Disable Screen Capture Jump to content
ALL ADULT SECTION CLOSED IN MONTH OF RAMZAN ×
URDU FUN CLUB

بس یادیں باقی


Recommended Posts

بس یادیں باقی

ارے ہمارے تو نصیب ہی برے ہیں ۔ سسر صاحب تو ساری ذمہ داریوں سے جان چھڑا کر اس جہاں سے ہی گزر گئے اور اماں جان ہیں کہ اپنی جوان بیٹی کو ہمارے سر پر تھوپ کر ویزے کی خاطر امریکہ جا بیٹھی ہیں۔۔ اب بندہ پوچھے ۔۔۔۔جب ہمارے ہنسنے کھیلنے کے دن چھوٹی نند صاحبہ کے ناز اٹھانے میں گزر گئے اور بڑھاپے میں اگر ویزے مل بھی جائیں تو ہمارے کس کام کے ہوں گے؟ اچار ڈالیں گے کیا؟ارے کمبخت مر تی بھی تو نہیں ۔اگر ویزہ نہیں بھی ملتا تو کم سے کم اسکے مرنے سے وہ کمرہ تو ہمیں ملے۔ ہم کب تک تک دو دو, بچوں کے ساتھ ایک کمرے میں وقت گزاریں"۔

بڑی بھابھی شبانہ نے یہ سب کہتے ہوئے چھوٹی بھابھی عالیہ کو آنکھ ماری اور دونوں بات کرتے کرتے سرک کر سونیا کے دروازے کے مزید قریب ہو گئیں تاکہ سونیا بھی اپنے بارے میں اچھی طرح یہ زہر افشانیاں سن سکے اور ہمیشہ کی طرح گھبراہٹ کے مارے کمرے سے نکل کر پوچھے بھابھی کچھ کام ہے کیا ؟ بتائے میں کیا کردوں ؟ وہ دونوں اسی طرح اذیت دے دے کر اسکو اپنا زر خرید بنائے رکھتی تھیں ۔

ابھی بھی ان دونوں نے مل کر اپنے شوہروں سے چوری کمرہ بند کر کے انڈین مووی دیکھنے کا پروگرام بنایا تھا مگر بچوں کے ساتھ ہوتے یہ ممکن نا تھا اس لئے وہ چاہتی تھیں سونیا انکے چاروں بچوں کو سنبھالے جو ابھی ابھی تھکی ہاری کالج سے آنے کے بعد کھانا بنا کر برتن دھو کر اپنے کمرے میں کپڑے بدلنے گئی تھی۔

حسب توقع اپنے بارے میں یہ سنتے ہی سونیا گھبرا کر باہر نکلی ۔ابھی اس غریب کو کپڑے بدلنے کا وقت بھی نہیں ملا تھا،اسکے دیکھتے ہی چھوٹی بھابی چمک کر بولیں۔ "ہماری شہزادی کو تو بس اپنے کمرے میں گھسنے کا بہت شوق رہتا ہے ہر وقت۔ آخر ایسا کیا ہے وہاں؟"

سونیا خاموش رہی ۔ان سے کیا کہتی وہاں اسکی ماں کی یادوں کے سوا رکھا کیا تھا۔ چند کتابیں ،کچھ اونچے اونچے خواب جہاں ایک امیر شہزادہ آ کر اس کو اس درد بھری زندگی سے نکال لے جائے گا کہیں دور کسی پھولوں خوشبوؤں اور رنگوں کی دنیا میں جہاں سب کچھ طلسماتی سا ہو گا۔ اسکے علاوہ ایک ٹوٹا پھوٹا کیسٹ پلئیر جس میں وہ پوری رات ایک ہی گانا بار بار سنتی رہتی تھی

مائیں نی میں کینوں آکھاں درد وچھوڑے دا حال نی

دکھاں دی روٹی، سولاں دا سالن،آہاں دا بالن بال نی

مائیں نی مائیں نے۔۔۔

ساتھ ساتھ گنگناتے ہوئے جانے کتنے آنسو بہتے ہی چلے جاتے اور اسے خبر تک نا ہوتی۔سونیا کو رات میں مشکل سے چار یا پانچ گھنٹے اپنی ذات کے لئے ملتے تھے ان میں بھی وہ چاہے تو سو لے چاہے تو پڑھ لے ۔۔۔۔مگر بھابھیاں دن کا ایک لمحہ بھی اسے دینے کو تیار نا تھیں اور چاہتی تھیں وہ سارا دن بے دام غلام بنی انکے سامنے ہاتھ جوڑے حاضر رہے۔۔

