Pakdragon Posted July 16, 2017 #1 Posted July 16, 2017 ہیلو دوستو کیسے ہو امید کرتا ہوں سب ٹھیک ہیں ہی کہانی میری خود کی تخلیق ہے اس کے سارے کردار مرکزی اور صرف سوچ پر مبنی ہیں اک کہانی کے چھ حصے ہیں یہ کہانی ڈر خوف اور سکس کے گرد گومے گی امید کرتا ہوں اپکو پسند اے گی ذیادہ وقت ضائع نہ کرتے ہوے کیانی کی ترف اتا ہوں دسمبر کی اخری رات تھی ہوا میں خنکی بھری ہوئی ہوئی تھی گاوں سے دور اک سایہ کالے کپڑوں میں ملبوس خاموشی سے قبرستان کی طرف جا رہا تھا اس کی انکھوں میں اج اک عجیب سی چمک تھی جیسے اس کو اپنی زندگی کا مقصد ملنے جا رہا ہے۔دور کہی سے کسی جنگلی جانور کی اواز ماحول کو اور زیادہ خطرناک بنا رہی تھی وہ سایہ خاموشی سےقبرستان میں داخل ہوا اور اک پرانی قبر کے پاس اپنی مخصوص جگہ پر حصار بنا کر بیٹھ گیا اور کسی عمل میں مصروف ہو گیا اچانک اک طرف سے ایک طوفان اٹھا اور اک قبر کے کھلنے کی اواز ائی اس میں سے اک بھیانک ڈائن باہر نکلی اس کے جسم سے جگہ جگہ سے خون بہ رہا تھا اس کے بالوں کی جگہ سانپ پھنکار رہے تھے اس کے مموے کسی جوان دوشیزہ کی طرح سامنے کھڑے تھے اس کی پھدی کالے بالوں سے بھری ہوئی تھی اور اس کے آتے ساتھ ہی ماحول میں اک منی کی ناگوار سی بدبو پھیل گئی اس نے اس حصار میں موجود شخص کو گھورااور ساتھ ہی اس کوچیخ کر کہا چلا جا اے ادم ذاد کیوں بے موت مرنا چاہتا ہے لیکن اس کی بات کا اس پر کوئی اثر نا ہوا اور وہ خاموشی سے اپنے کام میں مصروف رہا اس بات کو دیکھ اس ڈائن کو غصہ آ گیا اس بالوں والے سانپ زور زور سے پھنکارنے لگے اس نے کچھ پڑھ کر اپنی پھدی پر ہاتھ پھیرا تو اس کی پھدی سے اک بھیانک سی مخلوق نکل کر اس حصار میں بیٹھے شخص پر حملہ اور ہوئی لیکن جیسے ہی حصار سے ٹکرائی اچانک دھماکے کے ساتھ غائب ہو گئی۔اپنا حملہ ناکام دیکھ کر اس کی انکھوں میں انگارے جلنے لگے اس نے پوری طاقت سے حصار سے اس شخص کو نکالنے کے لیے لپکی مگر جیسے ہی حصار سے ٹکرائی اس کے پورے بدن میں اگ لگ گئی اور اس کی بھیانک چیخوں سے پورا قبرستان دہل اٹھا پوری رات کوئی نہ کوئی مخلوق اسے ستاتی رہی مگر وہ اپنی جگہ سے نہ ہلا آخر وہ وقت آ گیا جس کے لہے اس نے اتنی مشقت برداشت کی تھی اچانک اس کے سامنے اک قبر روشن ہوئی اور اس میں اک دروازہ بن گیا اس میں سے جو باہر نکلی اس کو دیکھ اس کے دل نے اس کے ساتھ بغاوت کرنا شروع کر دیا سامنے حسن کی ملکہ اپنے پورے جاہ و جلال کے ساتھ کھڑی تھی اس کے پیچھے کچھ اور لڑکیاں بھی تھیں مگر ملکہ حسن کی بات اور تھی اس کے ہونٹ موتیوں جیسے اس کی انکھیں جھیل سی گہری اس کے چہرے کو دیکھ چاند بھی شرما جاے اس کی صراحی جیسی گردن دیکھ کسی کی بھی