Disable Screen Capture Jump to content
Novels Library Plus ×
URDU FUN CLUB

Zindagi ka Safar زندگی کا سفر


Recommended Posts

یہ کہانی میری خود کی لکھی ہوئی ہے۔ میں نے اس کہانی کو

دوسرے فورمز پر لکھی لیکن کسی بھی طرح کا اچھا رسپانس نہیں ملا۔  ہلکی پھلکی عزت افزائی ہوئی تو سوچا یہاں بھی پوسٹ کردوں۔

 

شکریہ

Link to comment

کچھ ممبرز مسلسل  رومن اردو میں کمنٹس کر رہے ہیں جن کو اپروول کی بجائے مسلسل ڈیلیٹ کیا جا رہا ہے ان تمام ممبرز کو مطلع کیا جاتا ہے کہ یہ کمنٹس رولز کی خلاف ورزی ہے فورم پر صرف اور صرف اردو میں کیئے گئے کمنٹس ہی اپروول کیئے جائیں گے اپنے کمنٹس کو اردو میں لکھیں اور اس کی الائمنٹ اور فونٹ سائز کو 20 سے 24 کے درمیان رکھیں فونٹ جمیل نوری نستعلیق کو استعمال کریں تاکہ آپ کا کمنٹ با آسانی سب ممبرز پڑھ سکیں اور اسے اپروول بھی مل سکے مسلسل رومن کمنٹس کرنے والے ممبرز کی آئی ڈی کو بین کر دیا جائے گا شکریہ۔

میرا نام عثمان ہے. میں آزاد کشمیر کے ایک (گاؤں) میں رہتا ہوں۔

.

 

میرا خاندان 3 بہنوں، ماں باپ، اورمجھ پر مشتمل تھا۔

 

تعارف: ...

 

ماں: ماں۔۔۔ وہ 45 سال کی عمر کی عورت ہیں.

 

والد: والد ... 47 سالہ آدمی تھے.

 

(امی، ابو کو ان کے نام سے نہیں پکارتی تھی، عثمان کے ابا جی ایسا کہہ کر پکارتی تھی)

 

پہلی بہن ... فرزانہ ( 25 سال کی عمر)، میں نے ان کی شخصیت سے ہی ان کا سازؑ کا اندازہ لگایا 38- 28 - 36 ... جسم کا رنگ نارمل... سب کے لئے تیار کھانا تیار کرنا، سب کام کرنا ان کی تمام ذمہ داریاں تھی

پھر شادی کے ان کی تمام ذمہ داریاں، منجھلی بہن غزالہ نے اپنے سر لے لی

 

فرزانہ باجی نے پہلے ہی شادی کر لی تھی اور اپنے شوہر کے ساتھ سٹی کے علاقے محکمہ برقیات میں کام کرتا تھا۔۔

 

دونوں میاں بیوی سٹی کے علاقے میں رہتے تھے، سب کے سامنے وہ ایک کامیاب ازدواجی زندگی گزار رہے تھے ...

 

منجھلی بہن ... غزالہ ... ان کی شادی فل ھال نہیں ہوی تھی ... عمر 22 ... ان کی فگر 36 26 34 ... بڑی بہن کی شادی ہو جانے کی وجہ سے غزالہ باجی نے اپنی پڑھاءی چھوڑ دی۔

یا

یہ بھی وجہ ہو سکتی تھی کہ میری بہن کو پڑھاءی میں دلچیسپی نہ تھی

 

 

 

میری بہن غزالہ کو صرف ایک خاص بیماری تھی۔ کوءی ایسی ویسی نہیں، بس جیسے ہی فارغ وقت ملتا، 

 

میری بہن فورا رسالہ جات لے کر چھت پر چلی جاتی اور دن رات ایک کرکے رسالہ پڑھتی رہتی۔

 

تیسری بہن ... طاہرہ ... 20 سال کی عمر ... فگر 34 26 36 ... طاہرہ کے جسم کی جسامت کافی زیادہ پھیلی ہوءی تھی ...

 

طاہرہ کو بس ایک ہی بری عادت تھی، سونے کی، وہ کافی دیر تک سوتی رہتی تھی۔

 

خاندان کا آخری ایک رکن ہے ... میں ...

 

میں: عثمان .. میری اس وقت عمر ۱۸ سال تھی جب یہ تمام واقعات شروع ہوءے ...

 

 

 

 

 

Update 1

اپڈیٹ نمبر۱

سکول لاءف میں سکس کے متعلق کافی کچھ معلوم ہوچکا تھا، لیکن یہ خود کبھی سکس نہیں کیا تھا۔ شاید سکس اس وقت نصیب میں نہ تھا۔

خالق میٹرک میں نہم جماعت کے امتحان میں بری طرح فیل ہوگیا تھا، جس کی وجہ سے اسے دوبارہ نہم جماعت میں بیٹھنا پڑا۔

اس نے اس مرتبہ سائنس کے مضامین چھوڑ، آرٹس کے مضامین رکھ لیے تھے۔ جبکہ میں نے باءیو سائنس میں داخلہ لیا۔ کیونکہ میرے والدین مجھے ساءنس پڑھانے چاہتے تھے۔

 

 

خیر، میں نے کافی سن رکھا تھا کہ سئنیر سے دوستی کرنے سے سکول لائف میں مسئلے مسائل نہیں ہوتے، اسی سوچ کو نظر میں رکھتے ہوئے میں نے خالق سے دوستی کرنے کا سوچا اور میں اس مقصد میں کامیاب بھی ہو گیا۔