اب بھی بچوں کو سنبھالنے کا حکم سن کر وہ جواب میں کچھ نہ بول سکی اور اپنی ڈبڈبائی آنکھوں کو سختی سے بھنچتے ہوئے اندر ہی اندر آنسو روکنے کی کوشش کرنے لگی۔

"اچھا اچھا ملکہ جذبات اب یہ ٹسوے بہانا شروع مت کرنا خدا کے لئے ۔۔۔چھوٹی بھابی عالیہ نے اسکے آگے ہاتھ جوڑے ۔ پتہ نہیں اس لڑکی کی آنکھوں میں اتنا پانی کہاں سے آ تا ہے میں تو کہتی ہوں اسکے آنسوؤں سے تو ایک نیا "جھمیلا" ڈیم بنایا جا سکتا ہے۔ پاکستان میں لوڈ شیڈینگ کا مسئلہ بھی حل ہو جائے گا "۔اس بات پر دونوں بھابھیاں کھلکھلا کر ہنس دیں۔

"بس کرو بہن یہ رونا دھونا ۔۔۔ اور بچوں کو سنبھالو ہمیں دروازہ بند کر کے کچھ کپڑے سینے ہیں۔ بچے" مشین میں ہاتھ مارتے ہیں سینے نہیں دیتے۔ خبردار جو ایک بھی بچہ ذرا بھی رویا ہو یا کسی کو ہمارے پاس بھیجا ہو۔ ہم خود کام ختم کر کے باہر آئیں گے" بڑی بھابھی نے چاروں بچوں کو اسکے حوالے کرتے ہوئے کہا۔

سونیا نے اپنی سسکیوں کا سینے میں گلا دباتے ہوئے ان چاروں بچوں کو ساتھ لیا اور اپنے کمرے میں آ گئی۔ کمرے کا دروازہ بند کرتے ہی وہ خود کو روک نہ پائی اور دیوار سے سر ٹکا کر زور زور سے رونے لگی

"امی امی امی ۔ وہ بار بار یہی تکرار کئے جاتی تھی"

کیوں چھوڑ دیا مجھے یوں اکیلا ؟ کاش میں مر جاؤں۔ بچے بھی اسے روتا دیکھ کر سہم گئے اور چھوٹے چھوٹے ہاتھوں سے اسکے آنسو صاف کرنے لگے۔ وہ بھی اس روز کے ڈرامے کے عادی تھے ۔ اپنی پھپھو سے بہت پیار کرتے تھے مگر عمر کے اس حصے میں تھے کہ اپنی ماؤں کو غلط سمجھنے کا تصور بھی نہیں کر سکتے تھے۔ مگر اپنی پھپھو کا دکھ کیسے سمیٹیں یہ بھی سمجھ نا پاتے تھے سو بس اسکی گود میں چپکے بیٹھے رہتے۔

جاری ہے

Link to comment

اردو فن کلب کے پریمیم سیریز اور پریمیم ناولز اردو فن کلب فورم کا قیمتی اثاثہ ہیں ۔ جو فورم کے پریمیم رائیٹرز کی محنت ہے اور صرف وقتی تفریح کے لیئے فورم پر آن لائن پڑھنے کے لیئے دستیاب ہیں ۔ ہمارا مقصد اسے صرف اسی ویب سائیٹ تک محدود رکھنا ہے۔ اسے کسی بھی طرح سے کاپی یا ڈاؤن لوڈ کرنے یا کسی دوسرے دوست یا ممبر سے شیئر کرنے کی بالکل بھی اجازت نہیں ہے ۔ جو ممبران اسے کسی بھی گروپ یا اپنے دوستوں سے شئیر کر رہے ہیں ۔ ان کو مطلع کیا جاتا ہے کہ وہ اسے کسی دوسرے ممبر ثانی سے شئیر نہیں کر سکتے ۔ ورنہ ان کا مکمل اکاؤنٹ بین کر دیا جائے گا ۔ اور دوبارہ ایکٹو بھی نہیں کیا جائے گا ۔ موجودہ اکاؤنٹ کینسل ہونے پر آپ کو نئے اکاؤنٹ سے کسی بھی سیئریل کی نئی اپڈیٹس کے لیئے دوبارہ قسط 01 سے ادائیگی کرنا ہو گی ۔ سابقہ تمام اقساط دوبارہ خریدنے کے بعد ہی نئی اپڈیٹ آپ حاصل کر سکیں گے ۔ اکاؤنٹ بین ہونے سے بچنے کے لیئے فورم رولز کو فالو کریں۔ اور اپنے اکاؤنٹ کو محفوظ بنائیں ۔ ۔ ایڈمن اردو فن کلب

