Disable Screen Capture Jump to content
Novels Library Plus Launched ×
Advertising Policy 2022-2024 ×
URDU FUN CLUB

گرم شریف زادیاں


Recommended Posts

یہ کہانی فرضی کرداروں پر مستمل ہے نام بھی فرضی ہیں کسی سے مماثلت اتفاقیہ ہو سکتی ہے اس کہانی کا بیک گراؤنڈ دیہاتی ہے تو اس میں کرداروں کی آپسی گفتگو پنجابی میں ہوگی پریشانی کےلیے معذرت پہلی بار زور آزمائی کی ہے غلطیاں کوتاہیاں معاف شکریہ 

میرا نام بوٹا ہے میری عمر 30 سال ہے میں ذات کا مصلی ہوں اور محنت مزدوری کرتا ہوں غیر شادی شدہ ہوں میں ساہیوال کے قریب ایک گاؤں کا رہائشی ہوں میرا ایک بھائی اور ہے جس کا نام شیدا ہے جبکہ ابے کا نام دتہ ہے ابا قدرتی طور پر ہی کافی چھریرے بدن کا مالک ہے اس کی عمر 60 سال کے قریب ہے لیکن ابھی بھی وہ بوڑھا نہیں لگتا ابھی بھی گاؤں کی عورتوں میں اس کے چرچے ہیں پیچھے میری جسامت بھی ابے جیسی ہی ہے لمبا قد چوڑا سینہ مضبوط جسم کالا رنگ جس پر کئی عورتیں مرتی ہیں ابا وہیں گاؤں میں نمبردار کے ہاں کاما لگا ہوا تھا اس کی ساری زمینداری اس کے ذمے تھے چھوٹا بھائی شیدا بھی ابے کے ساتھ ہوتا تھا جبکہ میں شہر میں ایک دکان پر کام کرتا تھا میں ایف اے پاس تھا اس کی وجہ یہ تھی کہ ابا شروع سے گاؤں کے نمبردار کے پاس تھا تو میں بھی نمبردار کے بیٹے کے ساتھ تھوڑا بہت پڑھ گیا وہ باہر چلا گیا تھا جبکہ میں کام پر لگ گیا زندگی بہت ہی اچھی گزر رہی تھی سارا دن دکان پر کام کرتا وہ بہت بڑی دکان تھی کھاد والی اس پر کام کے بعد گھر آجاتا میں جنسی طور پر بھی کافی صحت مند تھا میرا لن بازو جتنا لمبا اور موٹا تھا اس کی وجہ ہندی خوراک اور کچھ ہماری نسل میں بھی تھا میرا اتنا بڑا لن کوئی عورت پورا نہیں لے پاتی تھی اکثر پرانی عورتیں مجھے کہتی کہ بوٹے تیرا لن تیرے باپ جیسا ہے میں حیران ہوتا تھا کہ ابے کا لن بھی اس جیسا ہے خیر کبھی کبھار جب زیادہ گرمی ستاتی تو ڈیرے کی کھوتی سے کام چلا لیتا جو میرا پورا لن برداشت کر لیتی تھی گھر میں ہم تین ہی لوگ تھے امی کا کئی برس پہلے انتقال ہو چکا تھا زندگی ایسے ہی گزر رہی تھی کہ ایک دن ابے کا کوئی رشتہ دار اآیا اور ابے سے بولا کہ دتیا ہک کامے دی لوڑ اے جے اپنے پتر نوں گھل چاتے کم بن ویسی گیا ابے نے مجھے کہا کہ اچھی تنخواہ وغیرہ ہے چلا جا خیر میں اس کے ساتھ کام پر چلا گیا دو تین گھنٹے بعد ہم اس گاؤں پہنچے گاؤں زیادہ بڑا تو نہیں تھا 25 30 گھر تھے گاؤں سے گزرے کر گاؤں کے آخر پر ہم ایک گھر پہنچے وہ گھر ایک حویلی تھی جس کا بڑا سا گیٹ تھا بابے نے دروازہ کھڑکایا تو اندر سے ایک 25 سال کا لڑکا نکلا جس کا قد لمبا تھا وہ بابے دیکھ کر بڑی عزت سے ملا ہم اندر چلے گئے حویلی دو حصوں میں ایک چھوٹی سی دیوار سے تقسیم تھی جس کے ایک طرف رہائش تھی جبکہ دوسری طرف باڑا تھا باڑے میں 20 کے قریب ڈنگر تھے حویلی میں باہر باڑے میں ڈنگر کھلے پھر رہے تھے ایک طرف چارے اور ڈنگروں کے کمرے تھے پھر ایک طرف ملازم کی رہائش کے کمرے تھے گیٹ کے پاس ہی صحن تھا جہاں پر چارپائیاں پڑی تھیں تھیں جبکہ گھر والی طرف بھی دروازہ تھا جو بند تھا اندر داخل ہوتے ہی ہم اس سے ملے تو بابے نے کہا کہ اے شانی