Administrators Administrator Posted May 15, 2016 Administrators Share #1 Posted May 15, 2016 اس نوجوان نے ایک مسافر کو ریلوے اسٹیشن پر دیکھا جو بنچ پر بیٹھا تھا۔ اس کے چہرے پر پریشانی کے آثار صاف پڑھے جا سکتے تھے۔ کافی وقت گزر گیا تھا لیکن وہ ایک حالت پر بے حس وحرکت بیٹھا رہا جیسے اس میں جان نہ ہو۔ اس کی یہ حالت اس نوجوان سے برداشت نہ ہوئی۔ اس نے مسافر کے پاس جا کر پریشانی کی وجہ پوچھی۔ وہ اس کے چہرے کو سرخ اور سوجھی آنکھوں سے تکنے لگا۔ وہ اسے اپنی پریشانی اور تکلیف بتانے سے گریز کر رہا تھا لیکن اس کے بار بار اصرار پر وہ اپنی بپتا سنانے لگا۔ وہ اپنے شہر سے یہاں گھڑیاں (Watches) فروخت کرنے لایا تھا لیکن وہ بِک نہ پائیں اور اب اس کے پاس اتنا وقت نہیں تھا کہ ان کو بیچ کر جائے۔ اگر ان کو واپس گھر لے جاتا ہے تو اس کا نقصان ہو گا۔ اس لیے پریشان اور غمگین بیٹھا تھا۔ اس نوجوان نے لمحہ بھر کے لیے تاخیر نہ کی اور اس غمزدہ مسافر سے ہمدردی کے طور پر وہ گھڑیاں وغیرہ خرید لیں۔ یہ ’’ہمدردی‘‘ اس نوجوان کی زندگی بدلنے کے لیے کافی ہوگئی۔ یہ نوجوان رچرڈ ویرن سیئرز تھا، جو بعد میں ایک بہترین منیجر، بزنس مین اور سیئرز کمپنی کا بانی بنا۔ یہ امریکا کی چوتھی بڑی ڈیپارٹمنٹ اسٹور کمپنی ہے، جو ریٹیل سیلز کا کام کرتی ہے۔ 2013ء میں اس نے اپنے سب سے بڑیحریف کمپنی کو آمدنی کے میدان میں مات دی۔ 1973ء میں اس کمپنی نے ایک نیا ہیڈ کوارٹر میں کھولا۔ یہ ٹاور 108 اسٹوری پر مشتمل ہے، جس کی بلندی 1451 فٹ ہے۔ 1998ء تک یہ دنیا کی بلند ترین عمارت تھی۔ رچرڈ ویرین سیئرز 7 دسمبر 1863ء میں منسوٹا میں پیدا ہوا۔ اس کا والد جیمر ویرن ایک لوہار تھا، جو چھکڑے اور وینگنیں بناتا تھا۔ رچرڈ کو اپنے باپ کے کام سے لگاؤ نہ تھا۔ اس نے اپنی پڑھائی کی طرف توجہ دی اور یہ پڑھائی کو ترجیح اور اہمیت دیتا تھا۔ اس کے باپ نے کئی بار کوشش بھی کی کہ وہ اس کا پیشہ سیکھے، تاکہ وہ اپنی روزی کمانے کے قابل ہو، لیکن اس کی ساری تگ ودو رچرڈ میں کوئی تبدیلی نہ لا سکی۔ 1870ء میں رچرڈ کا والد جیمز نے اپنی فیملی کے ساتھ اسپرنگ ویلی منسوٹا میں رہائش اختیار کرلی۔ بڑھتی مصروفیت اور بیٹے کی بزنس میں عدم دلچسپی نے 1975ء میں جیمز کو مجبور کیا اور اس نے اپنی دکان بیچ ڈالی۔ کچھ عرصہ تو ان پیسوں سے گھر کا چولھا جلتا رہا، لیکن وہ اس سے کب تک ٹھنڈا نہ ہوتا۔ گھر میں فاقے ہونے لگے۔ رچرڈ بھی پریشان اور فکرمند رہنے لگا کہ اس کی وجہ سے ابو نے دکان فروخت کردی ہے۔ اس نے گھر کا چولھا جلتے رکھنے کے لیے روزگار کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا۔ اس عرصے میں یہ اپنی تعلیم مکمل کر چکا تھا۔ اس نے روزی کے لیے ہاتھ پاؤں مارے تو آخر کار اسے ایک ریلوے دفتر میں بطور ٹیلی گراف آپریٹر کے ملازمت مل گئی۔ یہ 1880ء کی بات ہے جب رچرڈ کی عمر صرف 17 تھی اور اس پر ذمے داری کا بار ڈال دیا گیا۔ جب آپ کے ناتواں کندھوں پر ذمہ داری کا بوجھ لاد دیا جاتا ہے تو آپ کے چودہ طبق روشن ہو جاتے ہیں۔ آپ کی سوئی ہوئی صلاحیتیں جاگ اٹھتی ہیں۔ لڑکپن کی شرارتیں اور بے فکری چھوٹ جاتی ہے۔ ایک دم انسان بڑوں کی طرح سمجھدار اور عقل مند نظر آنے لگتا ہے۔ چہرے پر سنجیدگی آجاتی ہے۔ گفتار اور کردار دونوں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ سوچنے کا زاویہ مختلف ہو جاتا ہے۔ 1986ء میں ایسا واقعہ پیش آیا جس نے ہمیشہ کے لیے رچرڈ کا راستہ بدل کے رکھ دیا۔ ایسا ہوا کہ ایک گھڑیوں کی شپمنٹ جو شکاگو سے آئی تھی۔ اسے ایک مقامی ریٹیلر ایڈوارڈ نے لینے سے انکار کر دیا، جس کی وجہ سے وہ تا جر مسافر پریشان تھا۔ رچرڈ نے اس کی پریشانی دور کرنے کی ٹھان لی تھی۔ اتنی بڑی شپمنٹ خریدنا دل گردے کا کام تھا، کیونکہ رچرڈ کو اس کا ذرا برابر تجربہ نہ تھا۔ رچرڈ نے اس شپمنٹ کو خرید کر ایک دوسرے ریلوے ملازم کو بیچ دیا۔ اس سے معقول نفع حاصل ہوا۔ یہ کام رچرڈ کو بہت اچھا لگا۔ اس نے ریلوے ملازمت کے ساتھ ساتھ اپنا بزنس شروع کر دیا۔ گھڑیوں کا کاروبار خوب چل نکلا۔ رچرڈ نے دوسرے ریلوے ملازمین کو بھی اپنے اس بزنس میں شامل کر لیا۔ ریلوے کا مزید جال بچھنے سے مسافر بھی بڑھتے گئے۔ اب انہیں سفر کرتے ہوئے وقت کے بارے میں مشکل ہوتی تھی۔ انہوں نے اس کے حل کے لیے گھڑیاں خریدنی شروع کر دیں۔ اس طرح دیہات سے آنے والے کسان بھی اسے شوق سے خریدتے۔ اس طرح ریلوے ملازمین کو راہ گیروں اور مسافروں کا گھڑیاں بیچنے میں کوئی مشکل پیش نہ آتی تھی۔ صرف چھ ماہ میں رچرڈ 5 ہزار ڈالر کمانے میں کامیا ب ہوا۔ اس سے اس کا اعتماد مزید بڑھا اور اس نے آر ڈبلیو سیئرز واچ کمپنی کی بنیاد رکھی۔ اس نے اپنے بزنس کی ایڈورٹائزنگ شروع کر دی۔ اس نے ایسے گاہکوں کو ہدف بنایا جو اس کی گھڑیاں خرید سکتے تھے۔ انہیں یہ خط لکھتا۔ اس کے ساتھ مختلف دیہاتوں میں جاکر لوگوں کو اس کے فوائد گنواتا اور انہیں گھڑیاں خریدنے کا کہتا۔ رچرڈ ایک اچھا لکھنے والا اور بولنے والا تھا۔ یہ خود اشتہار کے لیے الفاظ کا چناؤ کرتا۔ بھرے مجمع میں تقریریں کرتا اور انہیں ڈاک کے ذریعے گھڑیاں منگوانے کا کہتا۔ 1887ء میں رچرڈ نے شکاگو کا رخ کیا اور یہیں اپنی کمپنی لے آیا۔ یہاں آکر اس نے ایک شخص ملازم رکھا جو گھڑیوں وغیرہ کی رپیئرنگ کرتا تھا۔ رچرڈ کا کہنا ہے کہ جب آپ اپنی پروڈکٹ بیچتے ہیں تو کسٹمر کو پروڈکٹ میں کسی خرابی یا مشکل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، اس کے حل کا انتظام ہونا چاہیے۔ میں نے اس لیے ملازم رکھا کہ میرے گاہک کو جب میری پروڈکٹ میں کوئی مسئلہ پیش آتا ہے تو وہ مجھ سے رابطہ کرتا ہے۔ میں اس کا مسئلہ حل کرنے کی کوشش کر تا ہوں۔ اس طرح وہ کسٹمر میرا گرویدہ ہو جاتا ہے۔ 2 Link to comment
Recommended Posts
Create an account or sign in to comment
You need to be a member in order to leave a comment
Create an account
Sign up for a new account in our community. It's easy!
Register a new accountSign in
Already have an account? Sign in here.
Sign In Now