باپ کے مرنے کے بعد اسکی امی کو ماموں نے زبردستی اپنے پاس امریکہ بلا لیا تھا تاکہ وہاں نیشنیلٹی لینے کے بعد وہ اپنے سب بچوں کو بلا سکیں گی۔ اسی لئے پچھلے سات سال سے اسکی ماں امریکہ میں تھی ۔ وہاں وہ ایک بسکٹ فیکٹری میں کام کر کہ پیسہ پیسہ جوڑ کر ان لوگوں کے آنے کے لئے ٹکٹ اور گھر بنا رہی تھی۔ مہینے میں ایک بار فون پر بات ہوتی تو اتنی مختصر کہ جب اسکی باری آتی بھابیاں سر پر کھڑی ہو جاتیں کہ کہیں کوئی شکایت نا کر دے۔ وہ بس ریسیور کانوں سے لگائے چپ چاپ ہزاروں آنسو لٹاتی اپنی مجبور اور بے بس ماں کی آواز سنتی رہتی۔

وہ خود ابھی اتنی بڑی نہ تھی صرف کالج کے فسٹ ائیر میں ہی تو تھی۔ ابھی تو اسکا اپنا بچپنا تھا۔۔۔۔۔ کاش ۔۔۔۔۔کوئی اسکے ناز اٹھانے والا ہوتا، کاش کوئی دنیا میں ایسا بھی ہو جو اس کا خیال رکھے۔۔۔۔ وہ اکثر حسرت سے سوچتی اور پھر خود دوسروں کا خیال رکھنے کو تیار ہو جاتی ۔ حالات نے اسے اپنی عمر سے بہت بڑا اور سمجھدار بنا دیا تھا ۔الٹا وہ سب کا خیال رکھتی تھی سب کے ناز اٹھاتی تھی۔اسکے دونوں بھائی ایک جنرل اسٹور کے مالک تھے سارا دن گھر سے باہر رہتے۔ رات 10 بجے آتے تو بیویوں کے ناز نخرے اٹھانے سے فرصت نا ملتی تو ایسے میں بیچاری بہن کے دکھ کیا سنتے یا کیا سمجھتے؟

جب بھابھیوں کے ظلم و ستم حد سے بڑھ گئے تو اس نے اپنے بڑے بھائی کو خودکشی کی دھمکی دے کر ہوسٹل میں رہنا شروع کر دیا، بھائی نے اسکو بہت سمجھایا کہ ہوسٹل میں رہنے سے لوگ اس کو شریف نہیں سمجھیں گے کیونکہ سب کو معلوم ہے اس کا اپنا گھر اسی شہر میں ہے۔۔پھر کیوں رہنا چاہتی ہے۔۔۔ مگر پھر اسکی دھمکی سے ڈر کے چھوڑ گئے مگر اس سے بڑی بڑی قسمیں لیں کہ وہ ہوسٹل میں رہ کر اپنے خاندان کی عزت کا پورا پورا خیال رکھے گی اور بے جا ۤزادی سے مکمل پرہیز کرے گی۔۔۔۔جسکا اس نے وعدہ کر لیا۔

ہوسٹل میں اسکے کمرے میں چار لڑکیاں تھیں ۔ سب کی سب بہت شرارتی اور زندگی سے بھرپور۔ ان سب نے مل کر اسکا نام اداس شہزادی رکھا ہوا تھا کیونکہ وہ اکثر شام کو نہا کر اپنے لمبے لمبے بال کھولے چپ چاپ گھنٹوں سیڑھیوں پر بیٹھی رہتی ۔۔۔کسی سے کوئی بات نا کرتی نہ ہی کسی بات کا جواب ہوں ہاں سے آگے بڑھتا۔