اے اے اس دا گھر اور شانی اے او بندہ لبھیا تیرے واسطے اس دا نام بوٹا اے بڑا چنگا چھور اے اپنا رشتہ دار اے شانی بولا سہی اے سانوں تے کم آلا بندہ چاہی دا شانی بولا میں امی نوں بلاندا آں اس نال مل لئے اس ہی سارا کم تینوں سمجھانا میں بولا اچھا وہ یہ کہ کر اندر چلا گیا بابا بولا شانی صبح تے شام دا دودھ اکٹھا کرکے شہر چلا جاندا اوتھے ڈیرے ہے اس دی صبح دا ددھ ویب کے آجاندا اے اس دا بڑا کم ہے اوتھے میں بابے کی بات سن رہا تھا کہ اتنے میں شانی اندر داخل ہوا اور اس کے پیچھے ایک 30 35 سال کی عمر کی عورت داخل ہوئی جو کہ ایک کسے ہوئے لباس میں تھی اوپر اس کے دوپٹہ تھا جس نے اوپر والا حصہ تو ڈھانپ رکھا تھا جبکہ نیچے سے اس کی چوڑی گانڈ ہلتی ہوئی آگے بڑھ رہی تھی میں پہلے تو سمجھا کہ شاید یہ شانی کی بہن ہے کیونکہ وہ کہیں سے بھی شانی کی ماں نہیں لگ رہی تھی اس کا بھرا ہوا کسا بدن دیکھ کر تو میں چونک سا گیا وہ شانی کے پیچھے چل رہی تھی میں نے ایک نظر بھر کر اس کے بدن کا جائزہ لے کر اس کی طرف دیکھا تو وہ بھی گہری آنکھ بھر کر مجھے دیکھ رہی تھی اس کی آنکھ میں بہت ہی مدہوشی مجھے نظر آئی اور اس کی آنکھوں میں چمک صاف نظر آ رہی تھی جیسے اسے کچھ مل گیا ہو میں اس کے آنے پر اٹھ کر کھڑا ہو کر اسے سلام کیا اس نے آنکھ بھر کر مجھے سر سے پاؤں تک ایک نظر دیکھا اور میری آنکھوں میں آنکھیں گاڑھ کر سلام کا جواب دیا میں اس کے انداز سے تھوڑا گھبرا سا رہا تھا کیونکہ سامنے اس کا بیٹا بھی تھا اور بابا بھی تھا شانی بولا اے امی بابے اے کاما لئے آندا اے بابے اٹھ کر بولا باجی اے بندہ لبھیا اے اپنا رشتہ دار اے تےچنگا بندہ ہے اس نے ایک نظر مجھے دیکھا اس کی آنکھوں میں بہت مستی تھی وہ بولی بابا تیرا رشتے دار اے تے چنگا ہی ہوسی اور مسکرا کر شرارتی انداز سے مجھے دیکھا اور پاس موڑھے پر بیٹھ گئی جس سے اس کی گانڈ کے موٹے چتڑ موڑھے سے لڑھک گئے میں اس کے چتڑ دیکھ کر نظر چرا کر اوپر دیکھا تو وہ مجھے دیکھ کر ہلکا سا مسکرا گئی میں سمجھ گیا کہ یہ کھلی ڈلی عورت اے جس سے میں دل ہی دل میں خوش سا ہو گیا بابا بولا اس دا نام بوٹا ہے اے ہن میری جاہ تے کم کرسی بوٹے اے پھتیں اے اس باڑے دی مالک پہلے میں ایتھے کم کردا ہاس ہن میرے کولو اے کم ہوندا نہیں ہن اے توں ہی کرنا اے پھتیں مجھے عجیب سا نام لگا لیکن پہلے دیہاتی لوگ ایسے ہی نام رکھتے تھے پھتیں بولی بابا بوٹا چنگا تڑکرا بندہ اے اگے میں تے میریاں دھیاں رل کے بابے نال کم کروانا ہوندا اے ہن مڑ بوٹا ہکلا ہی سارا باڑا سنبھال لیسی میں دھیاں کا نام سن کر چونکا کہ اس کی بیٹیاں بھی ہیں جو باڑے میں کام کرتی تھیں پھتیں میرے چہرے کے تاثرات پڑھ کر بولی میریاں دھیاں ایڈیاں نفیس نہیں بنیاں شروع تو کم کردیا آیاں ہین کم ودھیا تے وے بابے نوں کم تے رکھیا ہا ہن اے آکھدا اس کولو ہوندا نہں اس واسطے تینوں رکھیا اے اپنا کم کرن اچ کہڑا شرم سے تیرے نال وی کم کرسیاں گیاں اور ہنس دی میں بھی پھتیں کو دیکھ کر مسکرا گیا پھتیں بالکل جوان لگ رہی تھی لیکن اس کی عمر زیادہ تھی بابا بولا ہلا مینوں اجازت دیو آپس اچ گل مکا لئو مینوں ہور وی کم ہین یہ کہ کر بابا اٹھا اور جانے لگا 