سانسیں رک سکتی ہیں اس کے نیچے کا عالم دیکھنا کسی انسا ن کے بس کی بات نھی سونے جیسا بدن اس کی چھاتیاں 34 سائز کی گول مٹول ان ابھاروں کو چھو لینے سے ہی زندگی کا مقصد پورا ہو جاے اس کی پتلی بل کھاتی کمر کسی ہرن سے ملتی ہے اس کے ناف کی گہرائی ایسے جیسے زندگی اس میں فنا ہو رہی ہو اس کے نیچھے اس کی بنا بالوں کے بن چدی پھدی ایسے جیسے کسی نے قلم سے خوبصورت لائن لگائی ہو اس کی سڈول ٹانگیں ایسے جیسے سونے کی بنی ہوں غرض دنیا کے حسن کی ملکہ میرے سامنے کہڑی تھی اتے ساتھ اس نے اس شخص کو پکارا ملکہ: بولو اے انسان کیوں بلایا انسان: اس نا چیز کا نام علی ہے اور ملکہ حسن سے ملاقات کا طلبگار ہے ملکہ: بولو انسان ہم تمہارے سامنے کھڑے ہیں مانگو کیا مانگتے ہو کیوں کے تم نے تمام مشکلات کا بخوبی مقابلہ کیا اور ہمیں خوش کیا مانگو جو مانگنا ہے علی: ملکہ میں شباب حیات کا طلبگار ہوں ملکہ نے مسکرا کر کہا ہمیں پتہ تھا تم مرد زاد اس کے لیے ہی مجھے بلا سکتے ہو علی: ملکہ اگر اپ جانتی ہیں تو کیوں مجھ ناچیز کا امتحان لے رہی ہیں ملکہ نے مسکرا کر اس کو شباب حیات کا پیالہ دیا علی نے اس کو بڑی عقیدت سے پی لیا اخری گھونٹ پیتے ہی علی کو اک جھٹکا لگا اور اس کے جسم میں اک عجیب سی ہلچل ہونے لگی ایسا لگا اس کے جسم میں طاقت کا پہاڑ پھٹ رہا ہے اس کے ساتھ ہی ملکہ جانے لگی اور اس نے علی کو اخری بات بولی تم نے زندگی کی سب سے بڑی غلطی کر دی ہے اب تیرے بہت سے دشمن بنے گے مگر مجھے امید ہے تو ثابت قدم رہے گا زندگی میں جس دن تم نے کسی مرد کے ساتھ سکس کیا اس دن تیری یہ طاقت ختم ہو جاے گی ان الفاظ کے ساتھ ملکہ غائب ہو گئی اور علی بے حوش ہو کر گر گیا انکھ کھولنے پر علی اٹھا اور گھر کی طرف چل پڑا مگر پتہ نہیں کیوں علی کچھ بوجھل بوجھل لگ رہا تھا گھر آ کر علی نے باتھ میں گھس کر نہانا شروع کیا مگر اج علی کے جسم میں نمایاں تبدیلیاں تھیں جو اس کی بھی محسوس ہو رہی تھیں 3
Administrators Administrator Posted July 16, 2017 Administrators #4 Posted July 16, 2017 کہانی کا اسٹارٹ اچھا ہے۔مگر الفاظ اور املا کی کافی غلطیاں ہیں۔اگر ان پر دھیان دیا جائے تو کافی اچھی کہانی بن سکتی ہے۔ 2
Story Maker Posted July 17, 2017 #6 Posted July 17, 2017 آغاز امید کے مطابق اچھا ہے اڈمن بھائی نے درست کہا ہے کہ املا کی کافی غلطیاں ہیں جن کو اگر درست کرکے پوسٹ کیا جائے تو کہانی کو چار چاند لگ سکتے ہیں۔ نئی کہانی شروع کرنے پر میں آپ کو مبارکباد پیش کرتا ہوں 2
Pakdragon Posted July 17, 2017 Author #7 Posted July 17, 2017 ابھی پہلی کہانی ہے اگے اگے ٹھیک ہو جاے گی 1