لوگ ایسے بہت مغرور سمجھتے تھے کیونکہ وہ بہت حسین تھی۔ جو بھی اسکو دیکھتا ،بس دیکھتا ہی رہ جاتا، خاص طور پر گھٹنوں تک لمبے خوبصورت بال اور لمبی لمبی پلکوں والی نشیلی آنکھوں پر تو اسکے کالج کی ساری لڑکیاں ویسے ہی فدا رہتی تھیں اور اس کی پلکیں ہاتھوں سے کھینچ کھینچ کر یقین کیا جاتا کہ یہ نقلی نہیں بلکہ اصلی ہیں۔ لڑکوں کا تو ذکر ہی کیا۔ جو ایک جھلک دیکھ لیتا تو نظر پلٹنا جیسے بھول جاتا تھا ۔ اس کی روم میٹ بیلا اکثر اسے چھیڑتی اور کہتی "کاش میں لڑکا ہوتی میری اداس شہزادی تو تم کو کہیں اور جانے نا دیتی" جواب میں وہ بس جھینپ کر مسکرا دیتی۔

اسے بچپن سے کتابیں پڑھنے کا بہت شوق تھا اپنی تمام تر جمع پونجی وہ صرف کتابیں خریدنے میں صرف کرتی۔ ایک دن اس نے دیکھا تھا شملہ پہاڑی کے پاس ایک بابا جی زمین پر کپڑا بچھائے پرانی کتابیں بیچ رہے ہیں۔ بس اس دن سے بار بار وہ انکے پاس جاتی اور ہر بار پرانی کتابوں کا ایک نیا بنڈل خرید لاتی۔ یہ کتابیں ہی تو اسکی تنہای کا واحد سہارا تھیں۔۔

آج چوتھی بار تھی جب وہ کتابیں لینے آئی تو اسی لڑکے کو رحمت بابا کے پاس پھر سے کتابیں چھانٹتے دیکھا جسے پہلے بھی وہاں کئی بار دیکھ چکی تھی۔ اب کی بار وہ اسکو محض ایک اتفاق ماننے کو تیارہ نہ تھی کہ وہ اچانک آج بھی وہاں آ گیا ہے ۔اس کو شک ہو رہا تھا یہ ضرور میرا پیچھا کرتا ہے۔۔۔مگر کبھی پیچھا کرتے دیکھا نہیں تھا۔.

وہ دیکھنے میں کوئی ہیرو بالکل نہیں لگتا تھا ۔ بالکل عام سی شکل و صورت کا عام سا لڑکا تھا جسکے پاس ایک پرانی سی بائیک ہوتی تھی مگر ایک چیز اس میں بہت خاص تھی بہت ہی خاص جو آج تک سونیا نے اپنے طرف اٹھنے والی کسی اور نظر میں نہیں دیکھی تھی وہ تھی اسکی پاکیزگی اور شرافت۔

وہ سونیا کو اتنے پیار اور احترام سے ٹکٹکی باندھ کر دیکھتا جیسے وہ کوئی بہت نازک اور ماوراء ہستی ہے اور جیسے ہی سونیا کی نظر سے نظر ملتی گھبرا کر ایسے منہ پھیر لیتا جیسے کو ئی جرم کرتے ہوئے پکڑا گیا ہو ۔ وہ لاکھ چاہنے پر بھی سونیا کو برا نہ لگتا اورنہ ہی اس سے کچھ خوف محسوس ہوتا ورنہ وہ آ ۤوارہ ہوس میں لتھڑی نگاہوں سے بہت خوف کھاتی تھی اور اشد ضروری کام کے علاوہ ہوسٹل سے باہر کھبی نہیں جاتی تھی۔

ابھی وہ چند ہی کتابیں چھانٹ پائی تھی کہ دیکھتے دیکھتے اچانک بارش شروع ہو گئی ایک دم اندھیرا پھیل گیا اور اتنی تیز بارش کہ پل میں جل تھل ہو گیا ۔ اسکے پورے کپڑے بھیگ کر بری طرح چپک گئے۔ رحمت بابا نے جلدی جلدی اپنی کتابیں پلاسٹک کے تھیلے میں ڈالنی شروع کیں تو وہ دونوں بھی انکی مدد کروانے لگے۔۔۔ بابا نے اسکی حا لت دیکھ کر کہا "عمیر بیٹا تم سونیا کو ہوسٹل چھوڑ دو ایسے اکیلے میں کھڑے ہونا مناسب نہیں لگتا رات بھی ہونے والی ہے"