شانی بھی اٹھا اور بولا امی بوٹے نوں کم سمجھا دے تینوں ہی پتا ہے میں وی ہک کم جاؤ آں اور اٹھ کر نکل گیا اس کے جانے کے بعد پھتیں نے آنکھ بھر کر مجھے دیکھا اور بولی بوٹے اے ڈنگراں دا ہی کم کرنا ہئی باہروں پٹھے وڈھ لیونے نی تے کتر کے گھٹنے ہین وت اے چونیاں وی ہین میں تے میریاں دھیاں وہ تینوں ناک نال کریسن گیاں میں ہنس کر ایک آنکھ گھما کر سامنے اس کا ابھرا سینہ دیکھ کر بولا کوئی گل نہیں میں ہکلا وی کر لیساں گیا پھتیں نے آنکھ بھر کر مجھے مسکرا کر دیکھا اور ہنس کر بولی ہلا بہو تینوں دھیاں نال ملاواں اور اٹھ کر اندر دروازے سے جھانک کر بلایا پھتیں کے جھکنے سے اس کی موٹی چوڑی گانڈ کھل کر واضح ہو کر میرے سامنے آگئی جسے میں غور کر دیکھنے لگا اتنے میں پھتیں مڑی اور میری نظر کا رخ دیکھ کر سمجھ گئی کہ میں اس کی گانڈ تاڑ رہا تھا وہ مسکرا دی میں پکڑے جانے پر تھوڑا شرما سا گیا اور منہ نیچے کر گیا وہ بھی موڑھے پر آکر بیٹھ گئی اور ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر بیٹھ گئی جس سے پھتیں کے موٹے چتڑ نکل کر واضح ہونے لگے میں بھی انہیں غورنے لگا اتنا تو میں بھی سمجھ گیا تھا کہ پھتیں مجھے فل لفٹ کروا رہی ہے اس لیے میں نے بھی جھجھکنا چھوڑ دیا اور بے جھجھک پھتیں کا جسم دیکھنے لگا کہ اتنے میں دروازے سے دو لڑکیاں نکلیں میری نظر ادھر گئی میں انہیں دیکھتا رہ گیا اس لڑکی کی عمر 28 سال کے قریب تھی اس کا تھوڑا سا بھرا ہوا گداز جسم بہت خوبصورت تھا اس کا بھی اوپری جسم دوپٹے میں تھا جبکہ نیچے کی موٹی ہلتی گانڈ بہت ہی سیکسی لگ رہی تھی اس کا وجود کافی چوڑا اور لمبا تھا قد بھی ٹھیک ٹھاک تھا میں نے ایک سرسری جائزہ لے کر اسے دیکھا تو وہ بھی آنکھیں پھاڑے مجھے دیکھ رہی تھی اس کے پیچھے والی لڑکی کا جسم پتلا تھا اور قد بھی اس کے برابر تھا لیکن اس کی گانڈ سائڈو سے چوڑی اور چپٹی تھی وہ قریب آئیں تو پھتیں بولی اے میریاں دھیاں ہین اس چوڑے جسم والی کی طرف اشارہ کرکے بولی اے میری وڈی دھی اے اس دا نام نصرت اے نصرت اے سارا نواں کاما اے بوٹا نام سے اس دا نصرت نے ایک نظر بھر کر مجھے دیکھا تو اس کی آنکھوں میں عجیب نشہ تھا میں اس کی آنکھ سے اندازہ لگا لیا تھا کہ اس میں بہت آگ ہے نصرت آگے بڑھ کر اپنا ہاتھ میری طرف ایک بڑھا کر مجھے سلام کیا میں نے ایک نظر اسے دیکھا تو وہ اسی انداز سے مجھے دیکھ رہی تھی میں نے نصرت کا ہاتھ پکڑ کر سلام کا جواب دیا تو اس نے میرا ہاتھ پکڑ کر دبا دیا میں نے اس کی طرف دیکھا تو وہ مسکرا دی میں بھی مسکرا دیا وہ ہاتھ چھوڑ کر پیچھے ہوئی تو پھتیں بولی اے نکی سعدیہ اے سعدیہ نے بھی میرے ساتھ سلام کیا اور بیٹھ گئی پھتیں بولی اس نوں میں سارا کم سمجھا دتا اے نصرت بولی امی اسی وی اس دے نال رل کے کرساں گئے بوٹے نوں ہلکے ناں کرنے ہوں اور مسکرا کر مجھے دیکھنے لگی سعدیہ بولی اسی تے اگے کردیا رہندیاں ہاں اسی نال ہی کرساں گیاں ہم کچھ دیر بیٹھے باتیں کرتے رہے پھر شانی آگیا اور وہ اندر چلی گئیں کچھ دیر بعد پھتیں آئی وہ اس