Shaikhka Posted January 18, 2022 #1 Posted January 18, 2022 سفر در سفر لفظ سیکس انگریزی میں اور چدائی اردو میں ایک ایسا عمل ہے جو ہر انسان اپنی زندگی میں ایک مرتبہ ضرور کرتا ہے۔خواہ وہ مرد ہو یا عورت ،یہ خاصیت ہر انسان میں ہوتی ہے جو بوقت ضرورت سب پوری کرتے ہیں۔میری زندگی میں بھی کچھ ایسے موڑ آئے جب میں سیکس سے روشناس ہوا اور کیسے ہوا یہ سب آپ میری کہانی پڑھ کر جانیں گے۔تو بغیر کسی فالتو تمہید کے شروع کرتا ہوں جو مجھ پر بیتی۔ میرا نام اطہر ہے اور میں لاہور شہر کا رہائشی ہوں۔اس وقت جب میں یہ کہانی لکھ رہا ہوں میری عمر 25 سال ہے۔اپنی زندگی کے اولین ماہ و سال میں نے اپنی اپنے آبائی شہر میں گزارے جس کا ذکر کرنا بہت ضروری ہے کیونکہ میری سیکس لائف کا آغاز وہیں سے ہوا جو بتدریج بڑھتا گیا۔اس وقت میری عمر تقریباً دس سال تھی اور میں پانچویں جماعت میں پڑھ رہا تھا۔میرے ساتھ میرے دو کزن اور تین اور لڑکے بھی جو ہمارے گاؤں کے تھے سب ساتھ پڑھنے جاتے تھے ۔ہمارا سکول گاؤں سے دو کلومیٹر دور تھا اور ہم پیدل ہی جایا کرتے تھے۔یہ وہ وقت تھا جب سیکس کے متعلق ہماری معلومات اتنا تھیں کہ ایک لن(بُلی) ہوتی ہے،گانڈ جسے بنڈ بھی کہتے تھے اور عورت کی پھدی ہوتی ہوتی ہے۔دوستوں!جیسا کہ آپ سب کو علم ہے کہ دیہاتوں میں اکثر مائیں نہاتے ہوئے اپنے بچوں کو بھی ساتھ نہلا لیتی تھیں تو ہم میں سے بھی کچھ تھے جو اپنی ماؤں کو نہاتے دیکھتے تھے اور پھر دوسروں کو آ کر بتاتے تھے کہ اس نے کیا دیکھا۔آج یہ سب ایک مکروہ عمل محسوس ہوتا ہے مگر وہ عمر لاشعوری کی تھی جس میں یہ سب شروع ہوا تھا۔ایک دن ہم سکول سے واپس گھر کو آ رہے تھے تو میرا ایک دوست جس کا نام محسن تھا وہ بولا کہ ایک بات بتانی ہے تمہیں۔ میں نے کہا کہ ہاں بولو سن رہا ہوں تو اس نے میرے کان میں کہا کہ خاص بات ہے اور وہ اکیلے میں بتائے گا۔یہ سن کر میرا ماتھا ٹھنکا کہ اس نے پھر کسی کو نہاتے ہوئے دیکھ لیا ہو گا اس لیے اتنا پھدک رہا ہے۔میں نے اسے کہا ٹھیک ہے تم شام کو میرے گھر آ جانا پھر بات کریں گے کہ ابھی سب ساتھ ہیں ۔ دوستوں گھر جا کر میں نے کھانا کھایا اور سو گیا۔عصر کے وقت میں بیدار ہو ا اور دوستوں کی منتخب کردہ جگہ پر چلا گیا جہاں ہم بوقت عصر گپ شپ کرنے کے لیے اکٹھے ہوتے تھے۔سب وہاں جمع تھے۔میں نے محسن کو بلایا اور اسے ایک طرف لے کر گیا اور پوچھا بول کیا بات ہے۔اس نے جب بولنا شروع کیا تو میں حیران رہ گیا۔وہ کہنے لگا یار تمہیں پتا ہے ناصر اور حمزہ کیا کرتے ہیں؟میں جو کسی بھی شے سے بے علم تھا بولا کیا کرتے ہیں؟ یار جب ہم سکول سے واپس آتے ہیں تو وہ دونوں راستے میں باغ میں چلے جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ اپنے ماں باپ سے مل کر گھر جائیں گے ۔