Asifa Kamran Posted March 8, 2013 Share #1 Posted March 8, 2013 رومن کیتھولک چرچ کے ایک اور سینیئر رکن کے جنسی سکینڈل میں ملوث ہونے کی خبر سامنے آنے کے بعد ایک بار پھر یہ سوال اٹھ رہا ہے کہ کیا جنسی تعلقات سے مستقل طور پر کنارہ کشی حقیقتاً ممکن ہے؟ مجرد رہنے کا مطلب جنسی تعلقات سے اجتناب نہیں بلکہ لاطینی زبان سے اخذ کیے گئے لفظ (celibate) کا مطلب ہمیشہ کے لیے جنسی تعلقات سے دوری ہے۔ اجتناب وقتی ہو سکتا ہے اور کسی فرد سے تعلقات کے دوران بھی آپ اس سے جنسی تعلق رکھنے میں اجتناب برت سکتے ہیں۔ حقیقی تجرد کا مطلب یہ ہے کہ آپ ساری عمر بغیر کسی ساتھی اور کسی سے جنسی تعلق قائم کیے گزار دیں۔ تجرد کا ذکر کیتھولک کارڈینل کیتھ او برائن کے اس اعتراف کے بعد پھر چھڑا ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ ان کی ’جنسی حرکات‘ اس معیار پر پورا نہیں اترتیں جس کی ان سے توقع کی جاتی ہے۔ ایک کیتھولک پادری ہونے کے ناتے ان سے توقع کی جاتی تھی کہ وہ ہر قسم کی جنسی سرگرمی سے اجتناب کریں گے اور خود کو خدا اور چرچ کے معتقدین کے لیے وقف کر دیں گے۔ بودھ مذہب میں بھی راہبوں سے یہی توقع کی جاتی ہے اور دونوں مذاہب میں مشت زنی تک تجرد کی خلاف ورزی قرار دی جاتی ہے۔ ایسے افراد جو مذہب سے لگاؤ نہیں رکھتے، ان کے لیے اس صورتحال کو سمجھنا آسان نہیں اور اگر تجرد کی سخت ترین تعریف کی بات کی جائے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایسا ممکن ہے؟ آکسفرڈ یونیورسٹی میں اینڈوکرینالوجی کے پروفیسر جان واس کا کہنا ہے کہ تجرد مکمل طور پر ایک غیرمعمولی حالت ہے۔ ان کے مطابق اسّی سے نوے فیصد مرد مشت زنی کرتے ہیں اور بظاہر پادری بھی ایسا کرتے ہیں۔ ان کے مطابق تجرد کی زندگی گزارنا ایک صحتمندانہ عمل بھی نہیں کیونکہ جو افراد زیادہ مادۂ منویہ خارج کرتے ہیں ان کے پروسٹیٹ کینسر میں مبتلا ہونے کا امکان بھی کم ہوتا ہے۔ سابق پادری جمی او برائن جنہوں نے رہبانیت ترک کر کے خاندان شروع کرنے کا فیصلہ کیا کہتے ہیں ’ایک نوجوان کے لیے تجرد اختیار کرنا بہت ہی مشکل کام ہے۔ بہت سے لوگوں کے لیے یہ روزانہ کی جنگ ہے جبکہ کچھ اس سے زیادہ متاثر نہیں بھی ہوتے۔‘ مذہبی مدرسے ایلن ہال کے استاد پادری سٹیفن وینگ کا کہنا ہے کہ یہ ایک قربانی ہے اور بیشتر پادری یہ قربانی دیتے ہیں۔ ’جب لوگ ذہنی طور پر پختہ ہوتے ہیں اور ان کا عقیدہ مضبوط ہوتا ہے تو پھر یہ ایک شوہر کے اپنی بیوی سے وفادار رہنے سے زیادہ مختلف نہیں ہے۔‘ جمی او برائن کے مطابق یہ صرف حیاتیات کی بات نہیں بلکہ جنسی کیمیا تجرد کو ایک مشکل طرزِ حیات بنا دیتی ہے۔ ’خواتین بعض اوقات پادریوں کو ’شجرِ ممنوعہ کا پھل‘ سمجھ لیتی ہیں جسے حاصل کرنا ان کے لیے ایک چیلنج ہوتا ہے‘۔ لیکن ان کا یہ کہنا ہے کہ اس طرزِ زندگی میں سب سے بڑا مسئلہ تنہائی ہے۔’ہم انسان ہیں اور تنہائی ایک بڑی چیز ہے۔ ہم میں سے بہت سے افراد کو زندگی میں ساتھی کی ضرورت ہوتی ہے۔‘ اب کارڈینل او برائن سمیت بہت سے کیتھولکس تجرد کے بارے میں دوبارہ غور کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ وشواپنی کے لیے مسئلہ تجرد نہیں بلکہ اسے عمر بھر کے لیے لاگو کیے جانے کا احساس ہے۔ ’مسئلہ تب پیدا ہوتا ہے جو لوگ اسے قائم نہیں رکھ پاتے لیکن ان کے پاس جنسی طور پر سرگرم رہنے کا ایسا کوئی ذریعہ نہیں ہوتا جو غیراخلاقی نہ ہو۔‘ یہ سوال بھی اہم ہے کہ کیوں کچھ مخصوص لوگ تجرد کی زندگی اختیار کرتے ہیں۔ عدم برداشت کا شکار اس معاشرے میں بہت سے ہم جنس پرست افراد پادری بننے کا فیصلہ کر لیتے ہیں تاکہ وہ جنسی عمل سے بچ سکیں۔ تجرد کی تاریخ نامی کتاب کی مصنفہ الزبتھ ایبٹ کا کہنا ہے کہ مسئلہ تجرد کے ممکن ہونے کا نہیں بلکہ اسے رسم کے طور پر اپنائے جانے کا ہے۔ ’پادریوں کو اپنی خواہشات کو دبانے پر مجبور کرنا یا ان کے جنسی رویوں کو چھپانا ہزاروں برس سے ناکام ہوتا رہا ہے۔ اس کے نتائج خوفناک ہوتے ہیں۔‘ جمی او برائن کا کہنا ہے کہ آنے والے پوپ کو تجرد کے معاملے پر غور کرنا چاہیے۔ سابق پادری جمی او برائن نے تئیس برس قبل شادی کی تھی اور ان کے خیال میں یہ ایک صحیح فیصلہ تھا۔ ’ایک خاندانی زندگی کے تجربے کے بعد میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ میرے پاس گرجا گھر کو دینے کے لیے پہلے سے کہیں زیادہ ہے۔‘ تاہم پادری سٹیفن وینگ کے مطابق لوگ تجرد کے بارے میں غلط فہمیوں کا شکار ہیں۔ ان کے خیال میں یہ خدا اور اس کے بندے کا انوکھا تعلق ہے۔ ’یہ کوئی بندش نہیں بلکہ ایک طرزِ زندگی ہے۔‘ ان کا کہنا ہے کہ چرچ صرف پادریوں کو ہی نہیں بلکہ کسی بھی غیر شادی شدہ فرد کو جنسی تعلقات سے اجتناب کو کہتا ہے۔ Link to comment
Recommended Posts
Create an account or sign in to comment
You need to be a member in order to leave a comment
Create an account
Sign up for a new account in our community. It's easy!
Register a new accountSign in
Already have an account? Sign in here.
Sign In Now