وقت دوپٹے کے بغیر تھی پھتیں کے موٹے کسے ہوئے ممے صاف نظر آرہے تھے میں نے ایک نظر بھر کر پھتیں کے مموں کو دیکھنے لگا پھتیں بھی میری نظر کو سمجھ گئی کہ میں کہاں دیکھ رہا ہوں میں نے نظر اٹھا کر پھتیں کو دیکھا تو پھتیں مدہوش آنکھوں سے مجھے دیکھ رہی تھی میں نے نظر چرا کر نیچے کر لی تو پھتیں بولی بوٹیا اوران آ کترا پاویے ڈنگراں نوں میں نے یہ سن کر نظر اٹھا کر پھتیں کو دیکھا تو وہ گہری آنکھوں سے مسکرا کر مجھے دیکھ رہی تھی میں نے ایک نظر بھر کر پھتیں کے اٹھے ہوئے موٹے ممے دیکھنے لگا مموں کی لکیر صاف نظر آ رہی تھی پھتیں نے اپنی گت اٹھا کر آگے اپنے مموں پر ڈال لی میں نے نظر اٹھا کر پھتیں کو دیکھا تو وہ آنکھ بھر کر مجھے دیکھ رہی تھی پھتیں کی آنکھوں میں مستی اتر چکی تھی اور وہ مدہوشی سے مجھے دیکھ کر بے قراری سے ایک گھونٹ بھر کر رہ گئی میرے چہرے پر ہلکی سی لالی اتر گئی وہ بولی بوٹیا آجا اور میری طرف دیکھ کر گھوم گئی اور آگے کرتے والے کمرے کی طرف جانے لگی جس سے پھتیں کی باہر نکلی موٹی گانڈ ہلنے لگی میں گانڈ کو غورتا ہوا پھتیں کے پیچھے چلنے لگا اس وقت نصرت اور سعدیہ گھر تھیں جبکہ شانی باہر تھا میں پھتیں کی اتنی موٹی گانڈ دیکھ کر مچل رہا تھا میرا لن سر اٹھانے لگا اتنے میں پھتیں کمرے میں پہنچ کر رک گئی اور چادر اٹھانے کےلئے جھکی تو پھتیں کی گانڈ کھل کر باہر نکل آئی پھتیں کی شلوار میں کسے چتڑ واضح ہو رہے تھے میرا تو دل کیا کہ یہیں پھتیں کو قابو کر جاؤں لیکن ابھی بھی میرے اندر ایک جھجھک سی تھی اس لیے کھڑا دیکھتا رہا پھتیں نے جھکے ہوئے سر گھما کر مجھے دیکھا تو میں اس کی گانڈ بڑے انیمال سے دیکھ رہا تھا پھتیں مجھے دیکھ سفارتی انداز میں مسکرائی اور چادر اٹھا کر کھڑی ہو گئی پھتیں کے منہ پر بھی ایک ہلکی سی لالی اتر آئی تھی پھتیں نے چادر بچھائی اور اس پر کترا بھرنے لگی ایک بار پھر وہ جھک کر کترا بھر رہی تھی جس سے اس کے موٹے ممے لٹک گئے اور تھوڑے اندر تک نظر آنے لگے جسے میں دیکھ کر مچل رہا تھا کترا جوڑ کر اس نے مجھے دیکھا تو میری نظر پھتیں کے قمیض کے اندر جھانک رہی تھی میں پھتیں کے دیکھنے پر نظر چرا لی پھتیں میرے انداز پر پیار بھری نظروں سے مجھے دیکھ کر مسکرا کر رہ گئی میں نے چادر اٹھائی تو پھتیں نے بھی دوسری طرف سے پکڑ کر اٹھا کر میرے کندھوں پر پھینکی اس دوران پھتیں۔ نے جھٹکا مار کر اپنے ممے زور سے ہلائے اور ساتھ شرارتی انداز میں میری آنکھوں میں دیکھ کر مسکرا گئی میں چارہ اٹھا کر ڈالنے لگا دو تین بار تو پھتیں نے اسی انداز میں مجھے اپنے مموں کا نظارہ کروایا کترا تمام جانوروں کو ڈال کر میں اندر چادر رکھنے گیا تو پھتیں دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر کھڑی تھی وہ میری طرف مستی بھری آنکھوں سے دیکھنے لگی میں اسے دیکھ کر مسکرایا میرے اندر سے جھجھک جانے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی پھتیں اس وقت فل موڈ میں تھی جبکہ میں جھجھک رہا تھا میں چادر رکھ کر مڑا تو پھتیں سرگوشی میں بولی 

