Disable Screen Capture Jump to content
Novels Library Plus ×
URDU FUN CLUB

بے نام سا یہ درد


Recommended Posts

بے نام سا یہ درد

السلام علیکم علی۔ کیسے ہو؟ اُمید کرتی ہوں خیریت سے ہو گے۔

کچھ ہی پلوں میں تاریخ بدلنے والی ہے اور وہ تاریخ آنے والی ہے جو تمہیں اس دُنیا میں لے کر آئی۔۔۔۔۔ تمہیں ۔ ۔ علی کو۔۔۔۔۔ مجھے آج بھی یاد ہے علی کہ جاتے ہوئے تمہاری ماں تمہیں ایک کام سونپ رہی تھیں۔۔۔۔۔ کتنی التجا، کتنی اُمید تھی اُن کی آنکھوں میں کہ اُن کا بیٹا اُن کی اُمیدوں پر پورا اُترے گا۔۔۔۔۔ مجھے خوشی ہے کہ جب کبھی بھی، تم اُن سے ملو گے تو تمہارا سر سُرخُروئی سے بُلند ہو گا کہ تم نے اپنی ماں کی بات کا مان رکھا اور ہمیشہ اُن کے ایک بہادر بیٹے بن کے رہے۔۔۔۔۔ ہاں ٹھیک ہے کبھی کبھی انسان کی زندگی میں کمزور پل آتے ہیں، کبھی کبھی انسان تھک کر بیٹھ جاتا ہے، زخموں کی شدت سے اُس کی روح چُور چُور بھی ہو جاتی ہے۔۔۔۔۔۔ یہی وہ لمحات ہوتے ہیں جب انسان کی آزمائش کی ہوتی ہے۔ ۔ یہی وہ پل ہوتے ہیں جن میں انسان چاہے تو داہنے ہاتھ والوں کی طرف اپنا پلڑا بھاری کر لے یا بائیں ہاتھ والوں کی طرف۔ مجھے بہت خوشی ہے کہ تم ہمیشہ اُن لوگوں میں سے رہے ہو جو شدتِ غم سے گھبرا کر بیٹھتا ضرور ہے لیکن مایوسیوں اور کفر کے اندھیرے میں ڈوب نہیں جاتا۔۔۔۔۔ تم ہمیشہ ایسے ہی رہنا علی۔۔۔ ہمیشہ ایسے ہی۔ ۔ چاہے تم اکیلے ہی کیوں نہ رہ جاوٴ۔۔۔۔۔

یہ بھی جان لو کہ تنہا وہ شخص ہوتا ہے جس سے اُس کا ایمان چھین لیا جائے۔۔۔۔۔ جو اپنے خُدا کو اپنے سے دور کر دے۔ ۔ صرف وہی تنہا ہوتا ہے۔ ورنہ یہ دُنیا کی بھیڑ بھاڑ۔ ۔ یہ لوگوں کے میلے۔ ۔ ۔ یا ساتھ قدم ملا کر چلنے والے کبھی بھی سہارا نہیں ہوتے۔ سہارا اور ساتھ صرف اُس ذاتِ واحد کا ہی ہوتا ہے۔۔۔۔۔ بس اُس کو کبھی کھونے مت دینا۔۔۔۔

اپنا خیال رکھنا اور کبھی کمزور مت پڑنا۔

تمہاری روشنی

اُس نے دوسری بار یہ تحریر پڑھی اور خط کو اپنے دراز سے ایک فائل نکال کر، اُس میں قید کر دیا۔۔۔۔۔ اب کے اُس نے ایک سادہ کاغذ اور قلم اُٹھایا اور خط کا جواب لکھنے لگا۔

وعلیکم السلام و السلام علیکم!

کیسی ہو؟ میرے دل کے ہر گوشے سے تمہارے لیے دُعا ہے کہ جہاں کہیں بھی ہو خیریت سے ہو۔ شاد و آباد ہو۔

اپنے بارے میں کیا لکھوں روشنی؟ جانتی تو ہو تم سب کچھ۔۔۔۔ سب کچھ وہی ہے۔ ۔ وہی لفظ، وہی باتیں، وہی چہرے۔۔۔۔ اگر کچھ تبدیلی آئی ہے تو وہ میری تکلیفوں میں۔۔۔ جو کہ پہلے سے مزید بڑھ گئی ہیں۔۔۔

