لیپ ایئر: یہ چھلانگ کس لیے - Worlds General Knowledge - URDU FUN CLUB Disable Screen Capture Jump to content
فروری 15 سے پہلے خریدی گئی پردیس 59 کی قسط رمضان سے پہلے پوسٹ ہو جائے گی ۔ 15 فروری کے بعد کی خریداری رمضان کے بعد ہی پوسٹ ہو گی۔ ×
URDU FUN CLUB

Recommended Posts

Posted

ہم سب کو معلوم ہے کہ جس سال 29 فروری ہو تو یہ لیپ کا سال ہوتا ہے۔ یعنی ایسا سال جس میں فروری کا مہینہ 28 کی بجائے 29 دن کا ہوتا ہے۔ گویا اس برس 365 کی بجائے تین 366 دن ہوں گے۔

عموماً یہ دن ہر چار سال کے بعد آتا ہے۔ مطلب یہ کہ جو شخص آج سے 40 سال پہلے 29 فروری کو پیدا ہوا تھا آج ماشااللہ دس سال کا ہو گیا ہے۔ اور اگر وہ نوکری کرتا ہے تو اس مہینے اسے تنخواہ بھی اب ایک دن لیٹ ہی ملے گی۔ بھئی یہ معمہ کیا ہے۔آخر فروری کا مہینہ ایک دن لمبا کیوں ہوجاتا ہے؟

حقیقت یہ ہے کہ صدیوں سے انسان اس معمے کو حل کرنے کی کوشش میں لگا ہوا ہے۔ قدیم مصریوں نے یہ معلوم کر لیا تھا کہ زمین سورج کے گرد 365 دن میں چکر مکمل نہیں کرتی بلکہ اس سے کچھ زیادہ وقت لگاتی ہے۔ اسی لیے گزشتہ ہزار سال انسان اس کوشش میں رہا کہ کس طرح موسموں کے اوقات میں ایک مطابقت رہے اور کھیتی باڑی اور دیگر کام ایک نظام کے تحت ہو سکیں۔

زمین کا سورج کے گرد گردش کا دورانیہ 365 دنوں کا نہیں ہے بلکہ چوتھائی دن زیادہ ہے۔ یعنی کہ 365 دن، پانچ گھنٹے، 49 منٹ اور 12 سیکنڈ۔ اور چونکہ زمین سورج کے گرد گردش کرتی ہے اس لیے موسموں کی تبدیلی کا انحصار بھی زمین اور سورج کے اس گردش کے رشتے پر ہوتا ہے۔ اس لیے اگر ہر سال 365 دن رکھیں تو ہر سال چوتھائی دن کا فرق پڑنے لگتا ہے اور کیلنڈر موسموں سے دور ہونا شروع ہو جاتا ہے۔

یہی وجہ تھی تقریباً 45 قبلِ مسیح میں روم کے بادشاہ جولیس سیزر نے کلینڈروں کی اصلاحات کے لیے ایک کمیشن قائم کیا جس نے فیصلہ کیا کہ ہر چار سال میں سے ایک سال 366 دنوں کا کیا جائے۔ اسی لیے جولیس سیزر کے دور میں 46 قبلِ مسیح میں 90 دن کا اضافہ کیا گیا تاکہ زرعی موسموں کا بہتر انتظام ہو سکے۔ یہ وہ سال تھا جب سال 445 دنوں کا گیا۔ جولیس سیزر نے اسے ’لاسٹ ایئر آف کنفیوژن‘ (انتشار کا آخری سال) کہا، لیکن عام لوگوں کے لیے یہ انتشار کا سال ہی تھا۔ اس میں فصل بونے کے وقت کا تو تعین ہو گیا لیکن باقی سب کچھ گڑ بڑ ہوا۔ جہاز رانی کے نظام الاوقات سے لے کر لوگوں کے درمیان قانونی معاہدوں تک۔

_44458398_gregory203.jpg

جولیس سیزر کی موت کے بعد ہر چار سال کے بعد ایک دن کا اضافہ کرنے کی بجائے یہ اضافہ ہر تین سال کے بعد کیا جانے لگا۔ اس طرح ایک مرتبہ پھر رومن کیلنڈر موسموں سے آگے بھاگنے لگا۔