سونیا نے بہت خوف اور گھبراہٹ میں انکو دیکھا ۔وہ اپنے اصولوں کی بہت پکی تھی اور اپنے بھائیوں سے کیا وعدہ بھی نبھانا جانتی تھی ۔اپنے خاندان کی عزت بہت پیاری تھی۔۔۔۔اس لئے ایسا ویسا کوئی رسک نہ لینا چاہتی تھی کہ جسکا نتیجہ کچھ برا ہو سکتا ہو۔۔۔ یا خدا کے سامنے شرمندہ ہونا پڑتا۔۔۔۔ اسکا تذبذب دیکھ کر بابا نے کہا "بیٹیا عمیر بہت نیک اور اچھا لڑکا ہے ۔۔۔۔ میں برسوں سے اسے جانتا ہوں تم کو ئی فکر نا کرو اور اسکے ساتھ چلی جاؤ اتنی بارش میں تنہا کھڑے ہونا اچھی بات نہیں"

خیر بہت پریشانی اور الجھن میں وہ اسکے ساتھ ہوسٹل کا پتا بتا کر آ تو گئی مگر جلدی میں عمیر سے اپنا کتابوں کا تھیلا لینا بھول گئی۔ اگلے دن گیٹ کیپر نے جب کہا اسکا کوئی "ویزیٹر" آیا ہے تو وہ بہت حیران ہوئی ۔ اسکے بھائی صرف اتوار کو ملنے آتے تھے آج پیر کو کون آ گیا۔۔۔ وہ گھبراہٹ میں دوپٹہ ٹھیک سے اوڑھ کر جب گیت پر آئی تو عمیر کو سامنے دیکھ کر سخت حیران ہوئی بلکہ نا چاہتے ہوئے بھی واضح ناگواریت آنکھوں سے چھلکنے لگی اور دل میں سوچنے لگی۔ اوہ ۔۔۔۔نو۔۔۔ وہی فرسودہ لفٹ لینے کا طریقہ۔۔۔۔۔ مجبوری میں لفٹ کیا لے لی ۔یہ صاحب جان کو آ جائیں گے اب ۔۔۔۔میں یہ فلمی سٹوری کبھی شروع نہیں ہونے دوں گی ۔ میں ایسی نہیں ہوں یہ مجھے غلط سمجھ کر آیا ہے۔ ۔میں ایک شریف خاندان کی شریف بیٹی ہوں اور مجھے اپنے بھائیوں کا سر کبھی نہیں جھکانا ہے ایسی ویسی حرکتوں سے نہ ہی اپنے خاندان کو بدنام کرنا ہے۔

جاری ہے

Link to comment

واہ گرو جی واہ! ایک اچھوتی کہانی! اور ہیرؤئن کی وہی مظلومانہ کہانی! لیکن پھر بھی اچھی ہے پڑھنے کو دل کرتا ہے۔ ہیروئن کا کریکٹر ابھی تک تو ٹائٹ ہے دیکھنا یہ ہے کہ یہ کب ڈھیلا ہوتا ہے۔

Best Of Luck

Edited by lund4phuddies
الفاظ
Link to comment

Guru Jee, Story ka pehla Part padh kar aisa laga ke "Aap ne "Kahani Ghar Ghar ki" ko start kar dia hai, Kiu ke Hamare Muaashre may takreeban her ghar may yahi kahani hoti hai.

Lykin Story ke doosre Part se hi Asal Kahani shuru huwi hai

Waiting for Updates

Aur haan Thanks for such a nice and Social Story.

Link to comment

ابھی اس نے عمیر کے سامنے پہنچ کر کچھ کہا بھی نہیں تھا کہ عمیر نے اسکی کتابوں والا تھیلا آگے کر دیا۔ یہ آپ کل بھول گئیں تھیں۔ اوہ ۔۔۔میری کتابیں؟ یہ دیکھتے ہوئے وہ سارا غصہ بھول گئی اور مسکرا کر شکریہ ادا کیا۔ اسکی مسکراہٹ سے کچھ حوصلہ پا کر عمیر نے سرخ گلابوں کا گلدستہ اسکے سامنے کر دیا۔