میری روٹین صبح اٹھنا، تیار ہونا، سکول جانا، سکول کے بعد گھر آنا بس یہی تھی۔ سکول میں بریک ٹائم خالق ، اور خالق کمپنی میں بیٹھنا پھر گھر چلے آنا بس یہی روٹین تھی۔

 

میں ویسے بھی پڑھائِ میں کافی بہتر تھا، اس لیے ٹیچرز نے شاید مجھے اسی قابلیت کی بنیاد پر مجھے سکول کی اسمبلی اور کلاس کا ہیڈ بھی بنادیا گیا۔

خالق نے مجھے اپنے دوستوں سے متعارف کروادیا تھا، تا کہ وقت آنے پر وہ میری، اور میں ان کی مدد کرسکوں ۔

میری دوستی کلاس کے لڑکوں سے بھی ہونے لگی تھی۔ کچھ سے ہائے ہیلوبھی ہوتی تھی، ان میں سے ایک گروپ بھی بن گیا جس میں کافی لڑکے تھے، جن کو میں لیڈ کرتا تھا،

بریک ٹائم میں خالق اپنی گرل فرینڈ جوکہ آج کل اس کی بیوی ہے، اس کے ساتھ کیے گئے سکس کو ہم سب سے شئیر کرتا اور میرے علاوہ سب سکس کے نشے میں ڈوپ جاتے، 

 

بس یہی میری بورنگ لائف تھی جو بس کسی نہ کسی طرح گزر رہی تھی۔

 

ایک دن ایسے ہی بریک ٹائم میں، میں اپنے دوست خالق کے پاس چلا گیا۔

ان میں سے ایک دوست نے خالق کو خاموش ہوجانے کا اشارہ کیا لیکن خالق کے خاموش ہونے تک میرے کانوں تک خالق کی زبان سے نکلی ہوئی کچھ باتیں میرے کانوں تک پہنچ چکی تھی۔

خالق کو اس بات کا اندازہ ہو چکا تھا اس لیے خالق نے میرے لیے جگہ بنائی اور دوبارہ سے اپنی رام لیلا شروع کردی۔

خالق: میں صبح جب سکول میں آیا تو کافی زیادہ دیر ہوچکی تھی(نالائق طالب علموں کو کوئی بھی نہیں پوچھتا، خالق کا ویسے بھی یہ معمول تھا) میں سمجھا کہ کلاس میں سب موجود ہیں، اس لیے میں سیدھا کلاس کے اندر داخل ہوگیا۔

دوستو! یقین مانو۔۔۔ ہمارے بیالوجی والے سر فلاں لڑکے کو چود رہے تھے۔ پہلے تو مجھے کافی زیادہ عجیب محسوس ہوا، پھر میں کچھ دیر تک وہاں کھڑا سوچتا رہا کہ ابھی شور مچا کر بائیو کے سر کے کالے کرتوت سب سے کو بتلا دوں۔

لیکن پھر سوچا کہ ایسا ہو سکتا ہے سر مجھے سکول سے ہی نکال نہ دیں۔ میں انہیں سوچو میں گم تھا کہ تبھی سر کی نظر مجھ پر پڑی۔

سر کچھ لمحوں کے لیے رکے، لیکن انہوں نے مسکراتے ہوئے دوبارہ سے اپنے سٹوڈنٹ کی گانڈ مارنا شروع کردی۔

سر نے گانڈ مارتے ہوئے میری طرف مسکراتے ہوئے دیکھا، پتا نہیں کیوں، مجھ سے ہلکی سی مسکراہٹ لبوں سے نکل گئی۔ سر نے مجھے اپنے پاس آنے کا اشارہ کیا، لیکن میں سکول میں یہ سب کرنا نہیں چاہتا تھا اس لیے خاموشی سے وہاں سے واپس آگیا۔‘‘

خیر قصہ مختصر یہ کہ خالق نے ہم سب کو خاموش رہنے کا بول کراپنی مجلس برخاست کردی۔

 

 

 

پھر کچھ دنوں کے بعد خالق کا ٹاپک ۔۔۔سکیس کی طرف مڑ گیا، ہم سب کے لیے یہ سب کچھ بلکل نیا تھا، ہم خالق کی باتوں کو سن لینے کے علاوہ اور کیا کرسکتے تھے اس لیے خاموشی سے ہم خالق کی باتیں سنتے رہتے تھے۔

ایک دن میں بریک ٹائم میں تھوڑا سا لیٹ خالق، خالق کے دوستوں کی کمپنی (مجلس) میں گیا تو دیکھا کہ خالق آج اکیلا بیٹھا ہوا تھا۔ میں خاموشی سے خالق کے قریب جا بیٹھا۔

سلام دعا کے بعد میں نے خالق سے اس کے دوستوں کے بارے میں پوچھا تو اس نے بتایا کہ وہ سب ایسے ہی گھمنے گئے ہیں۔ مجھے عجیب لگا میں کچھ دیر خالق کے پاس بیٹھا رہا پھر خاموشی سے اٹھ کر اپنی کلاس میں آگیا۔

اگلے دن، میرے کتابی گروپ میں سے ۱ لڑکے نے مجھے سائڈ پر لے جا کر کہا: بھائی! میری ۱ پرابلم ہے، پلیز انکار نہ کرنا، میں نے اسے بات جاری رکھنے کا اشارہ کیا،