بوٹیا میں تے سمجھ ہا توں پورا مرد ہوسیں پر توں تے ہیں ہی نامرد میں یہ بات سن کر چونکا اور مڑ کر پھتیں کو حیرانی سے دیکھ تو پھتیں کے چہرے پر شرارتی بھری تھی اور پھر بولی بوٹیا تیرا کدی زنانیاں نال واہ نہیں پیا۔ میں حیرانی سے بولا بڑی واری پیا اے پھتیں میری آنکھوں میں دیکھ کر بولی مینوں تے نہیں لگدا توں کسی عورت کول گیا ہیں میں بولا توں کیوں آکھ سگدی ایں پھتیں بولی توں اے دس توں عورت نوں پھسینداں کیویں ہیں میں پھتیں کی بات سن کر ہنس کر رہ گیا پھتیں بولی بوٹیا آجا ہی کوئی نہوں جتنی لین تینوں میں دتی اے کوئی ہور ہوندا تے ہن تک۔مینوں نوا کے رکھ دیندا مجھے لگا اس بات پہ میری بے عزتی ہوگئی ہو میں شرما کر بولا پھتیں اصل اب میں آج تک بخشہا کسے نوں نہیں پر میں ایڈا جلدی ودھو ناہس ،، پھتیں بولی ہن تے توں ودھ جا میں تینوں آپ آدھی پئی اور میرے قریب ہو کر مجھے باہوں میں بھر کر میرے ہونٹوں سے سے ہونٹ دبا کر میرے ہونٹ چوسنے لگی میں نے بھی پھتیں کو کھینچ کر سینے سے لگا کر پھتیں کے ہونٹوں کو دبا کر چوسنے لگا پھتیں کے موٹے ممے میرے سینے میں دبنے لگے میں پھتیں کے چتڑ دبا کر مروڑتا ہوا پھتیں کے ہونٹوں کو چوسنے لگا پھتیں میرا سر دبا کر میری زبان کھینچ کر چوسنے لگی میں بھی پھتیں کا بھر پور ساتھ دینے لگا میرا لن ایک منٹ میں تن کر پھتیں کے چڈوں میں گھسنے لگا پھتیں سسکاریاں بھرتی برابر میری زبان اور میری ہونٹ چوستی ہانپنے لگی تھی پھتیں نے اپنا ہاتھ نیچے کر کے میرے لن کو ہاتھ میں پکڑ کر سہلایا اور میری آنکھوں میں مستی سے دیکھنے لگی کچھ دیر میرے لن کو پکڑے میرے ہونٹ چوستی رہی اور پھر یکایک پھتیں نے میرا نالہ کھینچ دیا جس سے میری شلوار کھل گئی اور پھتیں نے جلدی سے ہاتھ ڈال کر میرا لن ننگا کر کے پکڑ لیا میرا لن پھتیں کے ہاتھ میں جاتے ہی میں چونک سا گیا پھتیں نے میرے لن کی لمبائی اور موٹائی کو ہاتھ سے محسوس کرکے چونک سی گئی اور پیچھے ہو کر بولی وے بوٹیا اے واقعی تیرا لن ہے میں مچل کر ہانپ سا رہا تھا پھتیں مجھے چھوڑ کر نیچے جا بیٹھی اور میرا لن سارا ننگا کر پھٹی آنکھوں سے دیکھتی ہوئی حیرانی سے بولی ہال نی اماں مر جاواں ایڈا ودا لن تے میں آج تک کسے مرد دا نہیں ویکھیاں وے بوٹیا مر جاویں اے ایڈا لن لئی ودا ہیں اوئے ہال نی مرجاواں میں مسکرا سا گیا پھتیں میرا لن دونوں ہاتھوں میں بھر کر مسل کر بولی جا وے ظالما آگے ہن تک کتنے رہیاایں ایڈا لن تے میری جان کڈھ کیسی سسسسییییی اففففف۔ اور آگے ہو کر میرے لن کا موٹا ٹوپہ منہ میں بھر کر دبا کر چوس کر چوم لیا میں پنے لن کو پھتیں کے گرم منہ میں محسوس کرکے سسک گیا پھتیں نے ایک پلی میری لن کی موری پر کی اور منہ کھول کر میرا لن میں بھر کر دبا کر چوس کر لن منہ میں آگے پیچھے کیا اور پچھ کی آواز سے چھوڑ کر نشیلی آنکھوں سے مجھے دیکھ بولی وے ظالما تیرے لن دا ذائقہ کیسا سوادی اے میں سسک کر کراہ سا گیا پھتیں نے لن پکڑ کر اچھی طرح جڑ تک سارا چوما اور میرے لن کی جڑ پر پر زبان رکھ لن زبان سے مسلتی ہوئی اوپر لن کی ٹپ تک آنے لگی نرم زبان کی رگڑ سے سے میں کراہ ے لگا اوپر ٹپ پر آکر پھتیں نے لن ایک بار پھر منہ میں بھر کر زور سے دبا کر چوسا اور زبان میرے لن کی موری کے نیچے پھیرنے لگا پھتیں کسی ماہر عورت کی طرح میرے لن سے کھیل رہی تھی میں مزے سے مچل کر سسک رہا تھا پھتیں نے رک کر ایک لمحے کے لیے مجھے دیکھا اور میرے لن کی موری کھول اس میں اپنی زبان کی نوک دبا کر رگڑنے لگی جس سے میں کراہ کر کانپ گیا اور پیچھے دیوار کے ساتھ لگ گیا پھتیں کی زبان میں کوئی جادو تھا جو میرے اندر سے جان کھینچ رہی ہو جس سے میں کراہیں نکلنے لگیں پھتیں نے زبان دبا کر میرے لن کی موری پر پھیری اور لن کا ٹوپہ منہ پھر کر دبا کر چوپے مارنے لگی میرے لن کی موٹائی کافی تھی لیکن پھتیں کے منہ کا ہانپ بھی کافی کھلا تھا جس سے پھتیں لن کے تیز تیز چوپے مارتی ہونٹ لن پر دبا کر رگڑتی ہوئی میرا لن گلے تک لے جاتی جس سے پھتیں کے نرم ہونٹ میرے لن کی چمڑی رگڑ کر مجھے نڈھال کرنے لگے پھتیں رکے بغیر تیز تیز اپنے آگے پیچھے کرتی میرے لن کے زبردست چوپے مارنتی ہانپ ے لگی 8 10 چوہوں پر میرے لن کی کھردری چمڑی پھتیں کے ہونٹوں کو رگڑنے لگی جس سے پھتیں درد کرا کر کرلا سی گئی لیکن پھتیں پھر بھی رکے بغیر تیز تیز مزید 6 7 چوپے میرے لن 