"جی۔۔۔۔۔۔۔ وہ اس کے ہاتھ میں پھول دیکھ کر بھونچکی رہ گئی اور پھر سے سخت پریشان ہو کر دو قدم پیچھے ہٹ گئی۔ اور بولی "۔۔ جی نہیں۔۔۔۔ ہرگز نہیں۔۔۔ مجھے یہ پھول نہیں لینے ۔یہ آپ کیوں لائے ہیں؟" اسکے خوبصورت چہرے پر غصے کی بجلیاں سی کوند گئیں۔

اسکو پیچھے ہٹتے دیکھ کر عمیر بھی شرمندہ سا ہو گیا اور سر جھکا کر بولا " "مجھے زیادہ آداب نہیں آتے مگر سنا ہے ہوسٹل میں آنے والے پردیسیوں کے لئے کچھ نہ کچھ سوغات ضرور لاتے ہیں۔ آپ شاید او ر تو کوئی چیز قبول نہ کرتیں اور خالی ہاتھ آنا مجھے اچھا نہیں لگا اس لئے پھول ہی لے آیا مگر کوئی بات نہیں۔۔۔ آپ ناراض مت ہوں میں انکو ابھی کوڑے میں پھینک دیتا ہوں۔" وہ پاس ہی بنے ٹریش کین کی طرف بڑھا تو وہ پھولوں کی شیدائی تڑپ ہی تو اٹھی" نہیں نہیں۔۔۔۔ اتنے خوبصورت پھول ہیں ۔ پلیز مت پھینکیے، رہنے دیں میں ہی رکھ لیتی ہوں۔ مگر آپکو اگر لانا بھی تھا تو کم سے کم سرخ گلاب ہرگز نہیں لانے تھے ۔ کوئی بھی دوسرا رنگ لے آتے ۔

مگرکیا دوسرے رنگ کے گلابوں پر آۤپ کو اتنا غصہ نہیں آتا؟ عمیر نے حیرت سے پوچھا؟

ۤآتا تو ۔۔مگر اتنا نہیں۔۔۔۔۔۔وہ پھرسے گھبرا گئی اور کوئی بات نہ بن پڑی تو جھلا کر اسی پر برس پڑی۔

آ پکو نہیں معلوم کہ سرخ گلاب دینے کا کیا مطلب ہوتا ہے ؟

""جی نہیں مجھے تو بالکل نہیں معلوم۔" ۔۔۔۔۔۔ عمیر اپنی شرارت آمیز ہنسی ہونٹوں میں دبا کر بڑی سنجیدگی سے بولا، میں تو پھولوں کو بس پھول سمجھتا ہوں۔ آپکو پتا ہے تو میرے علم میں بھی اضافہ کر دیجئے پلیز"

اچھا ۔۔۔اگر آپ کو پہلے معلوم نہیں تھا تو اب غور سے سن لیں۔۔۔ وہ اپنے سر پر دوپٹہ ٹھیک سے جماتے ہوئے بہت ناصحانہ انداز میں گویا ہوئی ۔۔۔یہ سرخ پھول تو صرف محبت۔۔۔۔۔۔۔" کہتے کہتے جو عمیر کو اپنی طرف بہت پیار اور شرارت سے دیکھ کر مسکراتا پایا تو بری طرح جھنپ کر خاموش ہو گئی اور جلدی سے بات بدلنے کو بولی ۔۔"بس دوبارہ کھبی سرخ گلاب مت لائے گا اگر لانے ہیں تو کوئی اور رنگ ہی لائیں"

"دوبارہ ۔۔جب آؤں۔۔۔۔?" وہ اس کے سامنے پوچھنے کو جھکا ۔۔۔ تو گویا آپ بھی جانتی ہیں میں دوبارہ ضرور آؤں گا؟"

وہ شرارت سے ہنسا تو وہ بری طرح سٹپٹا گئی اور خود کو کوسنے لگی کہ انجانے میں خود اپنے پیروں پر کلہاڑی مار بیٹھی تھی۔۔