لڑکا: بھائی ہم دونوں کے گھر کافی قریب ہیں اس لیے بھائی تم مجھے میرے گھر یا میں تمہارے گھر آجا یا کروں گا پڑھنے کیلئے۔ اس سے یہ ہوگا کہ ہم دونوں کی پڑھائی اچھے سے ہو جایا کرے گی۔

میں نے کچھ دیر سوچنے کے بعد ہاں بول دی، لیکن میں نے اسے اپنی امی سے اجازت لینے کا کام سونپ دیا۔ اس نے اپنی بہن کو بھیج کر میری امی کو رام کرلیا، میں اسے روزانہ تو نہیں ، لیکن دو دن بعد لازمی جا کر ریاضی کے سوالات سمجھایا کرتا تھا۔

ایک دن، شام کے وقت وہ اور اسکی امی ہمارے گھر آگئی مختصر یہ کہ اس کی امی نے بتایا کہ ان کی دوسری بیٹی درمیانے طبقے کی طلبہ ہے، اس لیے میرے بیٹے کے ساتھ ساتھ میری بیٹی کو بھی عثمان تھوڑا بہت سمجھا دیا کرے۔ وقت گزرتا گیا ظاہر سی بات تھی میرے دل میں ایسا ویسا کچھ خاص تھا نہیں، جو میں بولتا کہ ٹیوشن کے وقت میں نے یہ کردیا یا وہ کردیا۔ لیکن میرا فائدہ یہ تھا کہ میرا بورنگ وقت اب آسانی سے کٹنے لگا تھا۔

نہم جماعت کے پیپرز کے وقت امی نے مجھے میرے کمرے کے علاوہ ایک اور کمرا دے دیا، میں اب امی اور اپنی بہنوں کے سامنے رہ کر خود بھی پڑھتا اور اپنے کلاس فیلو اور اسکی بہن کو بھی پڑھا دیا کرتا تھا۔ امتحانات کے دن مزید قریب آنے پر میرے سٹوڈنٹس کی تعداد دو سے چودہ ہو گئی جن میں لڑکے، لڑکیاں تھی۔ میرے لیے یہ مشکل کام تو تھا ہی، لیکن اس مشکل کام میں، میری مدد میری بہن طاہرہ نے شروع کردی۔ لڑکیوں کے اکثر مسئلے وہ حل کردیتی، کچھ میں خود۔

میں کسی کے بھی سامنے بن سنور کر نہیں جاتا تھا بس ایسے ہی سمپل سا رہتا تھا۔ خیر ہمارے گھر میں ۱ ہی ایسا کمرا تھا جہاں ہم سب کے کپڑے(دھلے ہوئے، اور گندے) پڑے ہوتے تھے جس کا دل کرتا وہ اپنے کپڑے اٹھا کر باتھ روم میں چلا جاتا اور نہا کر تبدیل کرلیتا۔ میرے ذہن میں اس وقت تک ایسا کوئی خیال نہیں تھا کہ میں اپنی بہنوں کے انڈرگارمنٹس کو وہاں سے اٹھا کر استعمال کرتا یا اپنی سکیسی سکیسی کیوٹ سی سٹوڈنٹس کے ساتھ کچھ کرنے کا خیال اپنے دماغ میں لاتا۔

امتحانات سے پہلے رول نمبر سلپ آتی تھی، اس لیے ۱ دن ہم سب سکول پہنچے تو وہاں مجھے خالق اور خالق کے دوستوں کا جڑمٹ نظر آیا۔ خالق نے مجھے اپنے پاس بیٹھالیا اور اپنے دوستوں کو وہاں سے جانے کا کہا اور ان میں سے ایک کو میری رول نمبر سلپ لانے کا بول دیا۔ ہم دونوں ایک دوسرے کے مخالف سمت میں بیٹھے تھے۔ میری پیٹھ دیوار کی جانب اور خالق کی دوسری جانب تھی۔

خالق: اور سناؤ کیسے رہے یہ دن؟

میں: بس یار! ایسے ہی گزر گئے سمجھ ہی نہیں آئے کہ چھٹیاں کیسے گزرگئی؟

خالق(مسکراتے ہوئے): اچھا جی۔۔۔ سارا دن آٹھ نو پھدیوں کے درمیان رہتے تھے تو کیسے نہ گزرتے یہ دن؟؟؟ 

میں تھوڑا سا شرمایا لیکن پھر بھی مسکراتے ہوئے بولا: کہاں یار۔۔۔ وہ سب مجھ سے دو تین سال چھوٹی ہیں۔ ان کو یہ سب کہاں سے معلوم ہوگا؟؟

خالق نے زور سے قہقہ لگایا اور میرے پٹ(ران) پر ہاتھ مارتے ہوئے بولا: آلہ کنجرا۔۔۔ ہن سمجھ آئی۔۔۔ تمہاری تو سچ میں نیت خراب تھی ان سب پر۔۔۔

میں تھوڑا مزید شرماتے ہوئے بولا: قسم سے یار! ایسا کچھ بھی نہیں تھا میرے ذہن میں۔۔آج ہی تیری زبان سے سن رہا ہوں۔۔۔

خالق: اگر تیرے ذہن میں ابھی یہ بات آئی ہے تو اُس وقت یہ بات کیوں نہیں آئی جب اس لڑکے نے تمہیں اپنے گھر بلایا تھا۔(یہ وہی لڑکا تھا جو ہمارے بائیولوجی کے سر سے اپنی گانڈ مروا رہا تھا)