زید شدت سے رگڑ کر مارے جس نے میرے اندر سے جان کھینچ لی اور مجھے لگا جیسے میری جان نکل رہی ہو ساتھ ہی پھتیں کے ہونٹوں پر میرے لن کے کھردری چمڑی کی رگڑ سے پھتیں کی ہمت بھی جواب دے گئی اور پھتیں لن اپنے گلے میں اتار ہانپ کر ایک کوکاٹ مارکر رک گئی ساتھ ہی پھتیں کا سر کانپ سا گیا ساتھ ہی میری بھی کوکاٹ نکلی اور میں نے پھتیں کا سر پکڑ کر جھٹکا مارا جس سے ایک میری گاڑھی منی کی ایک لمبی موٹی پچکاری سیدھی پھتیں کے گلے میں ماری میری منی اتنی زیادہ تھی کہ پھتیں کا منہ اور گلا ہری منی سے بھر گیا اور پھتیں کراہ کر مشکل سے گھونٹ بھر کر میری گاڑھی منی پیٹ میں اتار کر ہانپ کر کراہ گئی میں نے کراہ کر نیچے پھتیں کی آنکھوں میں دیکھا تو پھتیں کا منہ لال ہوکر کانپ رہا تھا اس کے ساتھ ہی ایک اور لمبی گاڑھی پچکاری منی کی پھتیں کے گلے میں لگی جوپھتیں گھٹا گھٹ پی گئی ساتھ ہی تیسی پچکاری بھی پھتیں پی گئی اور اپنی زبان دبا کر میرا لن چتھتی ہوئی میری منی کھینچ کر میرا لن خالی کرنے لگی دو منٹ میں پھتیں میری منی نچوڑ کر پی چکی تھی میں کراہ کر مچل سا گیا تھا پھتیں نے ایک زوردار چوپا کر میرا لن پچ کی آواز سے نکال دیا اور لن مسلتی ہوئی مچل کر بولی اوئے ہالیوئے بوٹیا میں تیرے قربان جاواں تیری منی دا ذائقہ بہوں سوادی ہئی قسمیں آج تک ایو جیا لن نہیں چکھیا کی لن ہے تیر اففففف اور ایک بار پھر کس کر چوپا مارا اور اٹھ کر کھڑی ہوگئی اور بولی ظالما تیرے لن دی چمڑی بہوں سخت تے کھردری ہے میرے تے ہونٹ ہی ہک واری چھل دتے ہاس میری پھدی نوں تے چیر کے رکھ دیسی میں آگے ہوکر پھتیں کے ہونٹوں کو دبا کر چوم کر