سونیا نے عمیر کو بہت روکنا چاہا۔ اپنی عزت کے واسطے دے کر، بہت روئی پیٹی۔ اپنے اور اپنے خاندان کی عزت کی قسمیں دیں ۔ بار بار اس کو بتایا یہ سب محبت وغیرہ شادی کے بعد ہی اچھے لگتے ہیں۔۔۔اس سے پہلے صرف جھوٹ اور گناہ کی باتیں ہیں۔ رسوائی اور ذلت کی داستان ہے۔ پھر اپنے بھائیوں سے کئے وعدے بتائے۔۔۔ اپنی جان دینے کی دھمکیاں بھی دے ڈالیں مگر عمیر کے طولانی عشق کے سامنے اسکی کو ئی پیش نہ چلی۔ وہ لاکھ چاہنے پر بھی عمیر کی محبتوں پر کوئی بند نہ باندھ سکی اور مجبور ہو کر خود کو حالات کے دھارے پر چھوڑ دیا کیونکہ شاید وہ بھی بچپن سے محبتوں کی ترسی ہوئی تھی۔ زندگی میں پہلی بار اتنا مان اور پیار ملا تو خود کو بچانا مشکل ہو گیا۔

عمیر تو سونیا کا جیسے دیوانہ تھا وہ اسکے لئے روزانہ گجرے لاتا ۔ پھولوں کے بڑے بڑے گل دستوں سے ہر وقت اسکا کمرہ مہکا کرتا۔ ۔ اسکے ساتھ ساتھ روم میٹس کے لئے بھی بہت سا کھانا لاتا۔ سونیا کے لئے دیسی انڈے۔ مکھن ۔دیسی گھی لاتا کہ ہوسٹل میں اور کون اسکا خیال رکھتا ہو گا بھلا۔ سردیاں آئیں تو نیا کمبل لے آیا۔ گرمی شروع ہوی تو نیا پنکھا لا دیا۔ وہ چیختی رہتی"

مجھے یہ سب نہیں چاہئے پلیز ۔ مجھ پر اپنا پیسہ یوں برباد مت کرو ورنہ ہم اپنا گھر کیسے بنائیں گے۔ ابھی تو تم پر چھوٹے بہن بھائیوں کی ذمہ داری بھی ہے اور تمھاری معمولی سی جاب ہے اور تم ساتھ ساتھ پڑھ بھی رہے ہو، اپنے پیسے بچا کر رکھو،"

"انکی فکر کرنے کے لئے خدا جو ہے وہ مسبب الاسباب ہے ۔ ہر کوئی اپنے نصیب کا ساتھ لاتا ہے۔۔۔ عمیر آسمان کی طرف اشارہ کرتا"

عمیر کا بس نہ چلتا کہ سونیا کو اپنے کھال کی بھی جوتیاں بنا کر پہنا دیتا۔ ہر روز صبح 4 بجے اٹھ کر نہا دھو کر تیار ہوتا اور 2 گھنٹے سخت سردی میں بائیک چلا کر اسکے ہوسٹل پہنچتا اور جب وہ کالج کے لئے نکلتی تو اسے ہمیشہ پہلے سے اپنا انتظار کرتا ہوا پاتی ۔ وہ کسی کانچ کی گڑیا کی طرح اس کی حفاظت کرتا تھا۔ خود اسے کالج چھوڑ کر آتا۔ پھر وآپسی پر بھی لے کر ہو سٹل چھوڑ دیتا۔ وہ اسکو زمانے کے سارے سرد و گرم سے کسی مضبوط سائباں کی طرح بچائے ہوئے تھا

اس قدر محبت پا کر سونیا تو جیسے ہواؤں میں اڑتی تھی۔۔۔ وہ بات بات پر بلا وجہ اس سے ناراض ہو جاتی۔ اپنے بہت ناز اٹھواتی اور ان سب کو عمیر کی محبت سمجھنے کی بجائے اپنا حق سمجھ کر لیتی۔ اپنی خوبصورتی کا صدقہ سمجھا کرتی۔ وہ اس غلط فہمی میں مبتلا ہو گئی تھی کہ پوری دنیا اسکو ایسے ہی چاہے گی۔ یا شاید کہ وہ بنی ہی اس لئے ہے کہ سب لوگ اس سے ایسی ہی محبت کریں گے۔ اسکو خود بھی اس بات کا یقین نہیں تھا کہ اسے بھی عمیر سے محبت ہے یا وہ محض عمیر کا دل رکھنے کی خاطر اسکی طرف سے زبردستی محبت قبول کر رہی ہے۔ حقیقت میں سونیا نے عمیر کی محبت کو اتنی ہی نخوت سے قبول کیا تھا جیسے کوئی شہنشاہ اپنے حقیر درباریوں کا تحفہ قبول کر لیتا ہے۔