روشنی۔ ۔ ۔ میں اب تھکنے لگا ہوں۔۔۔۔ اب مجھ سے سہا نہیں جاتا، مزید برداشت نہیں ہوتا۔ جی کرتا ہے یہاں سے کہیں دُور بھاگ جاؤں۔۔۔ کسی جنگل میں۔۔۔ جہاں کسی کو بھی میں نہ دکھوں اور نہ کوئی مجھے، مجھ پر ہنستی تو کبھی ہمدردی کرتی آنکھیں اور چہرے دکھیں۔ میں بھی نارمل انسانوں سا جینا چاہتا ہوں روشنی۔ ایک بار۔۔۔۔ بس ایک بات اس دُنیا کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اُنکا ایسا رویہ مجھے کس قدر تکلیف میں مُبتلا کرتا ہے۔۔۔ لیکن میں بتا نہیں پاتا۔۔۔ اور بن کہے کوئی کسی کو نہیں سمجھتا۔۔ کوئی بھی نہیں سمجھتا۔ صرف ایک تم تھی جو مجھے سمجھتی تھی۔۔۔ اب کوئی بھی نہیں۔۔۔

اب میں تھکنے لگا ہوں روشنی۔۔ بس اب میں تھک گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اُس نے خط کو میز پر رکھا، اور اُسی پر بازو رکھ کر اُن پر اپنا سر رکھ دیا۔ میز پر سر رکھے وہ کھڑکی سے باہر دیکھ رہا تھا۔ اندھیرا مزید گہرا ہونے لگا اور یک دم تمام کائنات سکتے میں آ گئی۔۔۔ ہواؤں کا سانس لینا، گھڑی کی ٹِک ٹِک۔۔ سب رُک گیا۔۔۔ پھر یک دم وقت کا پہیہ پیچھے کو چلنے لگا۔۔ ایسے جیسے کوئی ندی بہتے بہتے اچانک رُک جائے اور اُلٹے قدموں واپس ہو جائے۔

**********

جاری ہے

Link to comment

یکم جنوری 2022 سے نئے رولز کو لاگو کر دیا گیا ہے ۔ تمام سائلنٹ ممبرز کو فورم پر کچھ سیکشن کی اجازت نہ ہو گی ۔ فری سیکشن پر مکمل پرمیشن کے لیے آپ کو اپنا اکاؤنٹ اپگریڈ کرنا ہو گا ۔ اپگریڈ کرنے کی فیس صرف 5 ڈالر سالانہ ہے ۔ آپ کو صرف 5 ڈالر کی سالانہ ادائیگی کرنا ہو گی ۔ اور آپ کا اکاؤنٹ ایک سال کے لیے ایکٹو ہو جائے گا۔

سب کزنز لاؤنج میں کارپٹ پر کُشن رکھ کر بیٹھے ایک دوسرے سے ہنسی مذاق کرنے میں مشغول تھے۔ سب ایک دوسرے سے محبت پر اظہارِ خیال کر رہے تھے۔۔۔۔ کبھی کوئی کسی کی بات پر قہقہے لگاتا تو کبھی کسی کے محبت کے فلسفے پر واہ واہ کی جاتی۔۔۔۔ ان سب میں ذرا سا ہٹ کر ایک طرف بیٹھا وہ شخص سب سے الگ تھا۔ وہ اُس ماحول میں ہو کر بھی اُس کا حصہ نہ لگتا تھا۔

"آپ کیا کہتے ہیں علی۔۔۔۔ واقعی محبت کا کوئی وجود ہے آج کے زمانے میں یا یہ صرف پسندیدگی تک ہی محدود ہو کر رہ گئی ہے؟" روشنی نے ہونٹوں پر دھیمی مُسکراہٹ لیے اُسے دیکھتے ہوئے سوال کیا۔ ایک دم سارے خاموش ہو گئے۔ علی نے بھی جُھکا سر اُٹھایا۔۔۔ اُس کی آنکھوں میں ایک بے یقینی سی تھی۔۔ یوں لگتا تھا جیسے کسی راہبر نے بھٹکے ہوئے مسافر سے راستہ پوچھ لیا ہو۔ ۔ اور وہ یہ بھی سمجھ نہ پا رہا ہو کہ اُس سے سوال اُس کا مذاق اُڑانے کے لیے پوچھا گیا ہے یا اُس کا حال جاننے کے لیے۔۔۔

وہ ابھی اسی شش و پنج میں تھا کہ رابعہ بول اُٹھی۔ ۔ ۔

"اوہو روشنی کس سے سوال کر لیا تم نے؟ اب اس کا جواب جاننے کے لیے صُبح تک کا انتظار کون کرے۔۔؟" علی سے سوال کرنے پر رابعہ جھّلا اُٹھی تھی۔