چوس لیا اور بولا میری جان اے تے برداشت کرنا پوسی پھتیں ہنس کر بولی میری جان میں تے تیار ہاں میری کہڑی ناہں اے اور میرے ہونٹ چومنے لگی پھر پیچھے ہو کر نکلی گئی میں بھی شلوار باندھ کر نکل گیا شام کو شانی آیا ہم مل کر دودھ نکالنے لگے اس دوران بھی پھتیں مجھے آنکھوں آنکھوں میں چھیڑنے لگی جبکہ نصرت اور سعدیہ بھی کچھ کم نا تھیں میں بھی اب کھل چکا تھا دودھ دوہ کر شانی دودھ لے کر نکل گیا اور اب ڈنگر اندر برآمدے میں کرنے لگے 

Link to comment

اردو فن کلب کے پریمیم ممبرز کے لیئے ایک لاجواب تصاویری کہانی ۔۔۔۔۔ایک ہینڈسم اور خوبصورت لڑکے کی کہانی۔۔۔۔۔جو کالج کی ہر حسین لڑکی سے اپنی  ہوس  کے لیئے دوستی کرنے میں ماہر تھا  ۔۔۔۔۔کالج گرلز  چاہ کر بھی اس سےنہیں بچ پاتی تھیں۔۔۔۔۔اپنی ہوس کے بعد وہ ان لڑکیوں کی سیکس سٹوری لکھتا اور کالج میں ٖفخریہ پھیلا دیتا ۔۔۔۔کیوں ؟  ۔۔۔۔۔اسی عادت کی وجہ سے سب اس سے دور بھاگتی تھیں۔۔۔۔۔ سینکڑوں صفحات پر مشتمل ڈاکٹر فیصل خان کی اب تک لکھی گئی تمام تصاویری کہانیوں میں سب سے طویل کہانی ۔۔۔۔۔کامران اور ہیڈ مسٹریس۔۔۔اردو فن کلب کے پریمیم کلب میں شامل کر دی گئی ہے۔

×
×
  • Create New...

سدفگ.png

OK
URDU FUN CLUB