میں: اچھا چھوڑ یار۔۔۔ میرا تو کوئی ایسا ارادہ نہیں تھا ان سب لڑکیوں پر، ویسے بھی گھر پر سب ہی ہوتے تھے۔

خالق: ایسا سُن ۔۔۔ کون سی والی لڑکی تمہیں زیادہ پسند آئی؟

میں(سوچتے ہوئے): نہیں یار میں نے کسی ایک بھی لڑکی کو غور سے نہیں دیکھا، جو بولوں کہ کون سی لڑکی زیادہ خوبصورت ہے؟

خالق: اچھا چھوڑ! یہ بتا کہ ان چودہ دنوں میں کون سی لڑکی نے کون سی برا پہن رکھی تھی۔ سنا ہے چھوٹی لڑکیاں صرف کپڑا پہنتی ہیں۔

میں نے اس مرتبہ بھی انکار کردیا جس پر خالق نے مجھے ہلکا سا تھپڑ مارتے ہوئے بولا: تُو ساری زندگی شریف ہی بنا رہیے، بھابی جی نُو آکھی، میں تواڈی لتا نہیں، تُو میری چُک۔ بہن چود۔۔۔ حرامی کی اولاد۔ (خالق نے غصے میں آخر کار مجھے گالی دے دی)

 

خالق کی بات سن کر میرے چہرے پر شرم و شرمندگی سے ایثار پھیل گئے۔ خالق نے میری اس حالت کو کم کرنے لیے میرے سامنے اپنے پاس رکھے سموسے کردیے۔ ہم دونوں آہستہ آہستہ سموسے کھاتے ہوئے باتیں کرنے لگے۔

 

خالق: اچھا یار۔۔۔ یہ تو بتاؤ کہ تمہیں مردانہ سکس کے بارے میں کچھ معلوم ہے کہ نہیں؟

 

میں: یار سچ بولوں تو مجھے اس سیکس کی الف ب پ بھی نہیں معلوم، تم تو مردانہ سیکس کے بارے میں پوچھ رہے مجھے اس چیز کے بارے میں صرف تم سے معلوم پڑا ہے۔ ایک سچ یہ بھی ہے کہ آج دن تک میں نے کسی لڑکی کی طرف دیکھا بھی نہیں، تم تو مردانہ سیکس کے بارے میں بات کررہے ہو۔

 

خالق مسکراتے ہوئے: اچھا پھر میرا یار کنوارہ ہے۔ ویسے ایک بات تو بتا۔۔۔(میں نے سوالیہ نظروں سے خالق کی جانب دیکھا) اچھا  یہ بتا کہ، تو نے کبھی اپنا ہاتھ چلایا ہے اپنے ہتھیار پر؟؟؟

 

خالق کے ڈائریکٹ پوائنٹ پر آنے پر میں تھوڑا سا کنفوز ہوا پھر آہستہ سے بول دیا: نہیں

 

خالق: اچھا۔۔۔ تو نے یہ کام کرتے ہوئے کسی کو دیکھا ہے؟

 

میں: نہیں یار۔۔۔ میں نے کبھی کوئی کام نہیں کیا اور نہ کسی کو یہ کام کرتا دیکھا ہے۔

 

میرے چہرے پر سیکس کی باتیں کرتے ہوئے نائٹی سی سمائل پھیل چکی تھی۔ خالق میرے چہرے پر مسکراہٹ دیکھ کر کھلکھلا کر ہنسنے لگا، خالق نے ایک نظر اپنے پیچھے مڑکر دیکھا جہاں پرنسپل آفس کے سامنے کافی بھیڑ جمع تھی، پھر مجھ سے مخاطب ہوا

 

چل توجھے کچھ دیکھاتا ہوں‘‘ میں خالق کے ساتھ ہو لیا، ہم دونوں کچھ لمحوں کے بعد بیالوجی کی کلاس روم کی کھڑکی کے سامنے تھے۔ پہلے خالق کچھ دیر تک اندر جھانکتا رہا۔

 

Edited by DR KHAN
copy paste error
Link to comment

یار کہانی میں کچھ ربط کی کمی ہے۔ ایسا محسوس ہوا کہ کئی پیراگراف دہرائے گئے ہیں۔

یعنی کاپی پیسٹ میں کہیں غلطی ہو گئی ہے۔

میں دیکھتا ہوں اگر ایڈٹ ہو سکے تو۔

باقی اس فورم پر انسسٹ قطعی طور پر منع ہے۔

Link to comment
2 hours ago, DR KHAN said:

یار کہانی میں کچھ ربط کی کمی ہے۔ ایسا محسوس ہوا کہ کئی پیراگراف دہرائے گئے ہیں۔

یعنی کاپی پیسٹ میں کہیں غلطی ہو گئی ہے۔

میں دیکھتا ہوں اگر ایڈٹ ہو سکے تو۔

باقی اس فورم پر انسسٹ قطعی طور پر منع ہے۔

dear doctor bro.

is kahani mein incest sex nahi aye ga,.. thanks for comment here.

agar aap ko mehsoos howa hai k kuch paragraphs doubled hain to un ko edit kar dain q k aap moderator hain

Link to comment

 

