Khan-Baba Posted February 14, 2024 #1 Posted February 14, 2024 پروین شاکر کچھ تو ہوا بھی سرد تھی کچھ تھا ترا خیال بھی دل کو خوشی کے ساتھ ساتھ ہوتا رہا ملال بھی بات وہ آدھی رات کی رات وہ پورے چاند کی چاند بھی عین چیت کا اس پہ ترا جمال بھی سب سے نظر بچا کے وہ مجھ کو کچھ ایسے دیکھتا ایک دفعہ تو رک گئی گردش ماہ و سال بھی دل تو چمک سکے گا کیا پھر بھی تراش کے دیکھ لیں شیشہ گران شہر کے ہاتھ کا یہ کمال بھی اس کو نہ پا سکے تھے جب دل کا عجیب حال تھا اب جو پلٹ کے دیکھیے بات تھی کچھ محال بھی میری طلب تھا ایک شخص وہ جو نہیں ملا تو پھر ہاتھ دعا سے یوں گرا بھول گیا سوال بھی اس کی سخن طرازیاں میرے لیے بھی ڈھال تھیں اس کی ہنسی میں چھپ گیا اپنے غموں کا حال بھی گاہ قریب شاہ رگ گاہ بعید وہم و خواب اس کی رفاقتوں میں رات ہجر بھی تھا وصال بھی اس کے ہی بازوؤں میں اور اس کو ہی سوچتے رہے جسم کی خواہشوں پہ تھے روح کے اور جال بھی شام کی نا سمجھ ہوا پوچھ رہی ہے اک پتا موج ہوائے کوئے یار کچھ تو مرا خیال بھی 1
Recommended Posts
Create an account or sign in to comment
You need to be a member in order to leave a comment
Create an account
Sign up for a new account in our community. It's easy!
Register a new accountSign in
Already have an account? Sign in here.
Sign In Now