Pakdragon Posted July 17, 2017 Author #8 Posted July 17, 2017 علی نے نہا کر جیسے ہی شیشہ دیکھا تو خود کو دیکھ کر دنگ رہ گیا اتنا حسن کے وہ خود اپنے اپ میں کھو گیا علی نے خود کو نہارا اور بیگ اٹھا کر کالج چلا گیا اج کالج میں سب اس کو اتنا بدلا بدلا دیکھ کر حیران تھے ان میں سب سے خاص علی کی انکھیں تھی جو کسی کو بھی اپنا دیوانہ بنا لینے کے لیے کافی تھیں اج لڑکیوں میں علی کافی مشہور تھا ہر کوئی اس کی انکھوں کی بات کر رہا تھا صبا سارا دن علی کا نام سن سن کر تھک گئی تھی اس کو پتہ نہیں کیوں علی سے سخت نفرت تھی کالج میں اس کی اتنی تعریف اس کو غصہ دلا رہی تھی حد تب ہوئی جب رمشاء نے بھی علی کی تعریف کی اس وقت وہ اس پر پھٹ پڑی صبا: بکواس بند کرو اپنی کیا صبح سے علی علی لگا رکھا ہے ارو خاص طور پر تم رمشاء تم کو اج کیا ہوا اس کی بڑی تعریف کر رہی ہو یاد ہے نہ اس نے پورے کالج میں تمہیں زلیل کیا تھا رمشاء: صبا بات وہ نہیں ہے اس کی انکھیں جھیل سی گہری ہو گئی ہیںجب سے وہ کراچی سے ایا ہے بت نکھرا نکھرا سا ہے اک عجیب سی کشش اآ گئی ہے اس میں صبا : خاموش اک لفظ بھی نہیں تیری عزت کی وجہ سے میںے اس کو تھپڑ مارا تھا اور اج تم کو اس میں کشش نظر اا رہی ہے رمشاء: مجھے بہت افسوس ہو رہا ہے میںے کیسے اس کو زلیل کیا اس نے صرف دوستی کے لیے ہی تو ہاتھ بڑھایا تھا مگر ہم نے اس کو اس کی اوقات گھٹا اور ناجانے کیا کیا کہا مجھے اب افسوس ہو رہا ہے صبا : اتنا ہی دکھ ہو رہا ہے تودفع ہو جاو اس کے پاس میرے پاس کیا ہے رمشاء: جانے دو یار مینے تو بات کی ہے تم اتنا کیوں بھڑک گئی جاو نہیں کرتی اس کا ذکر اب خوش اس کے ساتھ ہی رمشاء نے اس کے بائیں ممے کو زور سے مسل کر انکھ ماری جس سے صبا سسک کر رہ گیئ اور رمشاء کو مارنے کے لیے اس کے پیچھے دوڈی علی اج سب کی باتوں کا محور رہا کالج کی لڑکیاں کیا ٹیچرز بھی اس پر فدا تھیں سارا دن علی کو دیکھنے کے بعد اخر میتھ ٹیچر ریحانہ سے رہا نہ گیا اور اپنی پھدی کی اگ کے ہاتھوں مجبور ہو کر انہوں نے علی کو بولا ریحانہ: علی تم دو ماہ سے کالج کیوں نہیں اے علی : مس میں اپنے گھر گیا تھا کراچی ریحانہ: تمہیں پتہ ہے امتحان میں 3 ماہ باقی ہیں کیسے کرو گے سب پڑھائی میں تم پہلے ہی بہت کمزور ہو علی : مس میں کوشش کرو گا سب کور ہو جاے ریحانہ: علی تم کالج ٹائم کے بعد میری بات سن کر جانا میں تمہیں کچھ نوٹس دوں گی اس کے علاوہ تم اک گھنٹہ میرے گھر ٹیوشن لیا کرو گے علی : جی مس ٹھیک ہے میڈم ریحانہ کی عمر 29 سال ہے مگر ان کی ابھی شادی نہیں ہوئی ان کے مموں کا سائز 36 ہے اور بہت ڈیپ گلے پھنتی ہیں علی سمجھ گیا اب اسے کیا کرنا ہے کرتے کرتے کالج سے چھٹی ہوئی اور وہ میڈم ریحانہ کے ساتھ ان