پھر کچھ سیکنڈز کے بعد خالق نے اپنے ہاتھ کی اشارے سے مجھے اپنے پاس بلایا اب ہم دونوں اس پوزیشن میں کھڑے تھے خالق ٹھیک میرے پیچھے اور میں سے آگے۔۔۔
اندر کا نظارہ یہ تھا کہ سر اپنے اُسی سٹوڈنٹ کو پرائیویٹ تعلیم دے رہے تھے آج پہلی مرتبہ میں نے ایسا نظارہ دیکھ رہا تھا۔ جب خالق اس سیکس کے متعلق مجھ سے پوچھ رہا تھا تب میرا ہتھیار آہستہ آہستہ کھڑاہونے لگا تھا اب یہ منظر دیکھ کر میرے ہتھیار پر کیا گزری ہوگی یہ تو وہی جانتے ہیں جو ایسا سین (منظر) خود براہ راست دیکھ چکے ہیں۔
خالق(سرگوشی): دیکھ رہے اپنے سر کو؟؟؟ کیسے اپنے اسٹوڈنٹ کو پڑھا رہے ہیں ’’پاس کروانے کے لیے‘‘
میں نے کمرے کے اندر ہونے والی گفتگو کو سننے لگا، اسٹوڈنٹ اپنے سر سے سیکس کرواتے ہوئے انسسٹ کررہا تھا کہ وہ اب تو اچھے نمبروں سے پاس کروا دیا جائے گا نا۔۔۔ جب کہ سر خود اس کی نرم، موٹی، باہر کو نکلی گانڈ کی گرمی میں کھوئے تھے۔ ہاں کیوں نہیں، تمہیں میں اچھے نمبرات سے پاس کروا دوں گا۔
سر کے یہ الفاظ سننے تھے کہ مجھے ایسا محسوس ہوا کہ کسی کا ہاتھ میرے ہتھیار پر آہستہ آہستہ چل رہا ہے۔ میں تھوڑا سا پیچھے کو ہو کر مڑنے لگا تو مجھے اپنی آنکھوں پر یقین نہ آیا۔
کیوں کہ یہ ہاتھ خالق کا تھا۔ خالق کمینی مسکراہٹ کی ساتھ میرے ننگے کیے ہوئے ہتھیار کو اپنے ہاتھ میں آگے پیچھے کرکے مٹھ لگائے جا رہا تھا۔

Link to comment
  • 2 weeks later...

خالق نے میری طرف ایک نظر ڈالی اور آہستہ آہستہ اپنے دونوں ہاتھوں کو آگے پیچھے کرکے خود کو بھی اور مجھے بھی جنسی تسکین دینے لگا، میری آنکھیں آہستہ آہستہ سرور میں بند ہونے والی تھی لیکن کلاس کے اندر بائیو کے ٹیچر کی موجودگی کی وجہ سے اپنی آنکھیں بند نہ کرسکا۔ میں نے خالق کو بھی روکنا مناسب نہ سمجھا۔

میں نے اپنا سر گھوما کر بائیو کلاس کی کھڑکی سے اندر کی طرف دیکھا تو وہاں بائیو سر اور وہ سٹوڈنٹ موجود نہ تھے۔ خالق سرگوشی کرتے ہوئے:سر چلے گئے نا!

میں(لڑکھڑاتی آواز میں): ہاں۔۔۔

خالق(مسکراتے ہوئے): ایسے مارتے ہیں مُٹھ۔۔ (میری سمجھ میں خالق کی بات آرہی تھی، میں اس وقت انجانی کیفیت میں مبتلا اپنے خشک پڑتے گلے کو تر کرنے کی کوشش کرنے لگا۔ تبھی خالق کے لُنڈ نے اپنا پانی چھوڑنا شروع کردیا میں بڑے غور سے اس عمل کو دیکھ رہا تھا۔)

خالق اپنی پینٹ کو چڑھا کر میری ٹانگوں کے درمیان بیٹھ گیا

خالق:۔ ویسے  میری جان نے کافی تازہ بنا رکھا ہے اپنے شیر کو۔۔۔

جیسے ہی خالق کا مثبت کمنٹ کو میں نے سنا تو میری نظر میرے ہتھیار پر پہلی بار گئی۔ میں نے پہلی مرتبہ اپنے شیرکی طرف دیکھا جو تن کر خالق کے ہاتھ میں لہرا رہا تھا ۔خالق اپنے کام میں مصروف تھا۔

میں: بس کر یار۔۔۔ چل یہاں سے۔۔۔ (خالق کے چہرے پر ہلکی سی حیرت کی لہر چھائی پھر خالق نے اُسی وقت میرے لنڈ پر اپنے منہ میں موجود تھوک کو پھینکا اور تیزی سے مٹھ لگانے لگا۔ خالق تو اپنے کام میں مصروف تھا لیکن مجھ سے مزید کھڑا رہنا محال ہوتا جارہا تھا۔ میں نے ایک منٹ تک خود کو روکے رکھا پھر خالق کو پیچھے کر کے وہاں سے نکل آیا۔ میری سمجھ میں یہ بات نہیں آئی کہ میرا پانی کیوں نہیں نکلا جبکہ خالق کا پانی نکل چکا تھا۔ میں جب سکول سے نکل رہا تھا تب خالق نے مجھے آواز دے کر روک لیا۔ جیسے ہی ہمیں تنہائی ملی اسی وقت خالق نے اپنی جیب سے ایک کالے رنگ کا شاپر نکال کر مجھے دیا۔ ’’اس میں ایک چیز ہے اسے تُو اپنے ہتھیار پر ملتے رہنا ایک نہ ایک دن تیرا بھی پانی نکل جائے گا۔ نہ بھی نکلے تُو بس اس چیز سے مزے کرتے رہنا اور ہاں۔۔۔ کسی کو دیکھانا مت۔۔۔ یہ نہ ہو کہ تیری امی تیرے ساتھ ساتھ مجھے بھی میرے گھر سے نکلوا دیں۔