ہاں یہ تو میں جانتا ہوں میں نے اسے جواب دیا۔ایسی کوئی بات نہیں ہے وہ کچھ اور ہی کرنے جاتے ہیں۔ابے بول بھی کیا بکواس کر رہا ہے میں نے اسے ایک تھپڑ لگایا تو روانی سے شروع ہو گیا۔یار ایک دن میں نے حمزہ سے اس کی کتاب لینی تھی جو مجھے سکول میں لینا یاد نہ رہی تو میں اس کے پیچھے پیچھے چلا گیا باغ میں۔ابھی میں ان کی زمینوں سے پیچھے ہی تھا کہ مجھے آہستہ کرو نا کی آواز آئی۔میں نے سوچا یہ کیا کر رہے ہیں شاید کسی جانور کو مار رہے ہوں گے۔میں آگے بڑھا تو دیکھا کہ دونوں نے کپڑے اتارے ہوئے تھے اور ننگے ایک دوسرے سے لپٹے ہوئے تھے۔حمزہ نیچے تھا اور ناصر اس کے اوپر چڑھا ہوا ہل رہا تھا۔مجھے حیرت ہوئی کہ یہ کیا کر رہے ہیں مگر میں نے ان کو پتا نہیں لگنے دیا اور واپس آ گیا۔ یہ سن کر میں بھی پریشان ہو گیا کہ یہ ایسا کیا کر رہے ہوں گے اور ہم دونوں نے ایک منصوبہ بنایا جس پر ہمیں کل عمل کرنا تھا ۔اگلے دن جب ہم سکول سے واپس گھر روانہ ہوئے تو راستے میں حمزہ اور ناصر باغ کے راستے چل دیے۔میں اور محسن نے ان کے جانے کا انتظار کیا اور پھر ہم بھی ان کے پیچھے روانہ ہو گئے۔جس جگہ کا مجھے محسن نے بتایا تھا وہ ٹھیک وہیں پر کپڑے اتار کر وہی کام کر رہے تھے جسے بعد میں ہم چودائی کہتے تھے۔میں نے تھوڑی دیر انتظار کیا اور پھر زور دار آواز میں بولا۔اوئے کنجرو یہ کیا کر رہے ہو۔ان کی جیسی گانڈ پھٹ کر ہاتھ میں آ گئی ہو ۔انہوں نے جلدی سے کپڑے پہننے کی کوشش کی مگر محسن نے ان سے چھین لیے اور میں ان کے نزدیک جا کر دیکھا تو حمزہ رونے والا ہو رہا تھا۔اوئے تجھے کیا ہوا کیوں رو رہا ہے؟ وہ یار تم کسی کو بتانا نہیں ورنہ سب مذاق اڑائیں گے ۔اچھا نہیں بتاؤں گا مگر یہ بتاؤ کہ یہ کیا کر رہے تھے۔اسی اثنا میں ناصر بول اٹھا کہ میں اس کی گانڈ مار رہا تھا۔دوستو یقین کریں مجھے اس وقت کچھ علم نہیں تھا کہ گانڈ کیسے مارتے ہیں۔میں اتنا جانتا تھا کہ یہ کام تو شادی شدہ مرد وعورت ہی کرتے ہیں۔میں نے اس سے پوچھا کہ وہ کیسے کرتے ہیں تو اس نے کہا دکھاتا ہوں۔اس نے حمزہ کو نیچے لٹایا اور اس کی گانڈ کے چھید میں اپنی تھوک ڈالی۔میں نے غور کیا کہ حمزہ کی گانڈ کافی موٹی اور نرم تھی۔اس کی گانڈ کا سوراخ بھی کافی بڑا لگ رہا تھا۔ناصر نے یہ سب کرنے کے بعد اپنی کلی پر تھوک لگایا جو بمشکل تین انچ کی تھی۔پھر اس نے اپنی کلی کو ہاتھ سے پکڑ کر حمزہ کی گانڈ کے سوراخ میں ڈالنے کی کوشش کی جو تھوڑی دیر بعد کامیاب ہو گئی۔اب اس نے ہلنا شروع کیا تو میں نے دیکھا کہ کہ اس کے چہرے پر مزے کے تاثرات تھے جبکہ حمزہ بھی آہ او آ۔۔۔ہہہ۔۔۔آہستہ۔۔۔۔۔جیسی آوازیں نکال رہا تھا۔ناصر تھوڑی دیر یہی کرتا رہا اور پھر نیچے اتر گیا۔میں نے کہا بس ہو گیا تو اس نے ہاں میں سر ہلایا۔