ہی لمبے عرصے کے لیے ہیں۔کیون ماؤنٹ فورڈ کہتے ہیں کہ اس سلسلے میں مسئلہ یہ ہے کہ اکثر لوگ جِم پر پیسے ضائع کرتے ہیں۔ ’لوگ کسی دکان پر جا کر 40 پاؤنڈ دے کر کچھ لیے بغیر تو نہیں آئیں گے تو پھر انہیں جِم کے معاملے میں بھی ایسا نہیں کرنا چاہیے۔‘وہ کہتے ہیں کہ اگر آپ بچت کرنا چاہتے ہیں تو بہتر ہے کہ آپ حکومتی جِم میں ایک مہینے میں ایک یا دو بار چلے جائیں بجائے اس کے کہ آپ کسی مہنگے جِم کو پورے مہینے کے پیسے دیں۔‘ Link to comment
Recommended Posts
Create an account or sign in to comment
You need to be a member in order to leave a comment
Create an account
Sign up for a new account in our community. It's easy!
Register a new accountSign in
Already have an account? Sign in here.
Sign In Now