یہ مسئلہ جولیس سیزر کے بعد آنے والے اصلاح پسند بادشاہ آگسٹس سیزر نے 8 قبلِ مسیح میں حل کرنے کی کوشش کی۔ انہوں نے لیپ کے تین سالوں کو سکپ کیا یا یوں کہیے کہ ان پر سے چھلانگ لگا کر ان کو پیچھے چھوڑا اور اس طرح یہ سلسلہ 16 ویں صدی تک چلتا رہا۔ یہی وجہ ہے کہ کلینڈر کے مہینوں میں آج تک جولیس سیزر اور آگسٹس کو یاد رکھا جاتا ہے۔ جولیس کو جولائی کی شکل میں اور آگسٹس کو اگست کی صورت۔

جامعہ کراچی میں قائم انسٹی ٹیوٹ آف سپیس اینڈ پلینٹری ایسٹروفزکس کے اسسٹنٹ پروفیسر شاہد قریشی کہتے ہیں کیونکہ ہر سال زمین کے سورج کے گرد چکر لگانے کے دورانیے میں فرق ہوتا تھا اس لیے 16 ویں صدی میں پاپ گریگری نے کلینڈر میں تبدیلی کر کے یہ مسئلہ بھی حل کرنے کی کوشش کی۔

ان کے مطابق سورج کے گرد زمین کا اصل دورانیہ 365.25 نہیں ہے بلکہ 365.24 ہے۔ چناچہ اگر ہر سال ایک دن کا اضافہ کیا جائے گا تو کچھ سالوں میں موسم اپنے وقت سے دور ہو جائیں گے۔ مثلاً مون سون روایتی مہینوں میں نہیں بلکہ ہوتے ہوتے نومبر دسمبر میں آنے لگے گا۔ تو اس بات کو مدِ نطر رکھتے ہوئے 16 ویں صدی میں پاپ گریگری نے ایک کمیشن قائم کیا جس میں یہ طے پایا کہ ہر 400 سال میں 100 لیپ ائیر ہونے کی بجائے 97 لیپ ائیر ہوں گے۔ اس سے قبل 45 قبلِ مسیح سے لے کر 16 ویں صدی تک ہر چار سال کے بعد ایک لیپ کا سال ہوتا تھا۔

شاہد قریشی کہتے ہیں اس لیے یہ کہنا بھی درست نہیں ہے کہ ہر چوتھا سال لیپ ایئر ہوتا ہے۔

لیپ کا سال بنانے کے اور بھی فوائد ہیں۔ مثلاً اب ہمیں پتا ہے کہ سال کا لمبا دن ہمیشہ 21 جون کو ہو گا، سب سے چھوٹا دن 21 دسمبر کو ہو گا، اور برابر کے دو دن 21 مارچ اور 21 ستمبر کو ہی ہوں گے۔ تو اس لیے لیپ کے سال کی وجہ سے سورج اور زمین کی ہیرا پھیری کو کوئی ترتیب مل جاتی ہے اور انتشار نہیں پھیلتا۔ اگر لیپ کے سال میں تبدیلی نہ کی جاتی تو ہر 400 سال میں واضح فرق سامنے آتا چلا جاتا۔ اب انسانوں میں ہو نہ ہو کھتی باڑی اور فصلیں اگانے کے لیے موسموں کے اوقات میں ضرور مطابقت پیدا ہو گئی ہے اور ہزاروں سال تک اس میں تبدیلی آنے کا امکان نہیں ہے۔

کچھ ممبرز مسلسل  رومن اردو میں کمنٹس کر رہے ہیں جن کو اپروول کی بجائے مسلسل ڈیلیٹ کیا جا رہا ہے ان تمام ممبرز کو مطلع کیا جاتا ہے کہ یہ کمنٹس رولز کی خلاف ورزی ہے فورم پر صرف اور صرف اردو میں کیئے گئے کمنٹس ہی اپروول کیئے جائیں گے اپنے کمنٹس کو اردو میں لکھیں اور اس کی الائمنٹ اور فونٹ سائز کو 20 سے 24 کے درمیان رکھیں فونٹ جمیل نوری نستعلیق کو استعمال کریں تاکہ آپ کا کمنٹ با آسانی سب ممبرز پڑھ سکیں اور اسے اپروول بھی مل سکے مسلسل رومن کمنٹس کرنے والے ممبرز کی آئی ڈی کو بین کر دیا جائے گا شکریہ۔

Create an account or sign in to comment

You need to be a member in order to leave a comment

Create an account

Sign up for a new account in our community. It's easy!

Register a new account

Sign in

Already have an account? Sign in here.

Sign In Now
×
×
  • Create New...
URDU FUN CLUB