دوستو یہ سب دیکھ کر میری للی بھی کھڑی ہو گئی تھی جو اس وقت ناصر کی للی کے ہی سائز کی تھی۔میں نے محسن کی طرف دیکھا تو وہ بھی اپنی للی کو ہاتھ میں پکڑ کر مسل رہا تھا۔میں نے اسے اشارہ کیا کہ کیا ارادہ ہے تو وہ بھی بولا کہ کرنا ہے۔اب مسئلہ یہ تھا کہ ہم حمزہ کو کیسے کہتے کہ ہم دونوں نے بھی تیری گانڈ ماری ہے۔ابھی ہم یہ سب سوچ رہے تھے کہ وہ خود ہی بول اٹھا اور قسمت کی دیوی ہم پر مہربان ہو گئی کہ اس دن پہلی دفعہ ہم نے بھی سیکس کیا۔حمزہ مجھ سے بولا کہ اگر میں کسی کو اس کے بارے میں نہ بتاؤں تو وہ مجھے بھی یہی سب کرنے دے گا۔اندھا کیا چاہے دو آنکھیں ۔میں بھی خوش ہو گیا مگر چہرے پر ظاہر نہ ہونے دیا اور کہا کہ نہیں میں یہ نہیں کروں گا اور تمہارے باپ کو بتاتا ہوں۔یہ سن کر اس کی گانڈ اور پھٹنے والی ہو گئی کہ اس کا باپ بہت ہی کمینہ شخص تھا جس کا ذکر آگے آئے گا۔ناصر بھی اب پریشان لگ رہا تھا اس لیے اس نے بھی کہا کہ میں حمزہ کے ساتھ جو کر لوں مگر کسی کو نہ بتاؤں خاص کر ان کے اباؤں کو۔میں بولا میری ایک شرط ہے تو وہ دونوں بولے کیا۔میں نے ڈرامائی انداز میں ان کی طرف دیکھا اور بولا وہ یہ کہ محسن بھی حمزہ کی گانڈ مارے گا جب میں مار لوں گا۔یہ سن کر حمزہ تھوڑی تذبذب کا شکار نظر آیا تو میں نے کہا ورنہ میں بتا رہا ہوں تمہارے باپ کو۔ابھی میں نے یہ کہا ہی تھا کہ حمزہ بول اٹھا ٹھیک ہے ٹھیک ہے تم دونوں کر لو۔میں محسن کی طرف دیکھ کر ہنسا اور اپنی شلوار اتاری۔یہ دیکھ کر حمزہ زمین پر لیٹ گیا اور میں نے تھوک نکال کر اپنی للی پر لگائی۔اب میں نیچے بیٹھا اور حمزہ کی گانڈ کو دیکھ کر اس میں تھوک پھینکی اور پھر اپنی للی اس میں گھسا دی۔للی گھسے ہی میرے منھ سے چیخ نکلی اور میں نے اسی رفتار سے للی واپس نکالی جس طرح اندر ڈالی تھی۔اس کی گانڈ اتنی گرم تھی کہ میں برداشت نہ کر سکا۔میں نے اسے گالیاں نکالنا شروع کر دیا اور پھر اپنی شلوار واپس لیکن کی کہ مجھ سے نہیں ہو گا۔محسن بھی یہ دیکھ کر ایک طرف ہو گیا اور ان کے کپڑے ان کو واپس کر دیے۔حمزہ نے جلدی جلدی شلوار پہنی اور میری طرف گھوم کر بولا ،یار کسی کو نہ بتانا تمہیں میری قسم اور یہ وہ باتیں کرنے لگا۔میں جو پہلے ہی اس کی گانڈ کی گرمی سے رہا ہوا تھا اسے دو تھپڑ ٹکائے اور بولا:گانڈو چپ کر جا کسی کو نہیں بولوں گا اور محسن کو لے کر وہاں سے گھر کو روانہ ہو گیا۔اس سارے عمل کے دوران ایک گھنٹہ گزر گیا تھا اس لیے جب گھر پہنچا تو امی نے پوچھا کہا رہ گئے تھے جب سے انتظار کر رہی ہوں۔میں نے آئیں بائیں کرتے ہوئے ان سے کھانا مانگا اور ہاتھ دھو کر کھانا کھانے لگا۔۔۔۔۔ جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ دوستوں کے کمنٹس کا انتظار رہے گا
Recommended Posts