 

میں نے ہاں میں سر ہلایا اور گھر کے لیے نکل پڑا۔ گھر پر جب اکیلا تھا تب میں وہ شاپر نکالا اور ہاتھ ڈال کر وہ چیز نکالی۔ میرے ہاتھ میں کالے رنگ کی کپ شیپ کی درمیانی سائز کی برا تھی۔ سائز کا مجھے علم نہیں تھا کیونکہ اس برا پر ٹیگ نہیں تھا۔ اس برا سے ہلکی ہلکی بو آرہی تھی جو انسانی جسم کی ہوتی ہے۔میں دن کے ہوئے واقعے کو یاد کرتے کرتے آہستہ آہستہ اپنے کپڑے اپنے جسم سے اتارنے لگا۔ میں جب بلکل ننگا ہوگیا تب میں نے فرش پر لیٹنے کا فیصلہ کیا اور ویسا ہی کیا۔ خالق بتایا کرتا تھا کہ جب اس کی گرل فرینڈ کو جب بھی بیماری لگتی تھی تب وہ اپنی گرل فرینڈ کی برا اور پینٹی کا استعمال کرتا تھا۔  میں ان تمام باتوں کو یاد کررہا تھا اور اس برا کو سونگھتے ہوئے شہوت کی دنیا میں کھونے لگا۔ آہستہ آہستہ میرے لنڈ میں جان پڑنے لگی تھی۔

خیر،،، اس ساری کروائے کے دوران میں وہی کرتا رہا جو آج کل کے لڑکے باتھ روم یا پرائیویٹ روم میں کرتے ہیں۔ پھر جب ہوش آیا تو میں نے اس برا کو دوبارہ اسی شاپر میں ڈالا اور چھپا دیا۔ جب بھی موقع ملتا میں یہ کام لازمی کرتا۔ اس سارے کام میں میرا پانی نہیں نکلا۔ شاید میں اس وقت بالغ نہیں تھا۔آخری اردو پرچے والے دن میں نے خالق کو وہ برا واپس کردی۔ خالق نے مجھے روک لیا جب ہمیں سکول میں تنہائی ملی تو اسی وقت خالق نے اس برا کو شاپر سے نکال کر الٹ پلٹ کر دیکھا میں سمجھ گیا کہ خالق اپنی گرل فرینڈ کی برا پر کیا ڈھونڈ رہا ہے۔

خالق: ٹوائلٹ چل۔۔۔ وہیں چلتے ہیں۔۔۔ میں خالق کے پیچھے چل پڑا۔ خالق نے میری پینٹ سے میرے لنڈ کو آزاد کروایا جو کہ اسی خوشی میں کچھ نہ کچھ ہارڈ ہو چکا تھا۔ خالق میرے ہلتے ہوئےلنڈ کو دیکھ کر مسکرانے لگا۔ خالق نے مجھے ایک صاف جگہ پر بیٹھا دیا اور خود بھی میرے قریب بیٹھ کر میرے لنڈ کو اپنے ہاتھ میں لے کر مسلنے لگا۔ پھر آہستہ آہستہ مٹھ لگانے لگا۔

جب میرا لنڈ تن کر تیار ہوگیا تب خالق نے اپنی گرل فرینڈ کی برا کو میرے لنڈ پر ایسے لپیٹا کہ میرا سارا لنڈ اس برا میں چھپ گیا۔خالق میرے لنڈ پر مٹھے لگائے جارہا تھا جبکہ مجھے مزے کے ساتھ ساتھ میرے لنڈ پر درد بھی ہونے لگا۔۔۔

خالق: یار۔۔۔ تیری عمر کتنی ہوگئی ہے؟ (سوچتے ہوئے)پھر بھی تیرا پانی نہیں نکل رہا۔

میں(خالق کی بات سن کر آہستہ سے بولا): تیرا کب نکلا تھا؟

خالق میری بات سن کر رک گیا۔خالق اس قدر اپنی سوچ میں ڈوبا ہوا تھا کہ میرے لنڈ میں جو جان پڑی ہوئی تھی وہ بھی جاتی رہی۔ وہ اسی کشمکش میں مبتلا تھا کہ میں عثمان کو اپنی کہانی سناؤ یا نہ سناؤ؟ خالق نے میرے لنڈ کو چھوڑ کر خاموشی سے ٹوائلٹ میں سے باہر چلا گیا ۔ میں نے اپنا یونیفارم ٹھیک کیا اور خالق کے ساتھ جا بیٹھا۔

 

 