عمیر بار بار اسکو کہتا " میری سونیا میری پیاری سونیا ۔ سمجھنے کی کوشش کرو ۔۔۔میں تمھاری خوش قسمتی ہوں۔ گھڑی بھر کے ساتھی تو ہزاروں مل جائیں گے مگر مجھ سا سچا عاشق صدیوں میں ایک پیدا ہوتا ہے۔ اس پیار کی قدر کرو پلیز میری محبت کو "فار گرانٹیڈ" مت لو ورنہ بہت پچھتاؤ گی ایک دن" سونیا اسکی بات کو ہنسی میں اڑا دیتی۔

عمیر سونیا کو کہیں باہر لے کر جانا چاہتا تو وہ ہمیشہ منع کر دیتی اور کہتی نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ سب خراب باتیں ہیں۔بہت گناہ کی باتیں ہیں۔ میں تمھارے ساتھ پارک میں نہیں جا سکتی۔ ہم شادی کے بعد خوب گھومیں گے مگر ابھی مجھے غلط باتوں کی طرف مائل نہیں کرو پلیز۔۔۔۔۔۔ ہمیں ہر حال میں اپنے مذہب اور معاشرتی پابندیوں کا خیال رکھنا ہو گا اور اس میں ایسے گھومنے پھرنے کا کوئی تصور نہیں ہے۔۔ ویسے بھی اگر کوئی جاننے والا مل گیا تو کیا سوچے گا"؟

پھر عمیر کی بہت زیادہ منت سماجت سے تنگ آ کر وہ کبھی کبھی کے وعدے پر شام کو باغ جناح میں چلے جاتے تو دونوں ہر درخت اور پھولوں کے کنج کے پاس بیٹھ کر اندازے لگاتے کہ بانو قدسیہ نے "راجہ گدھ" میں جن جگہوں کا ذکر کیا ہے وہ شاید یہ والی ہو گی یا پھر وہ والی۔

"تم میرے ساتھ ایسا تو نہیں کرو گی سونیا ؟ عمیر آنکھوں میں ہزاروں وسوسے لئے بڑی امید و نا امیدی کی کشمکش میں اسے دیکھ کر پوچھتا ؟ مجھ سے وعدہ کرو میری قسم کھاؤ "راجہ گدھ" جیسا انجام تو نا ہو گا میری محبت کا ؟ ایسا نا ہو آج سے بیس سال بعد ہم بھی ایسا ہی کوئی ناول لکھ رہے ہوں وہ ایکدم انجانے خدشوں سے ببیکل ہو جاتا تو وہ ہنس کر کہتی

"نہیں میں ایسی نہیں ہوں عمیر۔ دیکھ لینا میں لوٹ کر ضرور آؤں گی تمھارے پاس ۔۔۔چاہے آنے میں کچھ دیر ہی کیوں نا ہو جائے" مگرآ ؤں گی ضرور۔۔۔۔۔"

اس پر عمیر بہت جذب کے عالم میں خدا سے وہی اپنی فیورٹ دعا مانگے جاتا اور کہتا " میری خدا سے دعا ہے جب میں مروں تو تمھاری گود میں میرا سر ہو اور یہ دعا پوری ہونے کے لئے ضروری ہے تم زندگی بھر میرے ساتھ رہو تب ہی تو مرنے کے وقت بھی سات ہو گی نا۔ دیکھا میں نے کتنی چالاکی سے دو دعائیں ایک ساتھ مانگ لی ہیں اب تو خدا کو آخری والی پوری کرنے کے لئے پہلی والی بھی ضرور پوری کرنی پڑے گی۔" دیکھا میں کتنا چالاک ہوں۔۔۔۔ وہ خوشی سے مسکرائے جاتا اور چمکتے چہرے کے ساتھ بیٹھی سب سنا کرتی۔

وہ دونوں جب بھی کبھی باغ جناح کی کنٹین میں بیٹھ کر چائے پیتے تو وہاں ہمیشہ ایک ہی گانا لگا ہوتا

دسمبر کا سماں وہ بھیگی بھیگی سردیاں

گزاری تیرے سنگ جو لگا کے تجھے انگ جو

وہ پل سب کیا ہوئے نہ جانے کہاں کھو گئے

بس یادیں باقی

جاری ہے

Link to comment

Create an account or sign in to comment

You need to be a member in order to leave a comment

Create an account

Sign up for a new account in our community. It's easy!

Register a new account

Sign in

Already have an account? Sign in here.

Sign In Now
×
×
  • Create New...