کے گھر چل پڑا سارے رستے ریحانہ علی کو گھورتی رہی اور علی اس سب کے مزے لیتا رہا گھر میں مس اکیلی ہی رہتی تھی ان کی فیملی حیدر آباد میں تھی میڈم نے علی کو اندر بلایا اور بیڈ روم میں لے جا کر بیٹھنے کو بولا اور علی سے پوچھا کیا لو گے علی نے انکار کیا تو بولی اسے اپنا گھر ہی سمجھو شرماو مت یہا کوئی نہیں اتا میں اس گھر میں اکیلی رہتی ہوں تم ارام سے بیٹھو علی سمجھ گیا ان کے دماغ میں کیا چل رہا ہے علی نے کہا مس اپ ٹھنڈا ہی لے آئیں ہاں ویسے بھی اس وقت ماحول بہت گرم ہو رہا ہے 2
Pakdragon Posted July 21, 2017 Author #10 Posted July 21, 2017 ریحانہ بولی پھلے میں فریش ہو لوں علی بولا میں بھی فریش ہونا چاھتا ہوں کیوں نا مل کر ہی ہو لیں علی کی بات سن کر ریحانہ مسکرائی اور بعلی آ جاو مجھے کیا اعتراض ہو سکتا ہے علی نے جلدی سے کپڑے اتارے اور باتھ میں گھس گیا اندر کا ماحول کافی خوبصورت تھا ریحانہ کپڑے اتارے علی کا انتظار کر رہی تھی علی نے جاتے ساتھ اس کے ہونٹوں پر حملہ کر دیا اور ہاتھوں سے اس کے نرم نرم مموں کو زور سے مسلنا شروع کر دیا ریحانہ بھی بھرپور ساتھ دےرہی تھی اس کا اس نے شاور کھول دیا اور اس کی کمر پر ہاتھ رکھ کر اس کو خود سے ملا لیا اس کے 36 سائز کے ممے علی کی کشادہ چھاتی میں دبنے لگے پانی دو جسموں کی اگ کو مٹانے کی ناکام کوشش کر رہا تھا کچھ دیر نہانے کے بعد دونوں ننگے ہی کسنگ کرتے باہر اے اور بیڈ پر لیٹ گیے علی نے دوبارہ پوزیشن سنبھالی اور اک ہاتھ اس کی پھدی پر رکھ کر اس کی گرمی چیک کرنے لگا اور دوسرے ہاتھ سے اس کے مموں کو اور نرم کرنے لگا کچھ دیر بعد علی نے پوزیشن بدل کر 69 میں اا گیا ریحانہ کے سامنے جب علی کا لن ایا تو ریحانہ کو احساس ہوا اس نے غلط بندے کو چھیڑا ہے علی کا لن 9 انچ لمبا اور 3 انچ موٹا ہے جو کسی بھی پھدی کو پھدا بنانے کے لیے کافی ہے علی کے ہونٹوں نے جیسے ہی ریحانہ کی پھدی کو چھوا تو ریحانہ کا پورا بدن کانپ گیا اور مزے کا عجیب سا نشہ محسوس ہوا ریحانہ نے علی کے لن پر زبان پھیرنا شروع کر دیا اور اس کے لن کو منہ میں لینے کی کوشش کرنے لگی مگر علی کا لن پورا اس کے منہ میں نہیں جا رہا تھا علی نے چوس چوس کر اس کی پھدی سے پانی نکالا اور سارا پی گیا ریحانہ کی زندگی کا پہلا موقع تھا اج کسی نے اس کی پھدی کا پانی پیا تھا وہ زور زور سے لن چوسنے لگی لیکن علی فارغ نہیں ہوا اخر تھک کر بولی علی اب اور برداشت نہیں ہوتا میری پھدی کو پھاڑ دو علی نے یہ سن خر ریحانہ کو لٹا کر اس کی ٹانگوں کے درمیان آ گیا اور لن کو اس کی پھدی پر رگڈنے لگا اس سے ریحانہ کی رہی سہی کسر بھی نکال گیئ اور وہ تڑپنے لگی وہ بار بار گانڈ اٹھا اٹھا