Link to comment

میں: خالق۔۔۔(کچھ دیر خاموشی کے بعد) کیا ہوا؟؟؟ کچھ بولو گے؟

خالق:(سوچنے کے بعد) یار۔۔۔ آج تُجھ سے کوئی وعدہ نہیں کرواؤں گا کیونکہ مجھے معلوم ہے تو سچا بندہ ہے تو نے کچھ دیر پہلے جو کچھ پوچھا تھا۔۔۔ اس کا جواب تجھے سچا لگے یا جھوٹا۔۔۔ میں ایک دن سکول سے جلدی گھر پہنچ گیا، معلوم ہوا کہ سب کسی جنازے میں شریک ہونے کے لیے گئے ہیں۔ گھر پر چچی تھی، چچی نے مجھے کھانا دیا کچھ دیر بعد میں نے کپڑے تبدیل کیے اور سو گیا۔ کچھ دیر بعد مجھے اپنے جسم پر وزن محسوس ہوا تو میری آنکھ کھل گئی۔ میں کافی ڈر گیا تھا میں سوچ رہا تھا کہ کوئی جن، بھوت یا چڑیل مجھ پر بیٹھی ہے کیونکہ مجھے ہلکا ہلکا سسکنے کی آوازیں بھی سنائی پڑرہی تھی۔ امی اکثر مجھے بولتی تھی کہ دن کو کھانا کھانے کے فورا بعد سونا نہیں چاہیے۔ اگر لڑکے دن کو سو جائیں تو ان پر جن،بھوت کا سایہ ہوجاتا ہے جو رفتہ رفتہ اس لڑکے کے پیٹ سے کھانا نکال کر کھاتے رہتے ہیں۔ میں اسی ڈر کی وجہ سے آنکھیں بند کیے لیٹا رہا، مجھے اس وقت احساس ہوا جب میرے اوپر موجود جو بھی تھی یا تھا وہ اوپر نیچے مسلسل ہونے لگا تھا۔ میرے جسم میں عجیب سی سنساہٹ ہونے لگی تھی۔ میں خاموشی سے لیٹا ہوا اپنی آنکھیں مضبوطی سے بند کیے اس کے نیچے پڑا رہا۔

میرے اوپر موجود چڑیل کے ہاتھ میں چوڑیوں کی آواز پیدا ہورہی تھی اور میں امی کی بتائی باتوں میں موجود چڑیل کے سراپے کو سوچ رہا تھا۔ میرے حلق میں کافی تھوک جمع ہو چکا تھا جو ڈر کی وجہ سے میں اندر بھی نگل نہیں سکا۔ تب اچانک میری آنکھیں فورا کھل گئی کیونکہ میں مسلسل جاگ رہا تھا اور اپنی آنکھیں بند کرنے کی کوشش میں تھک چکا تھا۔ چچی کی آنکھیں بند تھی اور ان کا جسم پر ایک بھی کپڑا موجود نہیں تھا۔ میں نے اپنی نظر چچی کے چہرے سے لے کر اپنے پیٹ تک لائی اور پھر دوبارہ سے چچی پر لے آیا جو اپنے کام میں مشغول مسکرا رہی تھی۔

عثمان۔۔۔ یقین مانو ! اُس وقت میرے اندر کوئی ہوس نہیں تھی۔ جب چچی کافی دیر تک ایسا کرتی رہی تو کچھ دیر بعد چچی مجھ پر جھک کر میری گردن میں بازو گماکر مجھے اپنے ساتھ لگا لیا اور میرے جسم سے اپنا جسم رگڑتے ہوئے مجھے چومنے چاٹنے لگیں۔ چچی نے خود کو ٹھنڈا تو کرلیا لیکن میرے جسم میں ہوس کی آگ بھر دی۔ جب چچی کو محسوس ہوا کہ میں فارغ نہیں ہوا تب چچی میرے اوپر سے الگ ہوئی اور میرے لنڈ کو ہاتھ میں پکڑ کر اوپر نیچے کرنے لگی۔ چچی کی پھدی سے نکلنے والا سارا پانی میرے لنڈ اور ٹٹوں کو گیلا کر چکا تھا اس لیے چچی کو میرے لنڈ کو گیلا کرنے کی ضرورت محسوس نہ ہوئی۔ ان کے ہاتھ کی نرمی نے مجھے الگ ہی دنیا میں پہنچا دیا تھا۔ کچھ دیر بعد چچی نے دوبارہ سے وہی ننگا ناچ شروع کردیا جو کچھ دیر پہلے جاری تھا۔

کچھ دیر بعد مجھے محسوس ہوا کہ میرے اندر موجود سارا خون تیزی سے گردش کر رہا ہے اور ساتھ ہی ساتھ میرے گلے میں جون جولائی کی سخت گرمی پڑنے لگی۔ ہم دونوں ایک ساتھ فارغ ہونے لگے۔ چچی جان چکی تھی کہ میں جاگ رہا ہوں اس لیے فارغ ہونے کے دوران چچی میرے سارے جسم اپنی ہوس کے نشانات چسپا کرنے لگی۔

کچھ دیر بعد چچی مجھ سے الگ ہوئیں اور میرے بغل میں لیٹ کر اپنی پھدی میں انگلیاں ڈال کر چیک کرنے لگی۔