"ویسے بھی وہ سُنا نہیں شاعر کیا کہتا ہے۔۔۔۔

کون جیتا ہے تیری زُلف کے سر ہونے تک

حماد نے کہا اور وہاں موجود تمام لوگوں کا مشترکہ قہقہہ علی کی سماعتوں میں پگھلے ہوئے سیسے کی طرح اُتر گیا۔ اُس نے کسی بھی قسم کے احتجاج کے بغیر اپنا سر واپس جُھکا لیا اور ایک بار پھر گُم صُم ہو گیا۔۔۔۔ اُس کے الفاظ بے وقعت ہونے سے رہ گئے۔۔۔

**********

"آپ کسی کو کچھ کہتے کیوں نہیں۔۔؟ اُن کو نہیں تو کم از کم گھر کے بڑوں کو ہی اُن سب کے رویے کے بارے میں بتا دیا کریں۔۔۔" روشنی نے عموماً کہا جانے والا جُملہ ایک بار پھر دُہرایا اور علی ہولے سے مُسکرا اُٹھا۔۔۔ کچھ عرصہ ہوا تھا کہ علی نے اُس کی باتوں کا جواب دینا شروع کیا تھا، ورنہ ہمیشہ وہی بول کے چلی جاتی اور دوسری طرف برف کی سِل سا وہ شخص۔۔ آنکھیں جُھکائے خاموشی سے اُسے سُنتا رہتا۔۔۔ لیکن اب جیسے کوئی حدت تھی جو اس برف کو آہستہ آہستہ پگھلا رہی تھی۔۔ دونوں کے بیچ کچھ ایسا تھا جو دونوں کو ایک دوسرے کی تکلیف اور خوشی بن کہے ہی سمجھانے لگا تھا۔۔ وہ کیا تھا علی نے کبھی جاننے کی کوشش نہیں کی تھی۔ اُس کے لیے اتنا ہی کافی تھا کہ اب کوئی ایسا تھا جو اُسکی سُنتا تھا، اُس کو سمجھتا اور اُسکی فکر کرتا تھا۔ اُس کے لیے یہی بہت تھا۔۔۔

**********

روشنی ہر قدم پر علی کا ساتھ دینے لگی تھی۔۔ جب اُس نے یہ دیکھا کہ یہاں سُنوائی نہیں ہونے والی تو اُس کے لیے دوسروں سے لڑنے کی بجائے اب اپنی توجہ اُسے مایوسیوں سے باہر لانے میں لگا دی۔ وہ علی کے ساتھ بیٹھ کر ہر اُس شخص پر ہنستی جو اُسے تکلیف دیتا۔۔۔ اُس کی باتوں میں زندگی تھی۔۔ خوشی تھی۔۔ اُمید کی روشنی تھی۔۔۔ علی کو اپنے اندھیرے چھوڑنے ہی پڑے۔۔۔ وہ بھی ہنسنے لگا۔۔ جینے کی خواہش کرنے لگا اور اپنا درد کہنے لگا۔۔۔ سہتا تو وہ ہمیشہ سے ہی چلا آ رہا تھا لیکن اب وہ اپنا درد بھولنے بھی لگا تھا۔۔۔ روشنی کی باتیں۔۔ اُس کی آواز۔۔ اُسکی سوچ۔ ۔ ۔ سب ایسی ہی تھیں جو زندگی کی طرف لوٹاتیں۔۔۔ علی بھی جینے لگا تھا۔۔۔ بنا کسی شکوے۔۔۔ بنا کسی شکایت کے۔۔۔

وہ کیا چاہتا تھا۔۔۔ اُس نے کبھی نہ سوچا۔۔۔ روشنی کیا چاہتی تھی مگر روشنی نے ضرور سوچ رکھا تھا۔

**********

گھر میں اُس دن بھونچال آیا جب روشنی نے اپنے لیے آنے والے ایک بہترین رشتے کو ٹُھکرا کر علی کے لیے اپنی پسندیدگی کا اظہار کیا تھا۔ علی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ وہ کچھ ایسا کر گُزرے گی۔ وہ پاگل تھی یہ وہ جانتا تھا، لیکن اُس سے اتنی بے وقوفی کی توقع اُس نے کبھی نہ کی تھی۔ گھر میں ہر کوئی علی کو قصور وار ٹھہرائے ہوئے تھا کہ اُس نے لڑکی کو ورغلایا ہے۔ روشنی کے لاکھ بتانے پر بھی کہ اس معاملے میں اُس کی اور علی کی کبھی بات ہی نہیں ہوئی لیکن گھر والوں کو تو بس ایک ہی انسان قصور وار نظر آتا تھا۔۔۔ ہر معاملے میں ہی۔ شاید کچھ لوگوں کا بے قصور ہونا ہی اُن کا قصور ہوتا ہے۔۔۔ اس لحاظ سے اُس گھر میں سب سے بڑا قصور وار علی ہی تھا۔

