Play_Boy007 Posted August 16, 2011 Share #1 Posted August 16, 2011 السلام علیکم دوستو نظامِ شمسی کی حدوں سے باہر نکلنے کوشش کے دوران، زمین سے انتہائی دور خلائی گاڑی ووئجر نے ایک نیا سنگِ میل عبور کرتے ہوئے اپنے اردگرد چھوٹے چھوٹے ذرات کی حرکت میں ایک نمایاں تبدیلی کا پتہ چلا لیا ہے۔ ووئجر اس وقت زمین سے سترہ اعشاریہ چار بلین کلومیٹر دور ہے اور اس کا سفر تینتیس برس پہلے پانچ ستمبر انیس سو ستتر میں شروع ہوا تھا۔ایک اور خلائی گاڑی اگست سنہ ستتر میں بھی روانہ کی گئی تھی۔ ووئجر نے اپنے ارد گرد محوِ حرکت ذرات کے بارے میں، جو سورج سے نکلتے ہیں، یہ بھی معلوم کیا ہے کہ یہ ذرے اب باہر نہیں بلکہ اطراف کو سفر کرتے ہیں۔ ایڈورڈ سٹون نے جو ووئجر کے منصوبے سے منسلک سائسندان ہیں، اس تحقیقی مشن کی اور تینتیس برس کے دوران خلائی گاڑی نےجو سائنسی معلومات زمین پر بھیجی ہیں ان کی تعریف کی ہے۔ سٹون بتایا کہ ’جب ووئجر کو مشن پر بھیجا گیا تھا تو خلائی دنیا میں تحقیقات ( کی عمر صرف بیس سال تھی لہذا یہ معلوم کرنے کے لیے کوئی بنیاد نہیں تھی کہ آیا خلائی گاڑی اتنے طویل عرصے تک خلا میں رہ سکے گی یا نہیں۔ ہمارے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ نظامِ شمسی سے باہر جانے کے لیے ہمیں کتنا طویل سفر کرنا پڑے گا۔ لیکن اب ہم جانتے ہیں کہ تقریباً پانچ برس میں ہم پہلی مرتبہ نظامِ شمسی کی حدود سے ماورا ہوجائیں گے۔‘ ناسا کا ابتدائی مقصد یہ تھا کہ نظامِ شمسی میں ان سیاروں کا سروے کیا جائے جن کے مدار سورج سے دور تر ہیں اور جن میں مشتری، زحل، یورنیس اور نیپچون شامل ہیں۔ یہ کام سنہ انیس سو اننانوے میں مکمل ہوگیا تھا۔ ووئجر کو بعد میں ہماری کہکشاں کی جانب فضا کی گہرائیوں میں بھیج دیا گیا۔ خلائی گاڑیاں اب تک ٹھیک کام کر رہی ہیں اور زمین پر معلومات بھیج رہی ہیں اگرچہ وہ اتنی دور ہیں کہ وہاں سے ریڈیو پیغام زمین پر تقریباً سولہ گھنٹے میں پہنچتا ہے۔ ووئجر ون کی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ سورج سے نکلنے والے ذرات کی حرکت اطراف کو ہو رہی ہے۔ اس خلائی مشین میں نصب نظام، شمسی آندھیوں کی رفتار کی نگرانی کرتا ہے۔ زمین پر موصول ہونے والے ڈیٹا سے پتہ چلا ہے کہ سورج سے بہاؤ کی شکل میں نکلنے والے ذرات ہمارے نظامِ شمسی کے ارد گرد ایک طرح کا بلبلہ سا بنا دیتے ہیں جنہیں ہیلیئو سفیئر یا شمسی دائرہ کہا جاتا ہے۔ ہوائیں، آواز کی رفتار سے بھی زیادہ تیزی سے سفر کرتی ہیں تاوقتیکہ وہ تصادمی موج کو عبور کر جائیں۔ اس موقع پر ہوا کی رفتار میں ڈرامائی کمی ہو جاتی ہے اور ووئیجر نے یہ معلوم کیا ہے کہ جہاں وہ اب ہے وہاں شسمی ہواؤں کی رفتار کم ہوتے ہوتے صفر ہوگئی ہے۔ ڈاکٹر سٹون کہ مطابق: ’ہم اس مقام پر پہنچ چکے ہیں جہاں شمسی آندھیاں جن کی حرکت پہلے باہر کی طرف تھی، اب اطراف کو ہے یعنی یہ آندھیاں شمسی دائرے کی دُم تک پہنچ سکتی ہیں۔یہ ہوائیں دوسرے ستاروں سے آنے والے مادے کو دھکیلتی ہیں۔ ان دونوں کے درمیان حدِ فاصل کو سرکاری طور پر نظامِ شمسی کا کنارہ کہا جاتا ہے۔ جب ووئیجر اس کنارے کو عبور کر لے گا تو پھر یہ بین النجوم خلا میں ہوگا اور خیال ہے کہ اگلے چند برسوں میں ایسا ہو جائے گا۔ پہلی بار جون میں یہ اشارے ملے تھے کہ ووئیجر کسی چیز سے ٹکرایا ہے۔ کئی ماہ بعد مزید ڈیٹا وصول ہونے کے نتیجے میں اس کی تصدیق ہوئی۔ میری لینڈ میں جون ہوپکنز یونیورسٹی میں اپلائیڈ فزکس لیبارٹری میں تحقیق کار راب ڈیکر کہتے ہیں: ’جب مجھے احساس ہوا کہ ووئجر سے آنے والا ڈیٹا ظاہر کر رہا ہے کہ شمسی آندھیوں کی رفتار صفر ہوگئی ہے تو میں حیران ہوگیا‘۔ خلائی مشین تینتیس برس بعد ہمیں مکمل طور پر نئی دنیا سے روشناس کرا رہی تھی۔‘ Link to comment
Recommended Posts
Create an account or sign in to comment
You need to be a member in order to leave a comment
Create an account
Sign up for a new account in our community. It's easy!
Register a new accountSign in
Already have an account? Sign in here.
Sign In Now