چچی: خالق۔۔۔ مزا آیا؟؟؟

میں کچھ بھی نہ بولا اور اپنی پیٹھ انکی طرف کر کے آہستہ آہستہ رونے لگا۔ کیونکہ میں چاچی کی بیٹی سے پیار کرنے لگا تھا اور وہ بھی۔ خیر چچی نے مجھے اسی حال پر چھوڑا اور رات کے کھانے کے بعد سے اگلی رات تک مجھ سے اپنی ہوس کی آگ ٹھنڈی کرواتی رہی۔ اب یہ روزانہ کا معمول بن چکا تھا جب بھی چچی کو موقع ملتا وہ شروع ہوجاتی۔ ایک دن جب میں سکول سے آیا تو امی نے بتایا کہ میری کزن کو بخار ہے (جس سے مجھے پیار ہوا تھا) اس لیے ہم ڈاکٹر کے پاس شہر جارہے ہیں۔ میں نے کافی بولا کہ میں ساتھ چلتا ہوں لیکن امی نے انکار کردیا۔ انکار کی وجہ یہی تھی کہ گاڑی میں جگہ نہیں تھی۔ ابو، امی، کزن، اور چچا جارہے تھے۔ اس دن بھی چچی نے اپنی آگ کو ٹھنڈا کروایا۔ اب تو مجھے اس سارے کام میں مزہ ہی مزہ ملتا تھا۔

میں(خالق کی رام لیلا سُن لینے کے بعد ): آج سب کچھ بتانے ہی والا ہے تو یہ بھی بتا دے کہ یہ سب میرے ساتھ تو کیوں کررہا ہے جب کہ۔۔۔

خالق: جب میں نہم جماعت میں تھا تب ہم دونوں کسی نہ کسی طریقے ٹائم نکال کر سکس (ہوس پوری) کرلیتے تھے، جس دن میں کسی بہانے سے چچی کو لے کر چھت پر گیا اور یہ سب کررہے تھے تب چچا اوپر آگئے۔ چچا نے ہمیں رنگے ہاتھوں پکڑ لیا چچی کو چچا نے نیچے بھیج دیا چچا نے مجھے اس وقت چھت پر لیٹا کر میری گانڈ کو کھول کر رکھ دیا۔ میرے چچا کو گانڈ مارنا بہت پسند تھا چچی نے کافی مرتبہ سکس کرتے وقت مجھے بتایا تھا۔ وہ اکثر چچا سے گانڈ مروانے کے بعد ادھوری رہ جاتی تھیں جس کی وجہ سے وہ روزانہ کسی نہ کسی سے چدوانے کا سوچتی، پھر ایک دن ان کو موقع مل گیا۔ اور یہ سب ہوتا چلا گیا۔ چچے کا بے شک ساڑھے پانچ یا اس سے چھوٹا تھا، لیکن میری گانڈ میں انہوں نے مرچیں ڈال دیں تھی(گانڈ مار کر)

کچھ دن کے بعد چچی میرے کمرے میں آئی اور آہستہ سے بولی کہ: میں نے تیرے چچا کو کافی سمجھایا ہے وہ اس سب کے لیے تیار ہیں لیکن ایک شرط ہے۔

میں بھی کچھ دنوں سے اس ہوس کی آگ میں جھول رہا تھا۔ اس لیے بغیر سوچے ہاں بول دی۔ ’’چچی رُک کیوں گئیں ؟؟؟ آپ اپنی شرط بتائیں۔

چچی: وہ چاہتے ہیں کہ ہم دونوں بے شک جو مرضی کریں لیکن جب اُن کا دل کرے گا تب تم ان کی ہربات مانو گے۔ کیا تم میری بات کا مطلب سمجھ رہے ہو؟؟؟

میں کافی دیر خاموش بیٹھا رہا میں سوچ رہا تھا کہ میری گانڈ کی گرمی جو چچا ختم کرسکتے ہیں اور میرے لنڈ کی گرمی چچی۔۔۔ دوسری سوچ یہ بھی کہہ رہی تھی کہ چچی کو یہ بات بولنی نہیں چاہیے تھی۔

چچی: مجھے معلوم ہے کہ تو میری بیٹی سے پیار کرتا ہے اور وہ بھی، میں تم دونوں کی شادی کروا دوں گی اگر تم چچا کی بات ٹالو گے تو یہ خواہش پوری نہیں ہوسکے گی۔

تب سے میں پہلے مجبوراَ یہ کام (چچا سے گانڈ، چچی سے مکمل سکس ) کرنے لگا پھر خود کی مرضی سے کرنے لگا۔ جب تیرے ہتھیار پر نظر گئی تب میری گانڈ کے کیڑے نے مجھے تنگ کرنا شروع کردیا۔ اب یہ فیصلہ تجھ پر چھوڑتا ہوں۔

میں: دوست۔۔۔ ہر کسی پر مشکل وقت آتا ہے، تیرا گزر گیا اب تو مزے کر میں تو چلا اپنے گھر۔

خالق: تجھے معلوم نہیں کہ یہ برا کس کی ہے؟ تو سوچ رہا ہوگا کہ یہ میں نے اپنی گرل فرینڈ کی برا لائی تھی۔ نہیں دوست۔۔۔ یہ میری چچی کی برا ہے جب پہلے پہلے وہ یہ پہنا کرتی تھی۔

میں نے اسے گالی دیتے ہوئے پوچھا: چاچی چود۔۔۔ اب تیرا کیا ارادہ ہے؟

خالق مسکراتے ہوئے: آج موڈ خراب ہوگیا اس لیے کینسل۔۔ ویسے کسی دن میرے ساتھ چلنا میری چچی کے پاس۔۔۔

میں نے اس کی طرف دیکھا جہاں اس کی آنکھوں میں صرف ہوس تھی۔ میں مسکراتے ہوئے اس کے بازو پر مکا مارتے ہوئے بولا: تیری چچی کی پھدی بھی مار لیں گے ’’مل کر‘‘ لیکن اب گھر چلتے ہیں کافی دیر ہوچکی ہے۔

 

Link to comment
×
×
  • Create New...