Khan-Baba Posted February 14 Share #1 Posted February 14 سامنے اس کے کبھی اس کی ستائش نہیں کی احمد فراز سامنے اس کے کبھی اس کی ستائش نہیں کی دل نے چاہا بھی اگر ہونٹوں نے جنبش نہیں کی اہل محفل پہ کب احوال کھلا ہے اپنا میں بھی خاموش رہا اس نے بھی پرسش نہیں کی جس قدر اس سے تعلق تھا چلا جاتا ہے اس کا کیا رنج ہو جس کی کبھی خواہش نہیں کی یہ بھی کیا کم ہے کہ دونوں کا بھرم قائم ہے اس نے بخشش نہیں کی ہم نے گزارش نہیں کی اک تو ہم کو ادب آداب نے پیاسا رکھا اس پہ محفل میں صراحی نے بھی گردش نہیں کی ہم کہ دکھ اوڑھ کے خلوت میں پڑے رہتے ہیں ہم نے بازار میں زخموں کی نمائش نہیں کی اے مرے ابر کرم دیکھ یہ ویرانۂ جاں کیا کسی دشت پہ تو نے کبھی بارش نہیں کی کٹ مرے اپنے قبیلے کی حفاظت کے لیے مقتل شہر میں ٹھہرے رہے جنبش نہیں کی وہ ہمیں بھول گیا ہو تو عجب کیا ہے فرازؔ ہم نے بھی میل ملاقات کی کوشش نہیں کی 1 Link to comment
Recommended Posts
Create an account or sign in to comment
You need to be a member in order to leave a comment
Create an account
Sign up for a new account in our community. It's easy!
Register a new accountSign in
Already have an account? Sign in here.
Sign In Now