تب پہلی بار علی نے روشنی کے نام لکھا تھا۔

روشنی۔۔۔۔ مجھے آپکو یوں لکھنا اچھا تو نہیں لگ رہا لیکن میں مجبور ہوں۔۔۔ اور کبھی کبھی کچھ باتیں بہت ضروری ہو جایا کرتی ہیں، شاید یہ میری خاموشی ہی تھی کہ آج آپ نے اتنا بڑا قدم اُٹھا لیا۔۔ کاش لفظ میرے تابع ہوتے تو آج آپ کو یہ پریشانی نہ اُٹھانی پڑتی۔ مجھے افسوس ہے کہ آپ پانی کے سفر پر گامزن ہیں جہاں پیروں تلے سے زمین چِھن جاتی ہے۔۔۔ اس سے پہلے کہ آپ ڈوب جائیں۔۔ میری گُزارش ہے کہ اِن راہوں سے لوٹ آئیں۔۔ کیونکہ وہاں آپکا عکس تو آپ کا ساتھ دے سکتا ہے مجھ جیسا انسان نہیں۔۔۔ اُمید ہے آپ مجھے معاف کر دیں گی اور اپنے والدین کا کہا مانیں گی۔۔ یہی آپ سے میری پہلی اور آخری خواہش ہے۔۔

والسلام

علی

پُلِ صراط پر چلنا کیسا ہو گا۔۔ اس کا احساس اُسے اس دُنیا میں ہی ہو گیا تھا جب وہ یہ خط روشنی کو دینے اُس کے کمرے میں جا رہا تھا۔ اُس کے قدم بوجھل۔۔ اور آنکھیں تاریک ہونے لگیں۔۔ لیکن ہر آزمائش کی طرح وہ اس آزمائش پر بھی پورا اُترا تھا۔۔ خط روشنی کے پاس رکھنے کے بعد وہ وہاں رُکا نہیں۔۔ لیکن کچھ ہی دیر بعد روشنی اُس کے کمرے میں چلی آئی۔

"آپ چاہتے ہیں کہ میں اپنے والدین کا کہا مان لوں۔ اُس سفر سے یوں ہی چند پلوں میں لوٹ آؤں جس پر میں نے سالوں سفر کیا؟ اس سمندر میں میرا پورا وجود۔۔۔ سر تا پا بھیگ چُکا ہے۔ یہاں سے یوں لوٹ آنا میرے بس کی بات نہیں۔ اور اگر مجھے وہاں سے باہر لایا گیا تو میری زندگی ایسی ہی ہو گی جیسے بِنا آب۔۔۔ اِک آبی وجود۔۔۔ تڑپتا ۔۔ سسکتا۔۔۔ہے۔

لیکن مجھ سے کی جانے والی آپ کی پہلی خواہش کو میں رد نہیں کروں گی۔۔۔ ہاں بس اتنا ہو گا کہ اس بار آپ کو پچھتاوں کے اندھیرے سے نکالنے کے لیے یہ روشنی نہیں ہو گی۔۔۔"

یہ کہہ کر وہ وہاں رُکی نہیں اور اگلے ہی دن کھانے کی میز پر علی کو معلوم ہوا کہ روشنی نے اس رشتے کے لیے ہاں کہہ دی۔ اُس کے بعد وہاں کیا ہوا علی کو کچھ خبر نہ رہی۔۔۔ قسمت نے اتنی لاج رکھ لی تھی کہ اُسے روشنی کی شادی میں شریک نہیں ہونا پڑا۔۔۔ وہ تب ہسپتال کے کمرے میں پڑا اپنی زندگی سے اندھیروں اور اُجالوں کی جنگ لڑ رہا تھا۔۔۔

**********

جاری ہے

Link to comment

Create an account or sign in to comment

You need to be a member in order to leave a comment

Create an account

Sign up for a new account in our community. It's easy!

Register a new account

Sign in

Already have an account? Sign in here.

Sign In Now
×
×
  • Create New...