کر لن لینے کے لیے ترسنے لگی اخر علی کو اس پر رحم آ گیا علی نے اپنے موٹے لن کو اس کی پھدی کے لبوں پر رکھا اس کی پھدی کے لب کپکہا رہے تھے علی موقع ضائع کیے بغیر اک دھکا لگایا علی کا لن پھسلتا ہوا ٹوپی تک اس کی پھدی میں پھنس گیا ریحانہ کی انکھیں درد کی شدت سے پھیل گئیں علی نے بنا وقت گنوائے اک دھکا لگایا علی کا لن اس کی پھدی کو چیرتا ہوا ادھا اندر داخل ہو گیا اس وقت ریحانہ کے منہ سے چیخوں کا طوفان نکل ایا اور وہ علی کو روکنے کے لیے منتیں کرنے لگی اس کے انسو اس کی آنکھوں سے بہتے ہوئے اس کے لال گالوں کو بھگو رہے تھے علی نے کچھ لمحے رکنے کے بعد پھر سے حرکت دینا چاہی مگر ریحانہ نے اس کو ہلنے نا دیا علی نے اس کے مموں کو منہ میں لے کر چوسنا شروع کیا اور اس طرح اس کو نارمل کرنے لگا علی نے کچھ دیر میں محسوس کیا کے ریحانہ کافی حد تک نارمل ہے تو علی نے اسی انداز میں پیٹھ کو تھوڑا سا ہلایا اور لن کو ٹوپی تک باہر نکالا علی کو اپنے لن کو باہر اتے ساتھ ہی کچھ گرم گرم پانی بھی باہر اتا محسوس ہوا علی نے جب نیچے دیکھا تو خون دیکھ علی اور جوش میں آ گیا علی نے ادھے لن کے ساتھ ہی ریحانہ کو چودنا شروع کیا اور ٹوپی تک لا کر ادھا لن اک آہستہ سے جھٹکے سے اندر ڈال دیتا اسی طرح چودتے علی نے محسوس کیا ریحانہ کافی حد تک نارمل ہو گئی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنی گانڈ اٹھا اٹھا کر لن کو اور اندر لینے کی کوشش کرنے لگی مگر علی نے اپنا انداز وہی رکھا اس طرح کرنے کے کچھ منٹ میں ریحانہ کے جسم میں اچانک تھوڑی تیزی آ گئی اور علی کے گرد اس کے ہاتھوں کی پکڑ مضبوط ہونے لگی علی اسی وقت کا انتظار کر رہا تھا اچانک ریحانہ کے جسم نے اکڑنا شروع کیا اور اس کے ساتھ ہی وہ فارغ ہونے لگی اس بات کو محسوس کرتے ہی علی نے لن کو ٹوپی تک باہر نکالا اور اک زور دار جھٹکے میں پورا لن اس کی پھدی میں اتار دیا علی کو یوں محسوس ہوا جیسے کوئی کپڑا پھٹ گیا اور اس کے ساتھ ہی علی کا پورا لن ریحانہ کی پھدی میں اتر گیا اور ریحانہ اک زوردار چیخ مار کر بےہوش ہو گئی علی نے اس کے منہ پر کافی تھپڑ مارے مگر وہ دنیا سے بیگانہ ہو گئی تھی مگر بےہوشی کی حالت میں بھی ریحانہ کی انکھوں سے انسو جاری تھے اور اس کی ٹانگیں بری طرح کانپ رہی تھیں علی رکا نہیں اور اپنے جھٹکے اس کی ہھدی کی گہرای میں لگاتا رہا کچھ دیر بعد ریحانہ کو ہوش انھ لگا مگر وہ درد اور مزے کی ملی جلی حالت میں کچھ بولنے سے خود کو روک رھی تھی پورے کمرے میں تھپا تھپ اور مدھر اہ اہ اہ اہ اوئی ماں مار ڈلا نیکالو پلیز جیسیا آوازوں سے گونج رہا تھا اسی سب میں ریحانہ اک بار اور فارغ ہو گیئ 5
Recommended Posts